حکومت وقت کی طرف سے پاکستان کے چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے آئین توڑنے کے جرم میں ٹرائل کا فیصلہ ہمیں معروف دانشور اور لکھاری پروفیسر وارث میر کی یاد دلاتا ہے ۔جنرل مشرف کی طرح ہمیں جنرل ضیاء الحق کا دور بھی ابھی بھولا نہیں۔ دسمبر 1984ء میں موصوف نے اپنی آمریت کو پانچ سال مزید طول دینے کے لیے اس سوال پر ریفرنڈم کردیا کہ ’’کیا آپ نفاذ اسلام کے لیے مجھے صدر کے عہدے پر براجمان دیکھنا چاہتے ہیں ؟‘‘ یہ سوال پاکستان کے سادہ دل مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی ایک کوشش تھی، جس کے خلاف آواز بلند کرنے والے لکھاریوں میں سب سے نمایاں وارث میر تھے۔ قومی اخبارات میں ریفرنڈم کے خلاف وارث کی تحریریں شائع ہونا شروع ہوئیں تو تہلکہ مچ گیا کیونکہ انہوں نے ریفرنڈم کو قرآن وحدیث کی روشنی میں مسترد کیا تھا۔ چند ماہ بعد ضیاء الحق نے غیرجماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کا اعلان کیا۔ وارث میر ایک مرتبہ پھر قرآن وحدیث کے حوالوں سے مسلح ہوکر میدان میں اترے اور انہوں نے ان غیرجماعتی انتخابات کو پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ قرار دے دیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں صحافت کا استاد ہونے کے باوجود انہوں نے حاکم وقت کے ساتھ اختلاف کا رشتہ پال کر اپنی نوکری کو دائو پر لگادیا لیکن جنرل ضیاء الحق بڑے سمجھدار تھے، ایک روز گورنر ہائوس میں وارث میر کوچائے کی دعوت دی گئی۔ چائے کی پیالی کے ذریعے جنرل ضیاء الحق نے وارث میر کو ایک بڑے سرکاری ادارے کے سربراہ کا عہدہ سنبھال کر اسلام آباد منتقل ہونے کی پیشکش کی، لیکن وارث میر نے معذرت کرلی۔ جس کے بعد درویش صفت قلم کار کو حیلے بہانوں سے تنگ کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جوان کی موت تک جاری رہا۔ تاہم بہتر ہوگا کہ ہم اپنے مرحوم دوست کی فکری دیانت اور قلمی جرأت تک محدود رہیں، تاکہ نئی نسل کو پتا چل سکے کہ ان کے اسلاف میں کیسے قابل فخر لوگ تھے۔ وارث میر کا تعلق اس نسل سے تھا، جو اقبال ؒکی فکر سے متاثر تھی۔ اقبال کی فکر، قائداعظم کا کردار ان کا راستہ تھا۔ انہوں نے ویتنام میں امریکی مداخلت کے خلاف لکھا تو لیفٹسٹ کہلائے ، بھٹو حکومت پر تنقید کی تو رائٹسٹ کہلائے، پھر جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف لکھا تو دوبارہ انہیں لیفٹ کی طرف دھکیل دیا گیا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ تمام عمر ایک روشن خیال مسلمان رہے، جو لیفٹ اور رائٹ کے درمیان اپنا راستہ تلاش کرتے رہے۔ انہوں نے سماج اور سیاست کے تعلق کے بارے میں دل کھول کر لکھا۔ پاکستانی فوجی جرنیلوں کی خواہش ہے کہ سیاست میں ان کی مداخلت کو محض معاونت کی پالیسی تسلیم کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج نے جب بھی اقتدار پرقبضہ کیا سیاست میں باقاعدہ طورپر ملوث ہونے کے لیے نہیں کیا، بلکہ ان کا مقصد صرف حالات کو درست کرنا تھا، لیکن کیا فوجی جرنیل یہ جانتے ہیں کہ اقتدار طول پکڑ جائے تو اقتدار کو قائم رکھنے والے جواز بھی کمزور پڑجاتے ہیں۔آخری ایام میں وارث میر نے عورتوں کے حقوق کے بارے میں بہت کچھ لکھا۔ دینی مسائل ہوں ، قومی معاملات ہوں یا سیاسی حالات وہ ہمیشہ سچ کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔ وارث میر کی تحریروں کی تازگی آج بھی برقرار ہے۔ ظلم جبر، غربت ،ناانصافی، آمریت اور رجعت پسندی کے خلاف ان کی باغیانہ تحریریں اس وقت تک بغاوت کا باعث بنتی رہیں گی ، جب تک موجودہ استحصالی نظام برقرار رہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وارث میر مرانہیں، بلکہ اسے مارا گیا تھا۔ وارث میر کے قریبی دوست یہ جانتے ہیں کہ زندگی کے آخری دنوں میں انہیں حق بات کہنے کی پاداش میں کتنا زیادہ تنگ کیا گیا تھا۔ دھمکیاں روز کا معمول بن چکی تھیں۔ ان کے ایک بے گناہ اور معصوم بیٹے کو قتل کے جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا گیا اور ایک بیٹے کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ جامعہ پنجاب میں صحافت کے استاد کی حیثیت سے ان کی عمر کا تقریباً نصف حصہ گزرا لیکن اسی جامعہ میں ان کے ساتھ ضیاء الحق حکومت اور ایک طلبہ تنظیم نے بے انتہا زیادتیاں کیں اور انہیں مختلف طریقوں سے ذہنی اذیت دیتے رہے۔ حریت فکر سے متعلق پروفیسر صاحب کی تحریروں میں جگہ جگہ ان دانشوروں اور مجاہدوں کے قصے نظر آتے ہیں، جنہوں نے اپنے ذہن وضمیر پر پہرے قبول نہ کیے اور جنہوں نے اپنے وقت میں جبرکے خلاف عزم وہمت کی تلوار کے ساتھ ضمیر کی جنگ لڑی اور ضمیر کی شمع کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں تھمانے کا فرض ادا کرتے رہے، جو حریت رائے کی حفاظت کرتے رہے ، جوجمود کے خلاف تھے اور جو مذہب، سیاست اور عقائد میں قرآن وسنت کی روشنی میں فکری آزادی کے طلبگار رہے۔وارث میر نے آزادی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے جنرل ضیاء الحق کے سخت ترین مارشل لاء میں بھی پہلے بین السطور اور بعد میں کھلم کھلا اپنا پیغام عوام تک پہنچایا۔ پروفیسر صاحب نے اپنی زندگی کا سب سے جاندار مضمون اپنی موت سے ایک دن پہلے لکھا تھا جو ترقی پسندی اور روشن خیالی کے اعتبار سے مرحوم کی فکر کو سمجھنے میں مدددیتا ہے۔ یہ مضمون جنرل ضیاء الحق کی ایک تقریر کے جواب میں لکھا گیا تھا جو ترقی پسندی اور روشن خیالی کے اعتبار سے مرحوم کی فکر کو سمجھنے میں مدددیتا ہے۔ اس تقریر میں جنرل صاحب نے لاہور کے ادیبوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہ خودساختہ ترقی پسند دانشوروں کو ملک کی نظریاتی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے اور نہ ہی نظریاتی زمین پر کسی قسم کا سیم اور تھور برداشت کریں گے۔ اپنے جوابی مضمون میں وارث میر نے لکھا ’’جنرل ضیاء الحق جب ملک کے نظریاتی دشمنوں کا ذکرکرتے ہیں تو ان کا اشارہ جی ایم سید یا ولی خان کی طرف نہیں، بلکہ ان پڑھے لکھے افراد کی طرف ہوتا ہے، جو اپنی شناخت ترقی پسند خیالات کے حوالے سے کرواتے ہیں اور اپنے دل میں یہ خیال شدت سے رکھتے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر پاکستان روشن خیال شہریوں کی ماڈرن ریاست کے طورپر اُبھرے، اس کی فکری شخصیت میں قوت اور توانائی پیدا ہو، اس کے عوام میں اپنے حقوق کے تحفظ اور آزادی کا حوصلہ پیدا ہوا اور وہاں ایسا سیاسی اور اقتصادی نظام پروان چڑھے جو استعماری سہاروں کا محتاج نہ ہو، میری رائے میں ایسی سوچ رکھنے والے ہی پاکستان کے سچے دوست ہیں۔ ‘‘ آج جبکہ پاکستان گھمبیر مسائل میں گھرا نظر آتا ہے، یہ سوال ذہن میں شدت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی اردو صحافت کوئی دوسرا روشن خیال اور سچا وارث میر پیدا کرسکے گی، جوایسے مشکل وقت میں قوم کی صحیح طورپر فکری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکے ؟