"MMC" (space) message & send to 7575

میاں صاحب! جاگدے رہنا‘ ساڈے تے نہ رہنا

سال 1992ء... وزارت داخلہ کے میٹنگ روم کے باہر سرخ بتی جل رہی تھی اور اندر انتہائی اہم اجلاس ہو رہا تھا۔وفاقی دارالحکومت اور اس میں واقع ایوان صدر، وزیراعظم ہائوس، پارلیمنٹ ہائوس، سپریم کورٹ، سفارتخانوں اور دیگر اہم عمارات، دفاتر اور ان کے مکینوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے انتظامات کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔ وفاقی سیکرٹری داخلہ اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ انتظامیہ، پولیس اور حساس اداروں کے سربراہان اپنی اپنی تجاویز دے رہے تھے۔ داخلی سلامتی سے متعلق اس اجلاس میں حزب اختلاف کی مختلف جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد کی طرف سے لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی وضع کی جارہی تھی۔وفاقی دارالحکومت میں موجود پولیس کی نفری وزارت داخلہ کے ماتحت، رینجرز اور کانسٹیبلری کے ارکان کی تعداد، اسلحہ اور دیگر وسائل کے بارے میں اعدادوشمار پیش کئے جارہے تھے۔وفاقی حکومت کا مسئلہ یہ تھا کہ جڑواں شہر راولپنڈی پنجاب کی صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں شامل تھا اور صوبہ کی حکومت بھی اپوزیشن کے اتحاد میں شمولیت اختیار کرچکی تھی لہٰذا وفاقی وزارت داخلہ اور دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ کو اپنے محدود وسائل سے ہی اپوزیشن کے اس لائولشکر کا مقابلہ کرنا تھا جو کئی مہینوں کی بھرپور تیاریوں کے بعد اسلام آباد پر ہلہ بولنے آرہا تھا۔ وفاقی سیکرٹری داخلہ جو خاصے پرجوش اور بھرپور انتظامی صلاحیتوں کے حامل افسر تصور کئے جاتے تھے، اس صورتحال سے کسی حد تک پریشان دکھائی دیئے تھے، تاہم اپنے تجربہ، اہلیت اور وسائل کے مطابق اس لانگ مارچ کو اسلام آباد سے باہر روکنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زورلگا رہے تھے۔اسلام آباد میں داخلے کے مختلف راستوں کا جائزہ لینے کے دوران یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ مری، آزادکشمیر اور پشاور سے آنے والے راستوں کو بند کرنا ممکن ہے لیکن ملحقہ شہر راولپنڈی کے میلوں میل پھیلے راستوں کو بند کرنا بہت مشکل کام تھا۔ پیرودھائی روڈ، اسلام آباد ہائی وے تک دونوں شہروں کے مابین ان گنت ایسے راستے موجود تھے جن کے ذریعے پیدل راہگیروں اور موٹرسائیکل سواروں کی آمدورفت جاری رہنے کا امکان بدستور موجود تھا۔اگر بڑی شاہراہوں اور چوراہوں کو بند بھی کرلیا جائے تب بھی ان تنگ راستوں کے ذریعے ہزاروں لوگ اسلام آباد میں داخل ہوسکتے تھے۔اگراسلام آباد پولیس کی ساری نفری ان تمام راستوں کو سیل کرنے پر لگا دی جائے تو آنے والے مظاہرین کو کون روکے گا اور ایک ہی شہر کے اندر واقع عمارات کی حفاظت کیسے ممکن بنائی جائے گی۔
شرکائے اجلاس میں سے کسی جہاندیدہ افسر نے تجویز پیش کی کہ کیوں نہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کر کے اہم داخلی ناکوں پر پولیس کے ساتھ ساتھ فوجی جوانوں کی کچھ نفری بھی بلالی جائے جن کی موجودگی میں مظاہرین نہ تو ان ناکوں کو عبور کرنے کی کوشش کریں گے اور نہ ہی دفعہ 144 کی خلاف ورزی ہو گی۔ اس طرح نفری کی کمی کا مسئلہ بھی کسی حد تک حل ہو جائے گا۔ اسلام آباد کے اندر تمام اہم عمارات اور دفاتر کی حفاظت کیلئے پولیس کی نفری تعینات کی جائے جبکہ اہم شاہراہوں اور چوراہوں پر بھی پولیس موجود رہے گی۔ سب شرکاء نے اس آئیڈیا کی بھرپور تائید کی۔ سیکرٹری داخلہ کے چہرے پر بھی اطمینان کی لہر دوڑ گئی، وہ بولے ٹھیک ہے ہم اپنی فورس سے اسی طرح کام لیں گے۔ اسلام آباد کے داخلی مقامات پر پولیس کے ساتھ ساتھ فوج کی نفری بھی موجود رہے گی۔ انہوں نے آئی جی اور دیگر حکام کو اس پلان کے مطابق اقدامات کرنے کی ہدایت کردی اور وہ خود وزیراعظم ہائوس چلے گئے تاکہ فوج کی نفری منگوانے کیلئے ان سے کہا جائے۔وہ وزیراعظم نوازشریف سے ملے۔ اپنا سکیورٹی پلان ان کے سامنے رکھا۔ وزیراعظم فوج کی نفری بلانے کے حق میں نہیں تھے لیکن سیکرٹری داخلہ کا موقف تھا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ویسے بھی قانون کے تحت سول حکومت جب چاہے فوج کو اپنی مدد کیلئے طلب کرسکتی ہے۔وزیراعظم نے دیگر رفقاء سے مشورہ کیا، انہوں نے بھی اس کی تائید کی۔چنانچہ وزیراعظم کے حکم پر فوجی ہائی کمان سے رابطہ کیا گیا۔ وہاں سے نفری کی فراہمی اور امن وامان بحال رکھنے کیلئے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرادی گئی۔وزیراعظم نے سیکرٹری داخلہ کو متعلقہ حکام سے رابطہ کرکے ان انتظامات کو عملی شکل دینے کی ہدایت کردی۔
اگلے چند گھنٹوں میں فوجی حکام سیکرٹری داخلہ کے کمرے میں تھے۔ انہیں مطلوبہ مقامات پر فوجی جوانوں کی تعیناتی کے بارے میں بریف کردیا گیا۔ شام ہوتے ہی فوجی جیپیں راولپنڈی چھائونی سے نکلیں، وائرلیس سیٹوں اور اسلحہ سے لیس نفری اسلام آباد پہنچ گئی۔ایس ایس پی اور ڈپٹی کمشنر کمانڈنگ افسران کے ساتھ ساتھ پھر رہے تھے۔سول انتظامیہ کے مشورے سے مختلف مقامات پر فوجی جوانوں نے ریت کی بوریوں کے مورچے کھڑے کر دیئے جن کے عقب میں مسلح فوجی جوان بھی تعینات کردیئے گئے۔ مختلف اہم عمارات کی حفاظت کیلئے پولیس اور رینجرز کی نفری کو بھی چوکس انداز میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران نے اس مدد پر سکھ کا سانس لیا جس کی بدولت وہ آنے والے بحران سے کسی حد تک نمٹنے کے قابل ہو گئے۔سیکرٹری داخلہ نے آئی جی اور دیگر افسران سے سب اچھا کی رپورٹ ملنے کے بعد وزیراعظم کو فون پر آگاہ کردیا کہ اسلام آباد کی حفاظت اور لانگ مارچ روکنے کیلئے فوج کی مدد سے تمام انتظامات مکمل ہوگئے ہیں لہٰذا اب فکر کی کوئی بات نہیں۔وزیراعظم نے انہیں اس فرض شناسی پر ویل ڈن کہا۔رات پڑچکی تھی۔ تمام سینئر افسران اپنے اپنے گھروں کو جاچکے تھے کہ اسی اثناء میں اسلام آباد پولیس کے ایک افسر کا اتفاقاً ایک سڑک سے گزر ہوا تو اس نے دیکھا کہ ایک مورچے پر کھڑے فوجی جوان سیمنٹ کی بوریاں اور دیگر سازوسامان قریب کھڑے ٹرک میں واپس رکھ رہے تھے، اس نے حیرت سے ڈیوٹی پر موجود جوانوں سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے، وہ کہاں جارہے ہیں تو انہوں نے کوئی جواب دینے کی بجائے ذرا فاصلے پر کھڑے اپنے افسر کی طرف اشارہ کردیا، جو اس وقت فوجی وائرلیس سیٹ کان سے لگائے بات کر رہا تھا۔ پولیس افسر نے اپنا تعارف کرانے کے بعد اس فوجی صوبیدار سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو اس نے مختصر سا جواب دیا کہ ہمیں واپس ہیڈکوارٹر جانے کا حکم ملا ہے لہٰذا ہم واپس جارہے ہیں۔ اس سے زیادہ اس نے بات کرنا مناسب نہ سمجھا اور جوانوں کو جلدی جلدی سامان ٹرک میں رکھنے کی ہدایت کرکے آگے بڑھ گیا۔پولیس افسر کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا، اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ وہ بھاگم بھاگ سیدھا آئی جی آفس پہنچا، وہ خالی تھا‘ آئی جی صاحب گھر جاچکے تھے۔ فون پر انہیں یہ جانکاہ خبر سنائی کہ اسلام آباد کی حفاظت کیلئے بلائے گئے فوجی دستے واپس جارہے ہیں۔آئی جی صاحب کی بھی ہوائیاں اُڑ گئیں، انہوں نے سیکرٹری داخلہ کو آگاہ کیا تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ رات ہو چکی تھی‘ پولیس کی نفری طے شدہ پلان کے مطابق تعینات کی جاچکی تھی۔اب کیا کیا جائے۔ بہرحال انہوں نے مختلف فون گھمائے لیکن کوئی متعلقہ فوجی افسر دستیاب نہ تھا۔ بڑی مشکل سے ان کا رابطہ کرنل کے عہدے کے ایک افسر سے ہوا تو اس نے تصدیق کردی کہ فوجی دستے واپس بلانے کا حکم آگیا تھا لہٰذا وہ واپس جارہے ہیں۔سیکرٹری داخلہ نے وزیراعظم ہائوس رابطہ کرکے صورتحال سے آگاہ کیا، وہاں سے ٹھنڈی آہ کے سوا کیا جواب ملتا۔سیکرٹری داخلہ نے پولیس افسران کو دوبارہ بلایا۔ ہنگامی طور پر پولیس لائن اور تھانوں میں موجود بچی کھچی نفری حتیٰ کہ خانساموں اور ذاتی ملازمین کو پولیس کی وردیاں پہنا کر مختلف مقامات پر کھڑا کیا گیا۔ریلوے پولیس کو ہنگامی طور پر طلب کیا گیا، شہری دفاع اور ضلعی انتظامیہ کے دفاتر کے اہلکاروں کو بھی پولیس کی وردیاں پہنا کر ڈنڈے سوٹے دے کر مختلف جگہوں پر تعینات کیاگیا۔ رات بھر پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران گاڑیوں میں بندے ڈھو ڈھو کر ناکوں پر پہنچاتے رہے۔اگلے دن حزب اختلاف کا لانگ مارچ پوری شان وشوکت سے اسلام آباد کی طرف عازم سفر ہوا۔ انہیں اطلاع مل چکی تھی کہ اسلام آباد کی حفاظت کیلئے طلب کئے جانے والے فوجی دستے واپس چلے گئے ہیں۔ اب ان کے راستے میں مزاحم ہونے والی فورس کی اصل حقیقت اور طاقت کیا ہے۔ یہ پیغام وزیراعظم نوازشریف کو بھی سمجھ میں آچکا تھا۔ لانگ مارچ کرنے والے بڑے لیڈران کے معاملات طے پاگئے۔ اگلے چند ہفتوں میں نوازشریف اقتدار سے باہر تھے اور اقتدار لانگ مارچ کرنے والوں کے ہاتھ آچکا تھا۔
اس واقعہ کو کئی سال بیت چکے ہیں۔ میرے ذہن سے بھی اس لانگ مارچ کی کہانی محو ہو چکی تھی کہ ایک بار پھر اسلام آباد کیلئے لانگ مارچ کا اعلان ہو گیا ہے۔ یہ لانگ مارچ اس سال 14 اگست کو ہو گا اور اس لانگ مارچ کیلئے شعلہ بیاں علامہ طاہر القادری اور سیماب صفت عمران خان ٹرک پر سوار ہو کر اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ اسلام آباد کی انتظامیہ، وفاقی دارالحکومت کی حفاظت اور مظاہرین کو روکنے کیلئے بھاگ دوڑ کر رہی ہے۔ موجودہ سیکرٹری داخلہ کی سربراہی میں سرخ بتی والے میٹنگ روم میں اہم اجلاس ہو رہے ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف ان انتظامات پر مطمئن ہوں۔اللہ کرے ان کا یہ اطمینان قائم رہے لیکن نہ جانے مجھے ایک سٹیج ڈرامے کے بذلہ سنج چوکیدار کے اُن الفاظ کی گونج کیوں سنائی دے رہی ہے جو پہرے کے دوران کہا کرتا تھا:
''جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا‘‘ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں