میری عمر 82 سال ہے۔ میرا طالب علمی کا زمانہ نظریاتی بحثوں کا تھا۔ سماجی اور پولیٹیکل اکانومی کے موضوعات پر مَیں نے مقدور بھر غور و خوض کیا۔ سماجی علوم نے بڑی ترقی کی مگر 2008ء کے بعد عالمی معیشت ایسے بحران میں پھنس گئی کہ ترقی یافتہ ملکوں کو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ مستقبل کے سیاسی اور معاشی نظام کے بارے میں بہت سا لٹریچر چھپا ہے۔ ہم پاکستانیوں کو بھی ہائی ٹیک دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے لیے موزوں نظام طے کرنا چاہیے، اس معاملے میں‘ مَیں نے اپنی بساط کے مطابق سوچا اور اسے ویب سائٹ پر ڈال دیا۔ اس عرصہ میں‘ مَیں نے اخباروں میں لکھنا کم سے کم کر دیا۔ ملک کو معاشی اور سماجی بحران کی جانب بڑھتا دیکھ کر فیصلہ کیا کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے پولیٹیکل اکانومی کے تصورات پر اپنی مختصر رائے اخبارات میں دینی چاہیے تاکہ عوام کو ان پارٹیوں کے فکری سانچے کا اندازہ ہو سکے۔ ایک کالم 12جون 2014ء کے روزنامہ ''دُنیا‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۔ دوسرا کالم حاضر ہے۔ اس کالم میں مسلم لیگ نون کے معاشی نظریے پر غور کیا گیا ہے۔ اس پارٹی کا پاکستان کے بارے میں کوئی معاشی خواب نہیں۔
خواب سے مراد انسانی فلاح کا سنجیدہ تصور ہے۔ مسلم لیگ نون ایسی پارٹی ہے جس کے پاس ایسا کوئی خواب نہیں۔ عام انتخابات کے وقت ہر پارٹی منشور جاری کرتی ہے، جس میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے عوام کے سامنے پارٹی کا پروگرام پیش کیا جاتا ہے۔ پروگرام کا بہت سا حصہ سبز باغ دکھاتا ہے۔ اصل پروگرام مؤثر رہنما کا ہوتا ہے۔ مسلم لیگ نون پر اس کے رہنما کا موثر کنٹرول ہے۔ میاں نواز شریف عملیت پسند رہنما ہیں۔ ہر بڑے سیاستدان کی طرح خود پسند بھی ہیں۔ تھیوری کے مطابق اصول پسندی بھی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ عملیت پسندی، خود پسندی اور اصول پسندی کے مابین توازن ہونا چاہیے۔ کہنے کو تینوں خصوصیات آج بھی ہونی چاہئیں مگر چوتھی خصوصیت ''بے شمار دولت‘‘ کی دستیابی بہت اہم ہو گئی ہے۔ ہم نے پچھلی تین دہائیوں میں دیکھا کہ حد سے بڑھی ہوئی خود پسندی اور کرپشن نے باقی تینوں خصوصیات کو رد کر دیا۔
اب ہم بحث کو معاشی معاملہ تک محدود رکھیں گے۔ 1990ء کی دہائی میں میاں صاحب نے نجکاری اور آزاد منڈی کی معیشت کو رائج کرنے کے لیے اقدام کیے۔ ایک عملیت پسند سیاستدان کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان کو ریجنل ممالک اور عالمی معیشت کا حصہ بنانے کی پالیسی اختیار کی۔ اسی سلسلہ میں انہوں نے بھارت اور سینٹرل ایشیا کو ملانے کے لیے شاہراہ تیار کرنے کے لیے اقدام کیا۔ اسی سپرٹ میں گوادر اور چین کے مابین تجارتی راستہ تعمیر کرنے کا عزم کیا۔ وہ علاقائی تجارت اور عالمی معیشت کے ترقی پاتے نظام کے قائل ہیں۔ شاید یہ اسی نظریے کا عکس ہے کہ ان کے خاندان کے افراد نے غیرملکوں میں کاروبار قائم کیے، سرمایہ کاری کی اور پراپرٹی خریدی۔
پیپلز پارٹی کی مؤثر قیادت بھی اسی نظریے کی حامل ہے۔ چنانچہ دونوں بڑی پارٹیاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اس معاملے میں ہم خیال ہیں۔
میاں صاحب جس معاشی نظریہ پر کاربند ہیں، اس کے مطابق معاشی عمل آزاد منڈی کی قوتوں کو طے کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ سرمایہ دار، صنعتکار اور تاجر اپنے اپنے مفاد کے مطابق کاروباری فیصلے کرتے ہیں۔ حکومت ان قوتوں کی کارکردگی میں مداخلت نہیں کرتی۔ اور عام طور پر معاشی عمل کو بڑھاوا دینے کے لیے انکم ٹیکس کی شرح کو کم کر دیتی ہے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں دولت کی تقسیم میں عدم مساوات بہت بڑھ جاتی ہے۔
مگر شاید یہ باتیں پاکستان کی دونوں بڑی پارٹیوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی سمجھ میں نہیں آئیں گی کہ ان کا تعلق فنانس کیپیٹل نہ سہی سرمائے ہی کی ایک دوسری شکل سے ہے۔ نقد سرمایہ کسی شکل میں بھی ہو، وہ سٹے بازی، سٹاک ایکسچینج اور پراپرٹی کی جانب ہی راغب ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں بہت سا سرمایہ غبن، رشوت اور ٹیکس چوری کا ہے۔ ملک میں خالص فنانس کیپٹل وجود میں نہیں اس لیے کہ ہماری معیشت کی بنیاد جدید نالج اور ٹیکنالوجی پر نہیں۔ تاہم جن لوگوں کے پاس دولت کے انبار ہیں، وہ عوام کی سوشل نجات کی بنیاد پر ترقیاتی عمل کی اجازت نہ دیں گے۔ بلکہ ارب پتی سرمایہ داروں کے سائے میں، معیشت کو آگے بڑھانے کا قدم اُٹھائیں گے اور بڑے سرمایہ داروں کی سیاسی اور سماجی بالادستی کو مستحکم بنائیں گے۔
ہمارے ملک میں سفید دھن کی کمی ہے۔ قومی خزانہ کمزور ہے اور اس قابل نہیں کہ غربت اور بیروزگاری دُور کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم اور دہشت گردی بڑھی۔ آج ریاست مالی وسائل کی کمی سے دوچار ہے۔ سرمائے کی کمی زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔ نہ صنعتکاری کے لیے پیسہ ہے، نہ بجلی بنانے کے لیے رقم موجود ہے اور نہ ہی ہیومن ڈویلپمنٹ کے لیے درکار وسائل ہیں۔ جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں اُن کی دلچسپی عالمی معیشت میں شریک ہونے کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ترقیاتی عمل کیسے آگے بڑھے؟ یقینا ہمارے ملک میں جدید علوم اور جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر معاشی ترقی کا عمل جاری ہونے کی راہ میں بہت سی مشکلات حائل ہیں۔ عوام کی غربت اور پسماندگی بڑی وجہ ہیں۔ ان سے نجات کے لیے معاشی عمل کا تیز ہونا کافی نہیں۔ مشکلات دُور کرنے کے لیے معاشرے میں سماجی تبدیلی اور زرعی املاک کی منصفانہ تقسیم اولین شرط ہے۔ ضروری ہے کہ نظام حکومت شفاف ہو۔ ریاستی طاقت کو مقامی سطح پر منتقل اور مستحکم کیا جائے۔ ٹیکس ایڈمنسٹریشن کو موثر بنایا جائے۔ ٹیکس کی آمدن میں منصفانہ خطوط پر اضافہ کیا جائے۔ یہ سب کام اسی صورت میں ممکن ہیں کہ اگر عوام کو قیادت پر اعتماد ہو اور قیادت کی حمایت میں رائے عامہ منظم ہو اور قیادت جو تبدیلیاں لائے، رائے عامہ تائید اور حمایت کرے۔