شاہراہ دستور کا منظر نامہ

اسلام آباد کی شاہراہ دستور کا عجب نظارہ ہے ۔یہ شاہراہ اس ریڈ زون کا حصہ ہے جہاں دفتر خارجہ، سپریم کورٹ، ایوان صدر ، وزیر اعظم سیکریٹریٹ ،پارلیمنٹ ہائوس اورغیر ملکی سفارتخانوں جیسی دیگر اہم عمارات ہیں۔دن ہو یا رات، ریڈ زون میں کوئی غیر متعلقہ شخص داخل نہیں ہو سکتا ۔ یہاں نہ کوئی پبلک ٹرانسپورٹ چلتی ہے اور نہ ہی کوئی پرائیویٹ ٹیکسی اس زون میں داخل ہو سکتی ہے۔ کوئی بوڑھا ہو یا معذور ، خاتون ہو یا بچہ۔ سکیورٹی والے کسی سے رعایت نہیں کرتے ،کسی کو یہاں آنے کی اجازت نہیں ملتی تاوقتیکہ قابل قبول شناخت اور جواز پیش نہ کیا جائے ۔وزیر داخلہ چوہدری نثار نے وارننگ دی تھی کہ جولوگ اسلام آباد میں دھرنا دینے آرہے ہیں، ان کے لیے ریڈ زون ریڈ لائن ہے جسے عبور کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ کہا جاتا ہے حکمرانوں کی کسی بات کا اس وقت تک یقین نہیں کرنا چاہیے جب تک وہ اس کی تردید نہ کر دیں۔ بس اسی لیے چوہدری نثار صاحب نے جب ریڈ لائن والا بیان دیا تو سمجھ آگئی تھی کہ اب احتجاجی یہ ریڈ لائن ضرور عبور کریں گے اور ہوا بھی یہی ۔ یوں اب حساس ترین ریڈ زون کا منظر یہ ہے کہ شاہراہ دستور پرپاکستان عوامی تحریک کے شرکاء قیام پذیر ہیں اور پڑوس میں پارلیمنٹ کے بالکل سامنے ڈی چوک پر عمران خان اور ان کا جنون پڑائو ڈالے ہوئے ہے ۔ قادری صاحب کے تمام پیروکار مستقل سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں جبکہ خان صاحب کا جنون شام کو جلوہ گر ہوتا ہے ۔اس عارضی شہر کو آباد ہوئے کئی دن گزر چکے ہیں اور جڑواں شہروں کے رہائشی تو اب اس عجوبہ زندگی کو دیکھنے آرہے ہیں ۔وہ جگہ جو عوام الناس کے لیے ممنوعہ علاقہ تھی اب وہاں بڑے بڑے شامیانے لگے ہیں۔ ہر طرف لوگ ہی لوگ۔ بزرگ ، جوان ،بچے، خواتین۔ کوئی سپریم کورٹ کے سامنے کپڑے دھو رہا ہے۔ کوئی پلاسٹک کا شاپنگ بیگ تھامے کھانے کی لائن میں لگا ہے ۔کوئی کھانے کے بعد قیلولہ کرتا نظر آئے گا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے ہم جنسوں کے ساتھ ٹولیاں بنائے بیٹھے ہیں ۔کہیں خوش گپیاں ہیں تو کہیں حالات حاضرہ پر بحث۔کوئی نماز پڑھ رہا ہے تو کوئی طالبعلم اپنی کتاب کھولے امتحان کی تیاری میں مصروف ہے۔ وقفوں وقفوں سے رہنما کے کنٹینر سے لائوڈ سپیکر پر آزادی اور انقلاب کے ترانے فضا میں گونجتے ہیں۔ انقلاب کے متوالے والہانہ رقص شروع کر دیتے ہیں ۔اور تو اور دھرنے کے اندر سکیورٹی کا نظام بھی احتجاجیوں نے سنبھال رکھا ہے۔ آپ دھرنے میں داخل ہوں تو ہاتھوں میں ڈنڈا لیے احتجاجی کارکنان آپ سے شناخت مانگیں گے اور تسلی کے بعد اندر آنے کی اجازت دیں گے۔پارلیمنٹ ہائو س کا سٹاف اور معزز اراکین پارلیمان متبادل راستے سے آنا جانا کررہے ہیں، یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو بھی سپریم کورٹ کے پچھواڑے سے عدالت میں لایا جاتا ہے۔ شاہراہ دستور کے عین درمیان میںپھولوں کی کیاریوںکے درمیان رفع حاجت کے لیے طہارت خانے بنائے گئے ہیں جہاں دھرنے کے شرکاء اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے ہیں،جس سے انتظار نہیں ہو پاتا وہ مرکزی شاہراہ سے ذرا دور کوئی اوٹ ڈھونڈ لیتا ہے ۔ اس مقام پر زیر تعمیر میٹرو بس منصوبے کے لیے جو کھدائی کی گئی تھی وہ بھی اب متبادل بیت الخلاء کے طورپر استعمال ہو رہی ہے۔ اس مقام پر اب وبائی امراض پھوٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ دھرنے کے شرکاء آخر گوشت پوست کے بنے انسان ہیں ۔ایک چھتری کا سایہ انہیں د ن میں سورج کی تپش سے بچاتا ہے تو یہی چھتری رات میں انہیں بارش سے بچاتی ہے ۔یہاں ایک موبائل ڈسپنسری بھی ہے، جہاں بیمار
ہونے والے شرکاء کو طبی امداد دی جاتی ہے لیکن گزشتہ پانچ ایام میں کئی شرکاء کی حالت خراب ہونے پر انہیں ایمبولینس کے ذریعے اسپتال منتقل کیاجا چکا ہے۔علاقے میں سخت بدبو اور تعفن ہے۔مظاہرین بھی یہ بدبو محسوس کرتے ہیں لیکن صرف ہاتھ کا پنکھا جھل کر ہی گزارہ کرتے ہیں۔یہ متعفن تصویر صرف شاہراہ دستور کے اس حصے کی ہے جہاں طاہر القادری (اپنے کنٹینرمیں ) اور ان کے شرکاء براجمان ہیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک اور پریڈ ایونیو پر عمران کا ڈیرا ذرا مختلف ہے ۔یہاں رات کو دن نکلتا ہے اور دن کو رات۔ تحریک انصاف کے آزادی خواہ دن میںگھروں کو چلے جاتے ہیںاور شام ڈھلتے ہی دوبارہ احتجاجیوں سے آملتے ہیں ۔پھرتحریک انصاف کاجنو ن آزادی کے ترانوں پر جھومتا ہے اور رات گئے قومی ترانہ پڑھ کر دوبارہ آنے کے عزم کے ساتھ گھروں کو روانہ ہو جاتاہے۔بہرحال مستقل سکونت والے قادری صاحب کے مرید ہوں یا روزانہ آنے والے عمران خان کے جنونی ، دونوں نے ہی اس دھرنے کو تاریخی بنا دیا ہے ۔ یہ دھرناسیا سی ہے یامذہبی۔ آئینی ہے یا غیر آئینی۔حقیقت ہے یاڈرامہ۔ ان تمام تحفظات سے بالاتر ہو کر اس حقیقت کو تسلیم کرنا
پڑے گا کہ اس قسم کا احتجاج پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ شاہراہ دستور پر ہونے والا احتجاج ایک سیاسی معاملہ ہے ۔عدالت کسی طور سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ ہاں اگر کسی فریق کی جانب سے حق تلفی ہو گی یا بنیادی انسانی حقوق کا حصول متاثر ہو گا تو پھر یہ عدالت کا دائرہ کار ہے کہ وہ اپنا حکم جاری کرے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دھرنے والوں کا کہنا ہے کہ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کرنا ان کا آئینی و قانونی حق ہے جس سے کوئی عدالت منع نہیں کر سکتی۔حکومت کا یہ موقف ہے کہ اس دھرنے سے لوگوں کی نقل و حرکت کی آزادی متاثر ہو رہی ہے۔ عوام الناس کو مشکلات کا سامنا ہے، ان کی نقل و حرکت کی آزادی کا حق متاثر ہو رہا ہے، اس لیے دھرنے کو ختم کروایا جائے ۔عوام کے لیے عمران خان کا دھرنا کرپٹ نظام سے آزادی مانگ رہا ہے اور تبدیلی چاہتا ہے،جبکہ قادری صاحب نئے نظام کے لیے انقلاب کا علم اٹھائے ہوئے ہیں ۔مجھ سمیت کون ہے جو کرپٹ نظام کا خاتمہ نہیں چاہتا۔کون ہے جو تبدیلی نہیں چاہتا۔ آزادی کسے اچھی نہیں لگتی۔کون ہے جوانقلاب کا منتظر نہیں،لیکن کیا کریں سچ تو یہ ہے کہ بدقسمتی سے کبھی کبھار ہمارا آئین اور قانون ہی قومی دولت کی لوٹ مار کرنے والوں کو بچانے کے لیے ڈھال بن جاتا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں