''سائیں آپ کو خوشخبری سنانے کے لیے ہم نے بلایا ہے ‘‘
اپنی عینک کے گول گول شیشوں کے پیچھے آنکھیں گھماتے ہوئے صوبے کا طاقتور سیاستدان‘ نوجوان پولیس افسر کو مخاطب کرتے ہوئے بولا:
'' یس سر، میں آپ کے حکم پرآگیا ہوں‘‘ پولیس افسر نے باوقار انداز میں جواب دیا۔
''آپ کو ہم سب سے اہم ضلع کا ایس ایس پی لگا رہے ہیں۔ یہ ضلع ہمارا آبائی علاقہ ہے۔ ہمیں آپ پراعتماد ہے کہ آپ ہماری امیدوں پرپورا اتریں گے ۔''سیاستدان بولا
''بے حدشکریہ سر میں آپ کے اعتماد پرپورا اترنے کی کوشش کروں گا‘‘ نوجوان ایس پی نے اظہار ممنونیت سے جواب دیا۔
''شکریہ کا موقع ابھی نہیں آیا‘ جب آئے گا تو ہم آپ کو بلا کر بتا دیں گے کہ شکریہ کیسے ادا کرنا ہے‘ ابھی آپ پوسٹنگ آرڈر لیں اور کام کریں‘‘ گھاگ سیاستدان نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی۔
ایس پی نے اسے سلیوٹ کیا اور کمرے سے باہرنکل گیا ۔
اس نے ضلع کا چارج سنبھالا اور دن رات ایک کر کے امن وامان کی حالت درست کی۔ وہ دن دیکھتا نہ رات‘ خود بھی جان مار کر کام کرتا اورماتحتوں سے بھی کام لیتا۔ چند ہفتوں میں ضلع کی حالت بدل گئی۔ کئی نامی گرامی بدمعاش گرفتار ہوگئے۔ متعدد نے جان بچانے کیلئے ضلع ہی چھوڑ دیا۔ درجنوں بدعنوان اور راشی پولیس اہلکار معطل اور برطرف کرائے گئے۔ اس نے چُن چُن کر اچھے ‘ایماندار اور فرض شناس افسران کی ٹیم بنائی۔ اس طرح جرائم سے لتھڑے ضلع کو امن کا گہوارہ بنا دیا۔ اس کی اس کارکردگی کو ہرجگہ سراہا جانے لگا۔ اعلیٰ پولیس افسران ‘عدلیہ ‘عوام غرض ہر کوئی اس کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔
ایک دن اسے دوبارہ صوبے کے اسی حاکم کے دفتر سے طلبی کا فون آیا۔ وہ مقررہ وقت پر پہنچ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی حسن کارکردگی پر اسے شاباش کے لیے بلایا گیاہوگا۔ نوجوان پولیس افسر کمرے میں داخل ہوا تو اس کے کانوں میں آواز گونجی ''کیا حال ہے‘‘ حکمران خوشدلی سے بولا۔
''سر بہت اچھا۔ آپ کی دعا سے میں نے ضلع کو مثالی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔آپ کو رپورٹیں تو ملتی ہوں گی ‘‘ ایس پی نے جواب دیا۔
''سائیں اس کو چھوڑو ‘ وہ آپ کا اور آپ کے محکمے کا مسئلہ ہے۔ میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ اب آپ کاشکریہ ادا کرنے کا وقت آگیا ہے‘‘ حکمران رعونت سے بھرپور لہجے میں بولا۔
میں '' سمجھانہیں‘‘ایس پی نے استفہامیہ لہجے میں پوچھا۔
''سائیں آپ کو ایس ایس پی لگاتے وقت آپ نے شکریہ ادا کیا تھا تو میں نے آپ کو بولا تھا کہ ابھی شکریہ کا وقت نہیں۔ جب آئے گا تو آپ کو بتا دوں گا۔ آج وہ وقت آگیا ہے۔ ہمارے ضلع میں ضمنی انتخاب ہورہا ہے اور اس میں آپ نے میرے امیدوار کوکامیاب کرانا ہے ۔‘‘ حکمران نے تحکمانہ انداز میں اپنی فرمائش بیان کر ڈالی۔
''سرمیرا اس الیکشن سے کیا تعلق؟ میں کسی امیدوار کو وہاں کیسے کامیاب کرا سکتاہوں؟ مجھے تو اس صوبہ میں آئے چارماہ ہوئے ہیں ‘میری کسی سے کوئی جان پہچان نہیں ‘‘افسر نے جواب دیا۔
''سائیں آپ نے کچھ نہیںکرنا۔ ہمارا امیدوار آج سے جو حکم دے گا آپ نے اس کے مطابق عمل کرنا ہے ۔ آج سے سارے ضلع کی پولیس پر اس کا آرڈر چلے گا۔ سمجھیں کہ اس الیکشن کے دوران آپ چھٹی پر رہیں گے ‘‘
سیاسی حکمران نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
''سوری سر ‘ میں ایسا نہیں کر سکتا کہ سارا ضلع جسے میں نے بڑی محنت سے درست کیا اور جہاں کے عوام مجھ پر اعتماد کرنے لگے ہیں، میں اس شہر کو آپ کے امیدوار کے حوالے کر دوں، محض اس لئے کہ وہ پولیس کو غلط استعمال کر کے الیکشن جیت جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا '' ایس پی نے مدلل اور مضبوط انداز میں اپنی رائے دی۔
''اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو آپ کو یہ ضلع آج سے ہی چھوڑنا ہو گا‘‘ حکمران غصیلے لہجے میں بولا۔
''اوکے سر ‘مجھے منظور ہے ‘‘
نوجوان ایس پی نے بھی اسے کھڑے کھڑے جواب دے دیا اورکمرے سے باہر نکل آیا ۔
صوبے کے حکمران کو اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ اس کاخیال تھاکہ جس نوجوان پولیس افسرکو اس نے چند ماہ قبل ضلع کا ایس ایس پی لگایا تھا وہ اس کا زیربار احسان ہو کر ضمنی انتخاب میں اس کے امیدوارکو جتوانے کیلئے پولیس کو کھل کر استعمال کرنے کی راہ میں مزاحم نہیں ہوگا۔مگر ایسا نہ ہوسکا۔
بہرحال اس نوجوان ایس ایس پی کو ضلع کی سربراہی سے پولیس ہیڈکوارٹر کی ایک غیر اہم پوسٹ پر تعینات کر دیا گیا اور ضلع میں ایک بدنامِ زمانہ بدعنوان پولیس افسر کو ایس ایس پی مقررکردیا گیا جس نے آتے ہی ضلع کی پولیس کوحکمران جماعت کے امیدوار کی اردل میں دے دیا۔ سارے ضلع کے ایس ایچ او ‘ڈی ایس پی راتوں رات بدل دیئے گئے ۔ڈھونڈ ڈھونڈ کر راشی اور وارداتیے پولیس افسر لگا دیئے گئے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف اندھا دھند جھوٹے مقدمات درج ہونے لگے۔اپوزیشن کے کارکنوںکو ہراساں کیا گیا۔ پولنگ والے دن مخالف امیدوار کو ووٹر لانے لے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ تک مہیا نہ ہونے دی۔ ان کے پولنگ کیمپ غنڈہ گردی کر کے اجاڑ دیئے گئے۔انتخاب کا نتیجہ وہی نکلا جو ایسے انتخاب کا ہوا کرتا ہے۔ خوب جھرلو پھیرا۔ ہارنے والی پارٹی نے اس دھاندلی کے خلاف واویلا کیا لیکن چند دنوں میں اس پارٹی کے بعض سرگرم رکن نامعلوم افراد کے ہاتھوں مارے گئے۔ ایک دو ٹریفک حادثات میں روند دیئے گئے۔ انتخابی عذرداریاں دائر ہوگئیں جن کا نتیجہ وہی نکلا جو اس سے قبل ہونے والے انتخابات میں نکلا کرتا ہے یعنی انتخابی اداروں کی آئینی مدت ختم ہو گئی مگر عذرداریوں کے فیصلے نہ ہو سکے ‘حتیٰ کہ نئے انتخابات کا وقت آپہنچا ۔
یہ کھیل کل بھی جاری تھا آج بھی جاری ہے اورآئندہ بھی جاری رہے گا۔ اس کھیل میں صوبے کی سیاسی قیادت کی گرفت اقتدار اعلیٰ پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ اب وہ اس صوبہ کی ناقابل تسخیر سیاسی قوت بن چکی ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں ہل سکتا۔ وہ سیاہ و سفید کی بلاشرکت غیرے مالک ہے۔ اس کے رہنما اور چیلے چانٹے خوب موج میلہ کر رہے ہیں۔ سرکاری محکموں میں ان کا حکم چلتا ہے۔ پولیس ان کی غلام ہے۔ کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ یہ سیاست کا کھیل ہے جو خوب کھیلا جا رہا ہے لیکن اس کھیل میں یہ صوبہ آگ اور خون میں ڈوب چکا ہے۔ اس کا صوبائی دارالحکومت جو ملک کی معاشی شہ رگ کہلاتاہے بدامنی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں غرق ہورہا ہے۔ اغوا برائے تاوان شہر کی سب سے بڑی تجارت بن چکا ہے۔ بھتہ مافیاکا ہر جگہ راج ہے۔ معمولی نانبائی سے لے کر بنک اوربین الاقوامی کاروباری ادارے تک بھتہ گروپوں کو بھتہ دینے پرمجبور ہیں۔ سٹریٹ کرائمز انتہائوں کو چھو رہا ہے۔ شہر میں اسرائیلی ‘ بھارتی غرض ہر قسم کے غیر ملکی ساخت کے اسلحہ اور گولہ بارودکے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔
باقی صفحہ 13پر
جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصرکی طاقت کا یہ عالم ہے کہ وہ ایسے خطرناک خودکار ہتھیاروں سے لیس ہیں جوپولیس کی بلٹ پروف گاڑیوں اوربکتر بند کاروں کوچیرکر پولیس اہلکاروں کو موت کی وادی میںاتار دیتے ہیں۔ شہر کی پولیس اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے مواصلاتی اور انٹیلی جنس نظام میں اس طرح نقب زنی کی گئی ہے کہ کسی بھی آپریشن میں کارروائی سے قبل مجرموں کو اطلاع مل جاتی ہے‘ نتیجہ :پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پہنچنے سے قبل جرم کے نشانات مٹا دیئے جاتے ہیں۔ مجرم غائب ہوجاتے ہیں ۔
کسی مجرم کے گرفت میں آنے کے باوجود اسے عدالتوں سے سزانہیں ہوسکتی کیونکہ جرائم پیشہ عناصر مقدمہ کے مدعیوں ‘ چشم دید گواہوں اور قانون کے دیگر مددگاروں کو ان کے گھروں میںجا کر موت کے گھاٹ اتار آتے ہیں۔ ایسے میں کس میںحوصلہ ہوگا کہ وہ ان کے خلاف عدالتوں میں کھڑا ہو۔جج بھی اسی شہر کے مکین ہیں۔ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو بھی تحفظ چاہیے۔ پولیس اور قانون انہیںیہ تحفظ فراہم نہیں کر سکتا۔ شہر میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں نے اپنا مضبوط نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔ وہ مختلف سیاسی‘ علاقائی و لسانی فرقہ وارانہ اور مذہبی تنظیموں کے اندر سرایت کر چکی ہیں۔ اسلحہ ،پیسہ ، وسائل ، تحفظ غرض جوشے بھی ان کے آلہ کاروں کو درکار ہوتی ہے‘ فراہم کردی جاتی ہے ۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں فرض شناس اور جرأتمند افسر‘ان کا خصوصی ہدف ہیں۔ پولیس کا ایک سپاہی ٹھکانے لگانے والے کو 5لاکھ، انسپکٹر کے قتل پر 20لاکھ اور ایس ایس پی کے عہدے کے افسر کو مارنے پر ایک کروڑ روپے کا انعام اس تنظیم کو ملتا ہے جو یہ کام سرانجام دے ۔ماضی میں اس شہر میں بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف جتنے بھی آپریشن ہوئے‘ ان میں سرگرمی سے حصہ لینے والے پولیس اہلکار موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے یا وہ اپنی جانیں بچا کرنام بدل کربیرون ملک بھاگنے پرمجبور کر دیئے گئے۔ اس وقت صوبہ میں پولیس کا نظام مکمل طور پر ناکام اورناکارہ بنایا جا چکا ہے۔ تھانوں میں ایس ایچ او کو 50لاکھ کا نقد نذرانہ دے کر لگایا جاتاہے۔ ایس ایچ او لگنے کے بعد لین دین کا معاملہ ختم نہیں ہوتا بلکہ ہر ماہ 3سے 5لاکھ روپے اعلیٰ عہدیداروں کی فرمائشوں کی تکمیل پر خرچ کرنے کا بندوبست بھی کرنا پڑتاہے ۔
ضلع کے ایس پی کی تقرری تو ایک کروڑ سے پانچ کروڑ تک جاتی ہے۔ یہ رقم کسی فرد واحد کی جیب میںنہیں جاتی بلکہ حصہ بقدر جثہ کے مطابق تقسیم ہوتی ہے۔ اس کے عوض ہر تھانے میں موبائل فون چھیننے والوں سے لے کر بھتہ اکٹھا کرنے والے گروہوں کو کھلی چھٹی دی جاتی ہے۔ اس شہر میں پولیس کے نظام کی بربادی کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ جو ایس پی کسی ضلع میں لگتا ہے وہ اور کچھ نہ کرے کم از کم ایک پٹرول پمپ کا مالک ضرور بن جاتا ہے ۔آپ کراچی شہر کے پٹرول پمپوں کا ریکارڈ نکال کردیکھیں گے تو ہردوسرا پٹرول پمپ کسی نہ کسی پولیس افسر کی ملکیت ہوگا۔ اسی لئے بعض لوگوں نے پولیس سروس آف پاکستان کو پٹرولیم سروس آف پاکستان کانام دے دیا ہے ۔
سوال پیداہوتا ہے کہ پولیس سروس آف پاکستان کو پٹرولیم سروس آف پاکستان بنانے میں اصل قصور وارکون ہیں؟ اس کے ذمہ دار صرف اورصرف صوبہ کے وہ حکمران ہیںجنہوں نے محض اپنے سیاسی اور جماعتی مفادات کے تحفظ کیلئے بدعنوان ‘کردار سے عاری اور خوشامدی پولیس افسروں کو شہریوں کی جان و مال اور آبرو سونپ دی۔ جو دل کھول کر ان سے کھیل رہے ہیں ‘ نہ کسی کی جان محفوظ ہے اور نہ مال ‘نہ کسی کی عزت کو تحفظ ہے اور نہ کسی کو انصاف مل رہا ہے۔ باصلاحیت، ایماندار اور نڈر افسران کونوں کھدروں میں پڑے کڑھ رہے ہیں اور بے ایمان افسران دندناتے پھر رہے ہیں۔ تقرر اور تبادلوں میں میرٹ کی بجائے ذاتی پسندوناپسند اور ادنیٰ سیاسی اور گروہی مفادات کو ترجیح کی روش عام ہے اور آج اس روش نے اس شہر میں پولیس کے سارے نظام کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف آبادی کا عفریت تیزی سے سر اٹھا رہا ہے تو دوسری طرف اس شہر کے وسائل پر قبضہ اوربالادستی کی جنگ میں مصروف کار گروہوں کی جتھا بندی عروج پر ہے۔ غیر ملکی تنظیمیں پاکستان کی اس معاشی شہ رگ پر قبضہ کر رہی ہیں۔ اگر اس صورتحال کا تدارک نہ کیا گیا تو کراچی بیروت بھی بن سکتا ہے اورہمارے ہاتھ سے نکل کر آزادہانگ کانگ کا روپ بھی دھار سکتا ہے۔ اس شہر میں قانون کی حکمرانی اور ریاست کی رٹ کی بحالی کے لئے پولیس سروس آف پاکستان کو پٹرولیم سروس آف پاکستان کے گندے روپ سے نجات دلانا ہوگی۔