دنیا کے ہر خطے میں مختلف لوگ بستے ہیں جن کا رنگ، نسل، مذہب، زبان، ثقافت، رہن سہن ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ قدرت نے اب تک اربوں انسان پیدا کئے لیکن ہر انسان دوسرے سے جدا ہے حتیٰ کہ اس دنیا میں کہیں ایک جیسے دو افراد نہیں ملیں گے جن کی انگلیوں کے نشانات یکساں ہوں، لیکن ان ساری جداگانہ خصوصیات کے باوجود ایک بات مسلمہ ہے کہ تمام انسانوں کے خون کا رنگ ایک جیسا ہے۔یہ سرخ رنگ کا سیال انسانی زندگی کی بنیاد ہے۔ آپ امریکہ یورپ کے چٹے گورے‘ سرخ و سفید انسان کی انگلی کاٹیں تو اس میں سے بھی سرخ رنگ کا خون برآمد ہو گا اور افریقہ کے سیاہ باشندے کو چیرا دیں گے تو اس میں سے نکلنے والے خون کا رنگ بھی سرخ ہی ہو گا۔گویا سب انسانوں کا خون یکساں رنگ کا ہے اور ہر انسان کی زندگی اسی خون سے عبارت ہے۔ انسانی خون کی اسی حرمت کو دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے نے تسلیم کیا ہے اور اسے زندہ انسانوں کی دنیا میں قیمتی ترین متاع قرار دیا ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس وقت ساری دنیا میں تمام انسانوں کے خون کی اس قدر قیمت کا احساس اور احترام موجود ہے لیکن ایک خون ایسا بھی ہے جس کی نہ کوئی قیمت ہے اور نہ اہمیت۔ اس خون کو جب چاہے جہاں چاہے بے دریغ بہایا جاتا ہے ،یہ خونِ مسلم ہے جسے جگہ جگہ بہایا جار ہا ہے۔ مسلمانوں کے خون کی ارزانی اور بے قدری کا یہ عالم ہے کہ اس میں نہ عمر، نہ جنس،نہ ملک، نہ قوم کا خیال رکھا جاتا ہے، مقتل گاہ کی طرف روانہ ہونے والوں کے لئے مسلمان ہونا ہی کافی ہے۔ کبھی اسے عرب بہار کے نام پر مصر اور شام اور کبھی اسے عوام کو آمریت سے آزادی دلانے کے نام پر عراق کی سرزمین پر بہایا جاتا ہے ۔ان دنوں فلسطین کی سرزمین پر اس بہتے خون کی بہتات ہے۔ وحشت اور بربریت کے اندھے جذبہ سے مغلوب اسرائیلی نہتے فلسطینیوں کی آبادیوں کو گولوں اور بموں سے اڑا رہے ہیں، گھروں میں بچوں کیلئے کھانا بنانے میں مصروف خواتین، گلیوں میں کھیلتے معصوم بچے، تعلیمی اداروں میں اپنے روشن مستقبل کیلئے کوشاں طالب علم، دکانوں، دفتروں میں رزق حلال کمانے والے مرد غرض ہر شخص اسرائیلی وحشت کی زد میں آکر ریزہ ریزہ ہو رہا ہے ۔وہاں کے ہسپتال زخمیوں سے اٹ گئے ہیں، مردہ خانوں میں نعشیں رکھنے کی جگہ نہیں درجنوں محلے اور آبادیاں کھنڈرات کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ بعض کثیرالمنزلہ عمارات کے ملبے تلے دبے فلسطینی تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں ،لیکن انہیں اس بھاری ملبے سے نکالنے کا کوئی فوری بندوبست نہیں۔انسانیت اس حد تک لاچار نظر آتی ہے کہ اس پر سے ایمان ہی اٹھ جاتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں خوبصورت کشمیری نوجوان جن کی ابھی مسیں بھی بھیگ نہیں پاتیں عقوبت خانوں میں انہیں بوٹی بوٹی کردیا جاتا ہے۔ معصوم عفت ماب کشمیری خواتین کو بھارتی فوجی درندے آئے روز اپنی ہوس کا نشانہ بناکر قتل کر ڈالتے ہیں۔ بوڑھوں کو سنگینوں کے کچوکے دے کر مار دیا جاتا ہے، یہ ظلم و ستم گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ افغانستان کی سرزمین بھی کئی سالوں سے مسلمانوں کیلئے مقتل گاہ بنی ہوئی ہے، سپر طاقتوں کے مفادات اور بالادستی کی جنگ میں لاکھوں افغانی موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ پہلے روسی نجات دہندہ اور اب امریکی نجات دہندہ افغان مسلمانوں کے خون سے افغان سرزمین کو رنگ رہے ہیں۔ دنیا کا ایسا کون سا مہلک ہتھیار اور بارود ہے جو افغان مسلمانوں کے سینوں پر نہ اتارا گیا ہو۔ ڈیزی کٹربم سے
لے کر ڈرون تک استعمال کئے گئے، ان کا نشانہ افغان مرد عورتیں اور بچے بنے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
عراق کی سرزمین بھی مسلمانوں کے خون سے سرخ ہے، لاکھوں بے گناہ عراقی مسلمان اس سرزمین پر موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے، ہزاروں ٹن بارود عراقیوں کے سروں پر انڈیلا گیا، ان کی ہنستی بستی آبادیاں قبرستانوں میں بدل دی گئیں۔بے بنیاد پروپیگنڈا کی آڑ میں ایک مسلمان ملک اجاڑ دیا گیا۔
انسان سوچتا ہے کہ یہ کیسا ترقی یافتہ اور روشن خیال جدید دور ہے جس میں یورپ اور امریکہ کی سرزمین پر کوئی جنگلی جانور کسی ندی نالے میں پھنس جائے تو اس کی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے آناً فاناً دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے ریسکیو ٹیمیں تمام کیل کانٹے سے لیس حتیٰ کہ ہیلی کاپٹر لے کر موقع پر پہنچ جاتی ہیں۔اس جانور کی جان بچانے کا ایک ایک لمحہ براہ راست ٹی وی چینلوں پر دکھایا جاتا ہے لیکن ہم مسلمان کتنے بدقسمت ہیں کہ کشمیر سے لے کر فلسطین تک ہمارے بے گناہ اور معصوم بہن، بھائی، بیٹے، بیٹیاں اور بزرگ ہر نوع کی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن کوئی ہمارا پرسان حال نہیں۔ فلسطین کی سرزمین پر آگ میں گھرے اور جلتے مکانات کے باہر غم زدہ فلسطینی آسمان کی طرف منہ کر کے آہ وزاری کر رہے ہیں لیکن دنیا میں کوئی ایسا ملک یا قوم نہیں جو اسرائیل کو روک سکے۔ حتیٰ کہ امریکی صدر باراک اوبامہ جو دنیا بھر میں امن کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں وہ بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے ۔
برطانیہ کا وزیراعظم اور وہاں کی پارلیمنٹ جو جمہوریت اور انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ہونے کے دعویدار ہیں ان کی زبانوں کو کیوں تالے لگے ہوئے ہیں؟ ان سب سے بڑھ کر نیویارک کے گنجان اور معروف ترین علاقے میں واقع بلندوبالا یواین ہیڈکوارٹر میں بیٹھے سیکرٹری جنرل اوران کے کارندوں کوا س ظلم کو روکنے کا خیال کیوں نہیں آرہا؟یہ سب کچھ کہنے، لکھنے والے بھی محض اپنا دل جلا رہے ہیں۔ بھلا امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ کو ہم مسلمانوں کے خون سے کیا لگائو ہو سکتا ہے ،یہ سارے تو روز اوّل سے مسلمانوں کا خون بہانے والوں کو ہلہ شیری دینے اور ان کا ساتھ نبھانے میں آگے آگے رہتے ہیں۔افغانستان، عراق، کشمیر اور فلسطین میں ہونے والی اس ساری خونریزی کی بنیاد رکھنے والے بھی تو یہی ممالک اور عالمی ادارے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ارب سے زائد مسلمان اس بے چارگی کی زندگی کیوںگزار رہے ہیں ؟ وہ کیوں آئے روز سفا کانہ موت کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ان کا خون اتنا بے و قعت کیوں ہو کر رہ گیا ہے ؟یہ مسلمان آبادی دنیا کے وسیع و عریض قیمتی قدرتی وسائل کی مالک ہے ، انہی مسلمان عرب ممالک کے کھربوں ڈالر امریکہ ، برطانیہ ،سوئٹزر لینڈاور دوسرے مغربی بینکوں میں پڑے ہیں ، وال سٹریٹ اور نیویارک سٹاک ایکسچینج جیسی عالمی منڈیاںانہی عربوں کے سرمائے سے آباد ہیں ۔ مسلمان ممالک کے پاس جدید ہتھیاروں سے لیس فوجیں بھی ہیں ،جنگی جہاز بھی ہیں حتیٰ کہ اسلامی دنیا ایٹم بموں سے بھی لیس ہو چکی ہے لیکن یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ان کی حیثیت درختوں سے ٹوٹے ہوئے ان خشک پتوں جیسی ہے جنہیں دنیا کی ہر قوم اپنے پائوں تلے روندتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے اور کسی کو یہ احساس تک نہیں کہ ان کے پائوں کے نیچے خشک پتے نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسان ہیں۔ یہ مسلمان محض اس لئے بے زبان جانوروں کی طرح ذبح ہورہے ہیں کیونکہ ان کے ہاں کوئی بہادر اور جری لیڈر نہیں۔ ان پر حکمرانی کرنے والے بھی غیرتِ ایمانی اور جذبہ اسلام سے محروم اسلام دشمن طاقتوں کے وہ گماشتے ہیں جو محض اپنے اقتدار کیلئے ان طاغوتی طاقتوں کے غلام ہیں وہ ان کے اشاروں پر ناچتے، کودتے ہیں۔ ان کے مفادات اور عزائم کی تکمیل کیلئے سب کچھ کر گزرتے ہیں اور اس کے عوض اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ اثاثوں کے انبار لگاتے ہیں، ان کی نظر میں ان کی اپنی اولادیں اور چیلے چانٹے اہم ہوتے ہیں‘ انہیں صرف اپنی اور اپنے خاندانوں کے تحفظ کی فکر ہوتی ہے۔ اس کیلئے وہ بم پروف محلات، بلٹ پروف گاڑیاں اور محافظوں کے لشکر کھڑے کر لیتے ہیں۔ان بے ضمیر حکمرانوں کے اپنے ملکوں میں مسلمان مارے جائیں یا ان کے گردونواح میں مسلمانوں کا خون بہتا رہے‘ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ کبھی صدام حسین، کبھی حامد کرزئی اور کبھی پرویزمشرف بن کر مسلمانوں پر مسلط ہوتے ہیں اور اپنے مسلمان ہم وطن بھائیوں اور بہنوں کو ان اسلام دشمن خون آشام بھیڑیوں کے سپرد کرکے خود اقتدار کی موج مستی کرتے ہیں۔
کاش! ایک ارب سے زائد مسلمان بھیڑوں کے اس بے بس اور لاچار ریوڑ میں کوئی ایسا جرأتمند اور بہادر لیڈر پیدا ہو جائے جو مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو روک سکے اور دنیا سے یہ پوچھ سکے کہ بہانے کے لئے صرف ہمارا خون ہی کیوں؟