"MMC" (space) message & send to 7575

اوکھی راہوں کے دو مسافر

رمضان المبارک کا مہینہ تھا‘ اوبرائے ہوٹل مدینہ میں شریف فیملی کیلئے مختص فلور کے ڈائننگ ہال کی میز پر گپ شپ ہورہی تھی۔ گفتگو اتنی طویل ہوچکی تھی کہ دیگر اہلِ خانہ اپنے اپنے کمروں میں سونے کیلئے چلے گئے، میز پر میاں نوازشریف، شہبازشریف اور میں ہی رہ گئے۔ مشرف کاملٹری ٹیک اوور، افغانستان کی صورتحال، خطے میں امریکی مفادات سے بات ہو تی ہوئی پاکستانی سیاست پر آپہنچی۔ میاں نوازشریف ان دنوں تازہ تازہ اٹک جیل سے رہائی حاصل کرکے سعودی عرب پہنچے تھے، ان کے دل میں جنرل مشرف اور ان کے ساتھی جرنیلوں کی بغاوت، وزارت عظمیٰ سے محرومی اورکراچی ، اٹک جیل کی صعوبتوں کے زخم تازہ تھے ،تاہم ان سب باتوں سے بڑھ کر میاں نوازشریف کو اپنی پارٹی اور سیاسی رفقاء کی بے وفائی کا دکھ تھا۔ وہ کہنے لگے ''میں نے اس پارٹی کو بنانے اور اسے حقیقی معنوں میں ایک بھرپور عوامی جماعت بنانے کیلئے دن رات ایک کر دیا، پاکستان کا قریہ قریہ، گلی گلی پھرا، پورا ملک مسلم لیگ زندہ باد کے نعروں سے گونجتا رہا۔ ہمارے مقابلے میں پاکستان پیپلزپارٹی ایک پرانی اور بڑی پارٹی تھی‘ ہم نے اسے سیاسی میدان میں شکست دی ،ہمارے خلاف کئی سیاسی اتحاد اور محاذ بھی بنے ، میں نے ہر ایک کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پارٹی کو سرنگوں نہیں ہونے دیا ۔لیکن افسوس صد افسوس کہ جب مجھ پر براوقت آیا تو سب سے پہلے میری پارٹی نے ہی مجھے چھوڑ دیا۔ مجھے مسلم لیگیوں کے مقابلے میں پیپلزپارٹی والے زیادہ آنر یبل لگتے ہیں۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فوجی آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، پھانسیاں لگیں ،کوڑے کھائے، جیلیں کا ٹیںلیکن پارٹی کو زندہ رکھا۔ انہوں نے اپنی قیادت کا ساتھ نہیں چھوڑا جبکہ ہم نے اپنی پارٹی اور اس کے لوگوں کے لئے کیا کچھ نہیںکیا! دکھ تو یہ ہے کہ عوام نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ 12اکتوبر1999 ء کواگر چند سو لوگ بھی پنڈی کی کسی سڑک پرآجاتے تو جنرل مشرف بھاگ جاتا ،وہ عوام کے ردعمل سے ڈرا ہوا تھا اسی لئے اس نے براہِ راست چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے کااعلان بھی نہیں کیا‘‘۔ میاں نواز شریف بولتے جارہے تھے اور میں محو گوش تھا۔ مجھے طویل عرصہ بعد ان سے ملاقات اور ان کے نکتۂ نظر سے آگاہی کا موقع اس وقت ملا تھا جب میں رمضان المبارک میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کیلئے مدینہ منورہ پہنچا جہاں حرم شریف میں میری ان سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مجھے کھانے کی دعوت پر اپنے ہوٹل میں مدعو کیا۔ ان دنوں شریف خاندان سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔اس خاندان کے سربراہ میاں محمد شریف مرحوم اس وقت بقید حیات تھے تاہم وہ وہیل چیئر پر ہی اپنی قیام گاہ سے حرم شریف آیا جایا کرتے تھے اور میاں نواز شریف کسی دوسرے شخص کو ان کی وہیل چیئر کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے، وہ خود ہی انہیں اس پر بٹھاتے اور وہیل چیئر کو چلاتے ۔اس روز گفتگو کا آغاز شریف خاندان کی جلاوطنی کے ایام سے ہوا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیسے دن گزر رہے ہیں؟ نواز شریف بولے :اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے گھر بلا لیا ، یہاں اچھا وقت گزر رہا ہے بالخصوص رمضان المبارک میں حرم شریف کی رونقیں روح کو عجب تسکین بخشتی ہیں،ایک دفعہ حرم شریف میں چلے جائیں تو واپس آنے کو دل نہیں کرتا ، باتوں باتوں میں سیاسی موضوعات بھی چھڑ گئے جن پر نواز شریف کھل کر بولے۔ اسی تناظر میں وہ عوام کے سیاسی رویوں کا بھی گلہ کر رہے تھے ۔ میں خاموشی سے انہیں سن رہا تھا۔ نواز شریف جب اپنی بات کر چکے تومیاں شہباز شریف بولے: '' میرے خیال میں ہمیں کسی سے کوئی گلہ نہیں کرنا چاہیے بالخصوص عوام سے توہم کوئی شکوہ نہیں کرسکتے، عوام نے ہمیں دومرتبہ بھرپور ووٹ دیئے، پہلی بار ہم ان کے پاس گئے تو عوام نے ہمیں سادہ اکثریت سے جتوایا ،لیکن ہم اس حکومت کی مدت بھی پوری نہ کر سکے ‘‘۔جس پرنوازشریف قدرے طنزیہ لہجے میں بولے: ''گویا وہ ہماری غلطی تھی، ہم نے اپنی حکومت خود گنوائی؟غلام اسحاق خان کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا ،کیا یہ حقیقت نہیںکہ اس نے ہمیں پہلے دن سے چلنے نہیںدیا، وہ قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کررہا تھا اور سازشیں کررہا تھا‘‘۔
شہبازشریف بولے ''میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ غلطی کس کی تھی ،چلیںہماری وجہ سے نہیں غلام اسحاق خان کی سازشوں سے ہی ہماری حکومت ختم ہوگئی۔ بہرحال عوام تو ہمیں ووٹ دے کراقتدار میں لے آئے تھے۔دوبارہ انتخابات ہوئے‘ ہم پھر عوام کے پاس گئے اور ہم نے عوام سے کہا کہ ہمیں دو تہائی اکثریت دلائیں ،عوام نے ہمیں جھولیاں بھرکر ووٹ دیئے ہم دو تہائی اکثریت سے حکومت میں آگئے لیکن ہماری حکومت دوبارہ مدت پوری نہ کر سکی اورہم پھر اقتدار سے باہر ہوگئے۔ عوام ہمیں ووٹ دے سکتے ہیں وہ فوجی ٹینکوں کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے‘‘۔ یہ بات سنتے ہی نواز شریف کا چہرہ سرخ ہوگیا، وہ بولے ''گویا اس بار بھی ہماری غلطی تھی؟ ان کی غلطی نہیں تھی جو پہلے کارگل پرچڑھ دوڑے ،وہاں سے اترے تو وزیراعظم ہائوس پر چڑھ گئے‘ منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور ملک کا بھی حشر نشر کر دیا۔آخر میری کیا غلطی تھی؟ میں بھارت کے ساتھ تعلقات محض پاکستان کے عوام کی خوشحالی اور سلامتی کیلئے بہتر بنانے کی کوشش کررہا تھا، میں نے ملکی دفاع پر بھی کوئی سودے بازی نہیں کی ،بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے جب ہماری دفاعی صلاحیت کو چیلنج کیا تو میں نے ساری دنیا کے دبائو کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جوابی ایٹمی دھماکے کر ڈالے ۔کسی کو یاد ہو یا نہ ہو مجھے یاد ہے کہ بھارتی وزیر دفاع اپنے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہماری سرحد وں پر آکراپنے فوجیوں کا حوصلہ بڑھا رہا تھا اور ہماری فوج کو دھمکیاں دے رہا تھا،پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں کی جاتی تھیں، ہماری فوج کے جوانوں کامورال مجروح ہورہا تھا، میں نے اپنی فوج اور قوم کے وقار اور مورال کوبلند رکھنے کیلئے یہ مشکل فیصلہ کیا۔ ہم نے ایٹمی دھماکے کر کے اپنے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں نے بھارتی وزیراعظم کو باور کرا دیا کہ اب دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں بن چکے ہیں، لہٰذا دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ رویہ برقرار رکھنے کی بجائے اپنے اپنے عوام کی خوشحالی اور سلامتی کے لئے مل کر کام کرنا چاہیے۔ بھارت نے ہماری اس دلیل کو تسلیم کرلیا، واجپائی لاہور آگئے، دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی نئی بنیادرکھی گئی جسے دنیابھرنے سراہا، لیکن کارگل کاایڈونچر کر کے سب کچھ غارت کر دیا گیا ،الٹا ملک کو جنگ میں دھکیل دیا گیا۔ 
دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں‘ میں یہ جنگ نہ رکواتا تو اس خطے کا حشر نشر ہوجاتا ،کارگل سے پاکستان کو عالمی بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ،اتنے بڑے نقصان کے باوجود میں نے فوج کے وقار اور مورال کی خاطر کسی جرنیل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی لیکن میرے خلاف ہی جلوس نکلوائے گئے ،میری حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے سازشیں کی گئیں ،میرا تختہ الٹنے کیلئے تمام تیاریاں کر لی گئیں ۔میں نے اپنا آئینی اور قانونی اختیار استعمال کر کے آرمی چیف کو ریٹائر کیا تو انہوں نے منتخب حکومت کاتختہ الٹ دیا‘‘۔ نواز شریف یہ کہہ کر رکے تو میں نے پوچھا ''کیا 12اکتوبر 99ء کی صورتحال سے بچا جاسکتا تھا‘‘۔ تو وہ بولے ''وہ صورتحال میری پیداکردہ نہیں تھی، میرے آئینی حکم پر عمل درآمد ہونے دیا جاتا، ایک جرنیل ریٹائر ہوگیا تھا اس کی جگہ دوسراجرنیل آرمی چیف بن جاتا ،معاملات معمول کے مطابق چلتے رہتے‘ منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ کر بندوق کے زور پر حکومت کرنے کی سوچ جب تک ختم نہیں ہوتی‘ یہ ملک کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا‘‘۔ 
''آپ اس سوچ کو کیسے ختم کر سکتے ہیں‘‘ میں نے استفسار کیا ،تو وہ بولے ''سیاستدان، عدلیہ ،میڈیا ،قوم تہیہ کر لیں کہ کسی ڈکٹیٹر کو قبول نہیںکریں گے اور جن لوگوں نے آئین توڑا، بغاوت کی، ان کو عدالتی کٹہروں میںکھڑا کرنا ہوگا ،ان کے سرکردہ جرم کی سزا انہیں ملے گی تو یہ سوچ خود بخودختم ہوجائے گی‘‘۔
'' کیا پاکستان میں کبھی یہ ہوگا ‘‘میرا دوسرا سوال تھا۔'' آنے والے دنوں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا یہ تو قدرت کے فیصلے ہیں لیکن میں آپ کو یہ بات یقین سے کہتا ہوں کہ اگر قدرت نے مجھے دوبارہ سیاست میں آنے کا موقع دیا تو میں اس سازشی کلچر کو بالکل پروان نہیں چڑھنے دوں گا اور اگر مجھے اختیار ملا تو میںآئین شکنی کے مرتکب لوگوں کو عدالتوں کے کٹہرے میں ضرور کھڑا کروں گا‘‘۔
گفتگو کے دوران شہباز شریف بھی کبھی کبھار اپنے نکتۂ نظر کا اظہار کرتے رہے۔ ان کا موقف آخروقت تک یہی رہاکہ مسلم لیگ کی قیادت کو فوج کے ساتھ تعلقات بنا کررکھنے چاہئیں تھے اور عوام کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ کو بہر صورت پورا کرنا چاہئے تھا،وہ فوج کے معاملے میں مفاہمت اور مصلحت کوترجیح دینے کے حامی نظرآئے جبکہ میاں نواز شریف کا موقف آخر وقت تک یہی رہا کہ عوامی مینڈیٹ کامطلب ہی یہی ہے کہ ملک اور قوم کی قسمت کے فیصلے منتخب پارلیمنٹ اورحکومت کو ہی کرنے چا ہئیں۔ یہ نشست رات گئے ختم ہوئی تو میں انہیں الوداع کہہ کر اپنی قیام گاہ کی طرف چلا آیا ۔
اس ملاقات کو کئی سال گزر گئے۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعدلندن چلے گئے ،وہاں سے پاکستان واپس آگئے‘ آج نواز شریف وزیراعظم ہیں اور شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ جبکہ ان کے حریف جنرل(ر) پرویز مشرف دوستوں اوررفقاء کے منع کرنے کے باوجود دوبئی سے وطن واپس آکر آئین شکنی کے مقدمہ میںپھنس چکے ہیں ،ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے‘ وہ بیرون ملک نہیں جاسکتے، اندرون ملک بھی ان کی نقل و حرکت انتظامیہ اور پولیس کی منشاء کی محتاج ہے۔ ان کے خلاف مقدمۂ بغاوت آخری مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے‘ ان کی رہائی اور بیرون ملک روانگی کیلئے حاضر سروس اور ریٹائرڈ دوستوں ،ملکی و غیر ملکی مہربانوں کی کوششیں بھی ماندپڑ تی نظر آتی ہیں ۔بعض مقتدرحلقوںکے دعوے کے مطابق اس مقدمہ کا فیصلہ آئندہ یوم آزادی سے قبل متوقع ہے۔ جوں جوں یومِ آزادی قریب آتا جارہا ہے‘ جنرل پرویز مشرف کا مقدمہ بھی تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھتا جارہا ہے۔ اس یوم آزادی پر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اسلام آباد کی طرف دس لاکھ افرادکا لانگ مارچ کرنے کیلئے بھرپور تیاریاں کر رہے ہیں ۔وہ اس معاملے میں فی الحال ڈٹے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ،دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری بھی اپنے عقیدت مندوں کو متحرک کرنے میںلگے ہوئے ہیں، وہ اپنی جماعت کے ہیڈکوارٹر کے باہرمارے جانے والے اپنے حامیوں کی موت کا ماتم تھمنے نہیں دے رہے۔ ایم کیو ایم بھی نئی سیاسی صف بندی کا حصہ بننے کیلئے کمر کس رہی ہے۔( ق) لیگ والے بھی اپنی تمام سیاسی توانائیاں موجودہ حکومت کے خلاف بروئے کار لا رہے ہیں۔
میاں نواز شریف نے آج سے کئی سال قبل آئین شکنی کے کلچر کو روکنے کیلئے جس سوچ کا اظہارکیا تھا اس پر عمل درآمد کا فیصلہ کن مرحلہ چند دنوں کی بات ہے ،میاں نوازشریف اس مرحلہ میں سرخرو ہوں گے یا ایک بار پھر کھیل سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل کر بندوق والوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک ، ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ(ق) جو سابق صدرجنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی بھرپور حامی رہی ہیں اور جنہوں نے اس ریفرنڈم کے ذریعے جنرل مشرف کو پانچ سال کے لئے صدرپاکستان بنانے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کی تھیں ،یہ ساری جماعتیں موجودہ حکومت کے خلاف متحد ہوتی نظر آرہی ہیں۔ جنرل مشرف اس مقدمہ کے ملزم کی حیثیت سے عدالتی کارروائی کا سامنا کررہے ہیں ،میاں نواز شریف عدالتی کارروائی اور فیصلے پر عملدرآمد میں کسی قسم کی رکاوٹ کے قائل نہیں۔ پاکستان کے 18 کروڑ عوام کے دل تیزی سے دھڑک رہے ہیں ۔ہرباشعور شہری اس صورتحال کے نتائج و عواقب کو جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کررہاہے، جنرل مشرف کے حامی اور مخالف اپنی اپنی صف بندی کر چکے ہیں، یوم آزادی کے موقع پر ہونے والا لانگ مارچ ملکی سیاست کوکس نہج پر ڈال دے گا‘ کوئی نہیں جانتا۔ 
سابق صدر پرویز مشرف جنہیںاپنے سابق عسکری سپہ سالار ہونے اور اپنے اثرو رسوخ کازعم ہے اور اسی زعم میں وہ سب کے منع کرنے کے باوجود پاکستان آکر اپنی سیاست دوبارہ چمکانے کے شوق میں عدالتی شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں‘ وہ اس سے آزادی حاصل کر پائیں گے یا آئین شکنی کے سزاواربن جائیں گے‘ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف آئین شکنی کے مرتکب جرنیل کو سزا دلوانے میں کامیاب ہوجائیں گے یا اس آرزو میں اپنا اقتدار تیسری بار گنوا بیٹھیںگے، یہ سوال بھی تشنہ طلب ہے۔ خدا جانے انہیں اور ان کے مشیروں کو اس کا ادراک ہے یا نہیں بہر حال مجھے تو مشرف اور نواز شریف دونوں کے حوالے سے منیرنیازی شدت سے یاد آرہے ہیں ،جنہوں نے شاید کسی ایسے ہی موقع کے لئے کہا تھا ؎
کج اونج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوگ وی ظالم سن
کج سانوںمرن دا شوق وی سی

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں