"MGC" (space) message & send to 7575

ٹڈی دَل

ٹڈی دَل، جسے انگریزی میں Locust اور پنجابی و سرائیکی میں مکڑی کہتے ہیں، تیسری دنیا کا عجیب و غریب کیڑا ہے جو ہر قسم کی فصل کا دشمن ہے اور اس کا واحد ایجنڈا صرف کھا کھا کر تباہی مچانا ہے۔دَل کے لغوی معنی بہت بڑا جتھہ ہے۔ ٹڈی دَل کے ایک گروہ یعنی جھُنڈ میں تقریباً تین لاکھ ٹڈیاں ہوتی ہیں جو درختوں کی چھال سے لے کر ہزاروں ایکڑپر پھیلی فصلوں تک کو اتنی تیزی سے چٹ کر جاتی ہیں کہ لوگ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ ٹڈی دَل 1813ء میں جنوبی افریقہ میں دیکھا گیا تب سے یہ جہاں بھی گیا، تباہی مچاتا گیا۔ ٹڈی مادہ کے لیے نمی کھاد ثابت ہوتی ہے ۔ 200 انڈے روزانہ کے حساب سے دے کر چند ہزار ٹڈیاںصرف تین دن میں نیا جھنڈ بنا لیتی ہیں ۔ 72 گھنٹے عمر کی ٹڈیاں نئے انڈے دینا شروع کر کے نیا جھنڈبنانے میں جُت جاتی ہیں۔ ان کی ہر نئی نسل پہلے سے زیادہ پیٹو ہوتی ہے ۔نئی نسل کے دانت نسبتاً زیادہ تیز ہوتے ہیں۔ یہ بہت سخت جان کیڑا ہے۔ ان کا ایک گروہ دوسرے کو بھرپور تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ کسی گروپ کی ٹڈی تھوڑی سی خدمت کے عوض دوسرے گروپ میں شامل ہو سکتی ہے۔ یہ دَل مسلسل 36 گھنٹے پرواز کر سکتے ہیں ۔ایک ہی اُڑان میں کئی ملک پار کر جاتے ہیں۔ دورانِ پرواز ایک ٹڈی اگر تھک جائے تو دوسری کے اوپر نہ صرف سواری کر سکتی ہے بلکہ نیند کے مزے بھی لے سکتی ہے۔ اس طرح کے تمام گروہ ایک دوسرے کو بھرپور انداز میں اکاموڈیٹ کرتے ہیں۔ ان کے گروہ کی آپس میں لڑائی صرف اور صرف کھانے کے مواد پر ہوتی ہے ۔جہاں خوراک وافر ہو فوری طور پر لڑائی بند کر کے کھانے میں جُت جاتے ہیں۔ ان کے گروہ کا سردار وہ ہوتا ہے جو سخت سے سخت چیز آسانی سے کھا سکے اور جس کی جسامت نسبتاً بڑی ہو۔ ٹڈی دَل کامقابلہ صرف اور صرف متحد ہو کر ہی کیا جا سکتا ہے ، یہ واحد کیڑا ہے جو کھانے میں لذیذ اور پروٹین سے بھرپور ہے۔ جب ٹڈی دَل کسی علاقے پر حملہ آور ہوتا ہے تو لوگ گروہ کی شکل میں مقابلہ کرتے ہیں ؛چونکہ حلال ہے ،لوگ شوق سے پکا کر کھا جاتے ہیں جبکہ غیر مسلم بھی اِسے مرغوب غذا کے طور پرکھاتے ہیں۔ ٹڈی دَل کو گھیر کر ہی مارا جاسکتا ہے۔ زمین سے اس پر انسانوں کے گروہ حملہ آور ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی مدد آجاتی ہے اور نہ جانے کہاں کہاں سے ہزاروں پرندے انہیں کھانے کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح ہر طرف سے گھیر کر ان کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔اس کی عمر 90 دن سے لے کر 600 دن تک ہوتی ہے۔ وطنِ عزیز میں بھی طاقت کے سارے ہی سوتوں پرسیاسی، اقتصادی ، اتحادی اور انتظامی ٹڈی دَل تقریباً چار دہائیوں سے اپنی گرفت مضبوط کرکے ملک کو کھاتے چلے آ رہے ہیں ۔ پاکستان پر ٹڈی دَل کا پہلا حملہ 1976ء میں ہوا اور بڑے پیمانے پر نقصان کے ساتھ ساتھ اس خطے کی زرخیز، نرم اور موافق زمین پر انڈوں کی شکل میں اپنے اثرات چھوڑ گیا۔ جس طرح کبھی دیسی گھی کے دور میں بناسپتی گھی کو لوگ چھپا کر لاتے اور استعمال کرتے تھے اور آج چار دہائیوں بعد بناسپتی پتی سر عام اور دیسی گھی کو چھپا کر استعمال میں لایا جاتا ہے،عین اسی طرح آج کرپشن سرعام اور ایمانداری چھپا کر کی جا رہی ہے۔ کرپشن اَب طعنہ نہیں رہی، اَب تو ایمانداری طعنہ بن چکی ہے۔ کرپٹ کے ساتھ ’’ڈاہڈا ‘‘ اور ایماندار کے ساتھ ’’بے چارہ‘‘ کے سابقے لاحقے استعمال ہونے لگے ہیں۔ پاکستان کو کئی ایسے’’ مہربان‘‘ ملے جنہوں نے کرپشن کی انتہا کر دی۔ جس کا بس چلا اس نے نیا دَل بنایا اور ہر پھل، ہر پودے، ہر فصل اور ہر جڑی بوٹی کو خوب سیر ہو کر کھایا۔ یہ دَل کھاتے کھاتے تھک جاتا تو تھکاوٹ دُور کرنے کے لیے پھر کھانا شروع کر دیتا ۔ تاہم ٹڈی دَل اور سیاستدان کے دَل میں ایک نمایاں فرق یہ ہوتا ہے کہ ٹڈی دَل کا کوئی بنک اکائونٹ نہیں ہوتا اورنہ ہی ان بے چاروں کے پاس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہوتے ہیں،کہ ان پر دنیا بھر میں جائیدادیں خریدی جا سکیں۔ جبکہ سیاسی ٹڈی دلوں دونوں سہولتیں میسر ہوتی ہیں لہٰذا نہ صرف خوب کھا تے ہیںبلکہ بُرے دنوں کے لیے بھی اچھا خاصا بچا رکھتے ہیں؛تاکہ آنے والی نسل کو اگر زرخیز اور نمی والی زمین یہاں میسر نہ آ سکے تو کہیں بھی جا کر استفادہ کرسکے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں ہر شعبے میں ترقی ہوئی وہاں سیاستدان ٹڈیوں کے بھی نئے نئے گروہ سامنے آئے۔وقت نے بعض گروہوں کے ہاضمے اتنے مضبوط کردیے تھے کہ لوہا تک کھانے لگے ۔انہوں نے اس ملک کی اکلوتی ائیرلائن کے کئی طیاروں کو بھی گرائونڈ کرا دیا۔ پھرایک نئی شاخ نکلی جس نے ریلوے کے فولاد اورسٹیل مل مصنوعات پر نظریں گاڑ لیں کہ ملک بھر میں پھیلی ریلوے کی پٹڑیوں کے نیچے شورو غل کے بغیر پُر سکون ماحول میں افزائشِ نسل کی جا سکے۔ دوسرا دَل سٹیل مل کی مصنوعات ہی کھا گیا کہ اس کی دن رات جلنے والی بھٹیوں سے فضا میں حِدت پیدا ہوتی تھی جو نمی کو کھاتی تھی جبکہ ٹڈیوں کی نسل بڑھانے کے لیے نمی بہت ہی ضروری ہے ۔ مگر سیاسی ٹڈیوں کے ان تمام گروہوں کو ایک نئے دَل نے مات دے دی۔ اس دَل نے فیصلہ کیا ’’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘‘ کہ جب زمین ہی نہ ہو گی تو فصل کیسے تیار ہو گی، کون فصل اُگنے کا انتظار کرے! لہٰذا زمین ہی کیوں نہ کھالی جائے۔بس پھر اس دَل نے اپنے پنجے پنجاب اور سندھ میں پوری طرح گاڑ دیے۔ ان کے راستے میں سرکاری وغیر سرکاری زمینوں کے علاوہ کمزوروں کی جتنی بھی زمینیں آئیں ہضم کر لیں ۔بیس سال قبل جس کے پاس ایک مرلہ بھی زرعی اراضی نہ تھی، آج اپنے اپنے زیرِ انتظام اضلاع کے سب سے بڑے زمیندار قرار پا چکے ہیں۔عوام خاموش اور انتظار میں رہیں گے تو ان کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح ہو گا کہ ’’انتظار کرنے والے کوبس اتنا ہی ملتا ہے جو کوشش کرنے والوں سے بچ جاتا ہے۔‘‘ ٹڈی دَل کے تمام گروہوں کا خاتمہ عوام مل کر اور گھیرا ڈال کر ہی کر سکتے ہیں کہ اس کا کھانا بھی جائز ہے اور ویسے بھی قوم میں پروٹین کی خاصی کمی ہو چکی ہے جو قوتِ مدافعت پیدا کرتی ہے۔ جب یہ عوام مقابلے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے ،دیگیں چڑھا لیں گے تو ہر کوئی اپنے اپنے حصے کا زور لگائے گا اور پھر جب زبانِ خلق نقارۂ خدا بنے گی تو خدائی مدد بھی کروڑوں پرندوں کی شکل میں آئے گی اور اس طرح دَل ختم ہو جائیں گے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎ اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں