بالادست کون؟ آئین، پارلیمنٹ یا عدالت

عدالتیں اگر خود آئین کی پیداوار ہیں تو کیا یہ کسی آئینی ترمیم کو ختم کر سکتی ہیں؟
یہ وہ سوال تھا جو سپریم کورٹ میں 2010ء میں اس وقت اٹھایا گیا جب اٹھارویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اٹھارویں آئینی ترمیم منظور ہوئی تھی اوراس ترمیم کے ذریعے آئین میں بے شمار اصلاحاتی ترامیم کی گئیں۔ ان میں سے ایک ترمیم کے تحت اعلیٰ ججوں کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا۔ پہلے یہ اختیار صرف چیف جسٹس آف پاکستان کا تھا لیکن نئی ترمیم کے بعد ججوں کے تقرر کا معاملہ جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو سونپ دیا گیا۔
اس وقت کی عدلیہ نے اس ترمیم کا بہت برا منایا اور اسے عدلیہ پر حملہ قراردیا ۔17رکنی فل کورٹ نے اس ترمیم کے خلاف کیس سنا۔ اس بنچ کے سب سے فعال رکن جسٹس (ر) خلیل الرحمان رمدے نے تو یہ ریمارکس بھی دے دیے کہ '' اچھااب نوبت یہ آرہی ہے کہ جمشید دستی ججوں کا تقرر کرے گا‘‘۔ قریب تھا کہ عدالت اس ترمیم کو ختم کرنے کا حکم دیتی لیکن اس وقت کے کچھ جج صاحبان کی جانب سے شدید اختلافی نوٹس سامنے آئے ۔ ان جج صاحبان کا موقف تھا کہ ججوں کی تقررکے نئے طریقہ کار سے عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری پر کوئی ضرب نہیں لگتی اور پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ وہ آئین میں کوئی بھی ترمیم کرسکتی ہے ۔ عدالتیں آئین کی پیداوار ہیں جو آئین کی تشریح تو کر سکتی ہیں لیکن آئین سازی یا آئین میںتحریف کا اختیار نہیں رکھتیں۔ پانچ سال سے تک یہ مقدمہ عدالت عظمیٰ میں زیر التوا رہا۔ اس دوران ججوں کے تقرر کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرتے رہے اور کہیں پر بھی عدلیہ کی آزادی پر ضرب لگنے کا تاثر نہیں ملا۔
اب اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت ملک میں فوجی عدالتیں (جنہیں کاغذوں میں خصوصی عدالتوں کا نام دیا گیا ہے) قائم کی جا رہیں ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں خون کی ہولی کے بعد اور دہشت گردی کے بڑھتے ناسور پر قابو پانے کے لیے پارلیمنٹ نے فوجی عدالتوں کے قانون پر مہر تصدیق ثبت کی۔ ہمارا موجودہ فوجداری نظام ، عدالتیں اور انسداد دہشت گردی جیسے قانون بھی دہشت گردوں کو دبوچنے میں ناکام رہے تو آئین میں ماورائے آئین ترمیم کرنا پڑی۔ لیکن فوجی عدالتوں کا قیام بھی سپریم کورٹ میںچیلنج ہوگیا۔ موقف یہ تھا کہ فوجی عدالتوں کا قیام بنیادی آئینی حقوق کے خلاف ہے۔ یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے اور عوام کو انصاف تک رسائی اورفیئر ٹرائل کے بنیادی حق سے محرو م کرنے کے مترادف ہے۔ آئین کے آرٹیکل 8 کے تحت ایسا کوئی قانون جو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہو عدالت اسے کالعدم قرار دینے کی مجاز ہے۔ اس سے پہلے بھی نواز شریف صاحب کے گزشتہ دورحکومت میں فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ ہوا تھا تو عدالت نے شیخ لیاقت کیس میں ان فوجی عدالتوں کو آئین سے متصادم ہونے کی بنیاد پر کالعدم قرار دے دیا تھا۔ فوجی عدالتوں کے خلاف یہ وہ دلائل تھے جوسپریم کورٹ میں پیش کیے گئے۔ لیکن جو دلائل فوجی عدالتوںکے حق میں آئے وہ بھی کم وزن دار نہیں تھے۔ حکومت نے ان عدالتوں کا بھر پور دفاع اس موقف کے ساتھ کیا کہ آرٹیکل 239کے تحت پارلیمان عوام کی ترجمان ہے اور آئین میں کسی بھی وقت اور کوئی بھی ترمیم کرنے کا اختیار رکھتی ہے ۔ فوجی عدالتیں مخصوص حالات سے نمٹنے کے لیے وقت کی ضرورت ہیں۔
فوجی عدالتوں کا قانون اگربنیادی آئینی حقوق سے متصادم بھی 
ہے توبھی اسے ختم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ ، تحفظ پاکستان ایکٹ اور دیگر متعلقہ عسکری قوانین کو شیڈول اوّل میں شامل کر لیا ہے۔ جو قوانین شیڈول اوّل میں شامل ہوں ان پر آرٹیکل 8 کا اطلاق نہیںہو تا اور کوئی عدالت انہیں ختم نہیں کر سکتی۔ نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں جو فوجی عدالتیں بنی تھیں یا بننا تھیں انہیں آئینی تحفظ حاصل نہیں تھا، اسی لیے شیخ لیاقت حسین نے جب انہیں چیلنج کیا تواس وقت کی سپریم کورٹ نے قرار دے دیا کہ بنیادی حقوق کے منافی کوئی عدالت نہیں بن سکتی۔ 
عدالت عظمیٰ کے 17رکنی فل کورٹ نے فوجی عدالتوں کا مقدمہ سنا اور اس کا فیصلہ محفوط کر لیا۔ اسی مقدمے کے ساتھ ہی اٹھارویں ترمیم کو چیلنج کرنے والے کیس کا فیصلہ بھی محفوظ کر لیا گیا۔ فیصلہ کیا ہوگا؟ اس پر کوئی قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی۔ فوجی عدالتوں کوکام کرنے دیا جاتا ہے یا نہیں، اس بارے میںکچھ کہنا قبل از وقت ہو گا، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کا آنے والا فیصلہ آئین کی بالا دستی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کو وضع کرنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے اختیارات پر بھی منطقی رائے کا حامل ہوگا۔ انگلستان کی پارلیمنٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنی بااختیار اور بالا دست 
ہے کہ کسی مرد کو عورت اور عورت کو مرد بھی قرار دے سکتی ہے۔ ہماری پارلیمنٹ بھی آئین کی خالق ہے، اسی پارلیمنٹ نے آئین بنایا اور عدالتیں بھی اسی آئین کے تحت بنیں، اس تناظر میں پارلیمنٹ کو خود مختار اور بالا دست ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جن جیورسٹ حضرات کا یہ خیال ہے کہ ہمارے ملک میں آئین بالا دست ہے کیونکہ آئین کے تحت ہی پارلیمنٹ اور عدالتیں کام کرتی ہیں، وہ اس بنیادی نکتے کو بھول جاتے ہیںکہ ہمارا آئین کو ئی آسمانی صحیفہ نہیں، اور نہ ہی یہ کوئی الہامی کتاب ہے بلکہ اسے گوشت پوست کے انسانوں نے ہی مرتب کیا ہے۔ اس لیے اس کتابچے کو نظریہ ضرورت کے تحت کبھی معطل رکھا گیا اور کبھی سرد خانے میں ڈال دیا گیا، لیکن ایک حقیقت مستقل ہے کہ اس کتاب میں تحریف ، تخفیف اور اضافے کا اختیار صرف عوامی نمائندوں کے پاس ہے... سیاہ کریںیا سفید کریں ۔ سیاہ کریںگے تو اپنی سیاہی کو مٹانے کا اختیار بھی پارلیمنٹ نے ہی عدالتوں کو دے رکھا ہے ، لیکن جن معاملات میں پارلیمنٹ آئین میں یہ لکھ دے کہ ان امورمیں عدالت کا کوئی اختیار نہیں ہوگا تو پھر عدالتوں کے لیے یہ قدغن آئینی شمارہوگی۔ اگر عدالت یہ دعویٰ کرے کہ اس کا عدالتی نظر ثانی کا اختیار موروثی ہے اور کوئی چیز بھی عدالتی نظر ثانی سے مستثنیٰ نہیں ہے تو پھر یہ دعویٰ بھی آئینی تناظر میں پرکھا جائے گا اور لوگ اس دعوے کی توثیق کے لیے آئینی تاویلیں تلاش کرتے رہ جائیںگے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں