محاورے کی زبان میںبات کی جائے تواس وقت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سینگ پھنسائے بیٹھے ہیں ۔ایک وقت تھا عمران خان انتخابی اصلاحات سے متعلق بہت سی درخواستیں سپریم کورٹ لے کر گئے تو انہیں عدالت میں بھر پور پروٹوکول ملا۔باہم احترام کا یہ عالم تھا کہ اس دور میں چیف جسٹس صاحب عمران خان کو کمرہ عدالت میں بھی خان صاحب کہہ کر بلاتے تھے۔ عمران خان بھی چیف جسٹس سے بھر پور تعاون کی توقع رکھتے تھے ۔پھر عمران خان کے وکیل حامد خان بھی چیف صاحب کی گڈ بک میں شامل تھے ۔ عمران خان اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میںسب سے آگے والی قطار میں بیٹھتے۔حامد خان روسٹرم پر ہوتے اورچیف جسٹس الیکشن کمیشن کے ذمہ دار ملزموں کوبے نقط سناتے ۔بوگس ووٹر لسٹوں کا معاملہ اورسمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق درخواست پر بھی سابق چیف جسٹس نے عمران خان کے موقف کے حق میں بھر پورفیصلے دیے۔اس وقت کی یہ عدالتی کارروائی دیکھ کر کوئی نہیں کہ سکتا تھا کہ آنے والے دنوں میں چیف جسٹس صاحب اور عمران خان کی ایسی ٹھنے گی کہ ہر قسم کا ادب و لحاظ ختم ہو جائے گا۔سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل عمران خان نے 2013ء کے عام انتخابات پر کڑی تنقید کی اور ریٹرننگ افسران کے کردار کو شرمناک قرار دے دیا۔ چونکہ ریٹرننگ افسران ماتحت عدلیہ کے جج تھے اس لیے سابق چیف جسٹس نے اسے عدلیہ کی توہین سمجھتے ہوئے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ عمران خان نے ایک ہی موقف اپنایا کہ انہوں نے عدلیہ کے کردار کو شرمناک نہیں کہا بلکہ یہ لفظ ان ریٹرننگ افسران کے لیے استعمال کیا جو انتخابی ڈیوٹی پر مامورتھے اور انہیں اس لفظ کے استعمال پر کوئی شرمندگی نہیں ۔ سابق چیف جسٹس نے یہ موقف تسلیم نہ کیا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ان کے نزدیک لفظ شرمناک ایک گالی ہے ۔اس مقدمے کی بہت سی سماعتیں ہوئیں لیکن عمران خان نے اپنے کہے پر معافی نہ مانگی اور ایک بیان حلفی میں اپنا پرانا موقف دہرا دیا۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ عمران خان اس توہین عدالت کے مقدمے سے معافی مانگے بغیر ہی بری ہو گئے تھے ورنہ اس زمانے میں تو بڑوں بڑوں کو معافی نامے دینے میں ہی عافیت نظر آتی تھی۔الطاف حسین نے جوش خطابت میں عدلیہ پر انگلی اٹھائی تو انہیںعدالت طلب کر لیا گیا ۔جو سیاستدان ملک کے اندر خطرے کے باعث خودساختہ جلا وطن ہو وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر کیسے عدالت پیش ہوتا ،اسی لیے الطاف بھائی نے معافی مانگ لی۔یہی الزام فاروق ستار پر لگا تو ان کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے ان کی جانب سے معافی مانگ لی۔ مرزا اسلم بیگ نے اصغر خان کیس کی تاریخی سماعت کے موقع پر اپنے بیان میں لکھ دیا کہ وہ عدالت میں پیش ہونے کی ہیٹ ٹرک کر رہے ہیں ۔ بس اس ہیٹ ٹرک کے لفظ پر چیف جسٹس سیخ پا ہو گئے اوربولے :یہ جنرل صاحب کیا عدالت میں گالف کھیلنے آئے ہیں جو ہیٹ ٹرک کی بات کر رہے ہیں ۔ عدالت کے تیور دیکھ کر مرزا صاحب کے وکیل اکرم شیخ نے جنرل صاحب کی جانب سے تحریری معافی نامہ لکھ کر دے دیا۔رحمان ملک نے سٹیل ملز کرپشن کیس کی تحقیقات کے لیے ایک نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی بس اسی اقدام پر انہیں معافی مانگنا پڑی۔راجہ پرویز اشرف نے اپنے خلاف مقدمے میں تحقیقات بارے ایک خط چیف جسٹس کو لکھا ۔عدالت نے اسے بھی توہین عدالت گردانا اور سابق وزیر اعظم کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا اور معافی نامہ اگلوا
لیا۔سینیٹر با بر اعوان کے ساتھ تو عدلیہ کا کچھ زیادہ ہی پیار تھا ۔ ان پر ایک وقت میں توہین عدالت کے دو مقدمات چلتے رہے ۔ ایک عرصہ تک ان کا وکالت کا لائسنس معطل رہا اور صرف ایک پریس کانفرنس کرنے کی پاداش میں انہیں توہین عدالت کا نوٹس ملا اور دلچسپ بات یہ کہ معافی مانگنے کے با وجود ان کی خلاصی نہ ہوئی اور وکالت کا لائسنس اس وقت تک بحال نہ ہوا جب تک چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ریٹائر نہ ہو گئے۔اس لحاظ سے عمران خان خوش قسمت تھے کہ معافی مانگے بغیر ہی توہین عدالت کے الزام سے بری ہو گئے ،لیکن اب حال یہ ہے کہ عمران خان صاحب سابق چیف جسٹس پر الزامات ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور گزشتہ روز انتخابات کا مینڈیٹ چوری کرنے والوں کے نام بھی بتادیے۔افتخار چودھری چونکہ چیف جسٹس رہے ہیں اس لیے ان الزامات کے جواب میں عمران خان سے قانونی طور پر عدالت میں نمٹنا چاہتے ہیں ۔دو ارب روپے کا ہتک عزت کا نوٹس بھجوا چکے ہیں لیکن چیف صاحب اور عمران خان دونوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسے نوٹس صرف خبر بنوانے ،مخالف کو وقتی طور پر پریشان کرنے سے زیادہ اور کسی کام نہیں آتے ۔بقول بابر اعوان نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا۔
چند روز قبل چیف صاحب کے صاحبزادے ارسلان افتخار نے نادرا سے درخواست کی تھی کہ انہیں عمران خان کافیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ فراہم کیا جائے تاکہ وہ عمران خان کی ایک مبینہ نا جائز بیٹی کو بنیاد بنا کر نا اہلی کا مقدمہ دائر کر سکیں لیکن نادرا نے یہ کہہ کر ارسلان افتخار کی درخواست مسترد کر دی تھی کہ ایف آر سی ایک نجی دستاویز ہے جو کسی غیر متعلقہ شخص کو نہیں دی جا سکتی۔اب سابق چیف جسٹس چاہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کا ریکارڈ بشمول عمران خان کا بیان حلفی انہیں فراہم کیا جائے تاکہ وہ اسے خان صاحب کے خلاف ہتک عزت کے دعوے میں استعمال کر سکیں ۔ لیکن سپریم کورٹ کے دفتر نے اپنے ہی سابق چیف جسٹس کی درخواست پر اعتراض لگا دیا کہ چونکہ وہ اس مقدمے کے فریق نہیں تھے اس لیے انہیں عمران خان کے بیان حلفی کی نقل فراہم نہیں کی جا سکتی۔ گردش ایام بھی عجب چیز ہے۔ ایک وقت تھا چیف جسٹس سپریم کورٹ کے سیاہ وسفید کے مالک تھے اب اسی سپریم کورٹ کا دفتران کی درخواست پر اعتراض لگا رہا ہے۔یہ حقیقت اب چیف صاحب پر آشکارہو گئی ہو گی کہ اب وہ چیف جسٹس نہیں رہے اور یہ کہ سپریم کورٹ اب ان کے زیر اثر نہیں رہی۔اب انہیں مقدمہ سننا نہیں بلکہ لڑنا پڑے گا۔ انصاف دینا نہیںبلکہ لینا ہے اور تلخ حقیقت یہ کہ ہمارے معاشرے میں انصاف لینا،انصاف دینے سے زیادہ مشکل کام ہے۔