وزارت پانی و بجلی نے بر ملا تسلیم کر لیا ہے کہ اس وقت بھی ملک کے بہت سے علاقوں میں 18گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے حا لانکہ کچھ ہی دن پہلے وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں بیان دیا تھا کہ ملک کے کسی حصے میں 8گھنٹے سے زیادہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی۔اسی طرح سے رمضان سے صرف ایک دن پہلے وزیر اعظم ہائوس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہواجس میںفیصلہ کیا گیا کہ ملک بھر میں سحر و افطار اور تراویح کے اوقات میں بالکل لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی اور باقی اوقات میں شہری علاقوں میں چھ اور دیہی علاقوں میں آٹھ گھنٹوں سے زیادہ بجلی بند نہیں ہوگی ۔ اس اجلاس کی سربراہی جناب میاں نواز شریف نے خود کی جبکہ جید وزراء اور توانائی کے شعبوں سے متعلق اعلیٰ عہدیداران اور ماہرین کی ایک فوج اس اجلاس میں موجود تھی۔ رمضان المبارک کے لیے لوڈشیڈنگ کے اس منصوبے پر سب نے اتفاق کیا اور ملک میں بجلی پانی کی مجموعی صورتحال پر اطمینان کا اظہار بھی کیا‘لیکن اگلے ہی دن یکم رمضان کو وزارت پانی و بجلی اور تقسیم کار کمپنیوں نے اعلیٰ سطحی فیصلوں کی دھجیاں اڑا دیں‘ ایسی خوفناک لوڈ شیڈنگ ہوئی کہ نہ سحری میں کسی کو بخشا اور نہ افطار میں یہاں تک کہ تراویح کی بابرکت ساعتیں بھی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہوئیں ۔ایک دن پہلے ہونے والے اجلاس میں اتنے بڑے بڑ ے ذہن موجود تھے لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ رمضان شروع ہوتے ہی بجلی کی مانگ میں
بھی اضافہ ہو گا‘ کھپت بھی زیادہ ہو گی اور جون اپنے جوبن پہ ہے تو گرمی بھی ہو گی۔عوام کی چیخیں نکلیں تو وزیر اعظم نے اس صورتحال کا نوٹس لیا‘ وزارت پانی و بجلی سے جواب مانگا ۔ سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگہ کی وزیر اعظم ہائوس طلبی ہوئی تو انہوں نے معصومیت سے وزیراعظم کوصاف صاف بتا دیا کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا روزوں میں بجلی کی مانگ اور کھپت اتنی بڑھ جائے گی اور یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ گرمی کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا ۔ اگر بجلی کی موجودہ طلب برقرار رہتی ہے تو پھر بجلی کی فراہمی کا یہی حال رہے گا ۔ ملک تو روشن نہیں ہو گا لیکن عوام کے چودہ طبق ضرور روشن ہوں گے۔ہمارے وزیر اعظم سیکرٹری صاحب کی اس صاف گو ئی پر ٹھنڈی آہ بھرنے کے علاوہ کیا کر سکتے تھے‘ بس بہتر اقدامات کی دوبارہ ہدایات جاری کر دیں ۔ اب وہ سیکرٹری پانی و بجلی کی نہ تو چھٹی بند کر سکتے تھے اور نہ ہی وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھ کر کوئی گھنٹی بجا کر بجلی پیدا کر سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ کاعذاب ہے اور ہم ہیںدوستو۔اس وقت ملک کے بعض علاقوں میں 18گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ وزیرپانی و بجلی خواجہ آصف کا کہنا ہے‘ یہ وہ علاقے ہیں جہاں80 فیصد بجلی یا تو چوری ہوتی ہے یا پھر
ادائیگیاں نہیں ہوتیں۔اس لیے ایسے تمام فیڈرز سے بجلی لینے والوں کو 18گھنٹے بجلی نہیں ملے گی۔چوبیس گھنٹوں میں سے اٹھارہ گھنٹے بجلی بند رہے تو باقی کیا بچتا ہے۔ یہاں عوام اپنے حکمرانوں سے یہ پوچھنے کا حق ضرور رکھتے ہیں کہ بجلی چوری کیا حکومتی اہلکاروں کی ملی بھگت سے نہیںہوتی۔ کوئی ادائیگیاں نہیں کر رہا تو اس کی سزا اسے کیوں مل رہی ہے جو اپنا بل باقاعدگی سے ادا کرتا ہے۔ بجلی چور نہیں پکڑے جاتے تو یہ حکومت کا قصور ہے یا عوام کا۔ بلوں کی وصولیاں نہیں ہو رہیں تو یہ حکومت کی نااہلی ہے۔ توانائی کے منصوبے نہیں بن پا رہے تو یہ حکومت کی کاہلی ہے عوام کی نہیں۔ نئے ڈیم حکومت نے بنانے تھے عوام نے نہیں۔ بجلی کی ترسیل کا نظام اگر ناکافی اور پرانا ہے تو اس میں توسیع حکومت نے کرنا تھی عوام نے نہیں۔ لیکن کرے کوئی اور بھرے کوئی کے مصداق حکومتی نا اہلی کی سزا عوام کو دی جا رہی ہے۔المیہ یہ ہے کہ اضافی بجلی پیدا کر بھی لی جائے تو ترسیلی نظام زیادہ لوڈ اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نیشنل گرڈ میں اگر 16000MW سے زیادہ بجلی ڈال دی جائے توپورے سسٹم سے پٹاخے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔حالیہ گرمی میں بجلی کی طلب 21000MW تک جا پہنچی تھی‘ لیکن ہم صرف 16300MW بجلی ہی پیدا کر سکے اور یوں 4700MW بجلی کا شارٹ فال (کمی) برقرار رہا۔ شارٹ فال کایہ وہ عذاب ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے راجہ پرویز اشرف، نواز شریف، شہباز شریف اور خواجہ آصف سمیت دیگر کرتا دھرتا بے شمارڈیڈ لائنز دے چکے ہیں‘ لیکن لوڈشیڈنگ کے جن کو قابو نہیں کر سکے۔ چھوٹے میاں صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر وہ لوڈ شیڈنگ ختم نہ کر سکے تو پھر ان کا نام شہباز شریف نہیں کچھ اور رکھ دینا۔ مخالفین تو اب جناب شہباز شریف کے لیے بہت سے نئے نام تجویز کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے صرف دو ہفتے پہلے قومی اسمبلی کے فلور پر یہ بیان دیا کہ ملک میں کہیں بھی 8گھنٹوں سے زیادہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی‘ لیکن یہ وہ بیانات ہیں جن کی بیانات سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شدید گرمی سے سندھ میں سینکڑوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان اموات کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہی ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ارباب اقتدار میں سے کوئی اس انسانی المیے کی شدت پر افسوس بھی کرنے کا روادار نہیں ہے۔وزیر ہو یامشیر کسی نے بھی اظہار رائے کرتے ہوئے معذرت خواہانہ لہجہ نہیں اپنایا ۔اس گرمی اور لوڈ شیڈنگ میں لقمہ اجل بننے والے سینکڑوں افراد کی ایک غائبانہ نماز جنازہ پارلیمنٹ ہاوس کے باہر منعقد کی گئی تو صرف چارسے پانچ اراکین پارلیمنٹ نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ ایک وزیر سے پوچھا گیا کہ اتنے بڑے سانحے پر اتنی بے حسی کہ سینکڑوں اراکین کی پارلیمنٹ سے صرف تین رکن جنازے میں شرکت کر رہے ہیں تو وزیر موصوف نے بڑی رعونت سے جواب دیا کہ میں کیا سارے سیکرٹریٹ کو اٹھا کر لے آتا۔انہی وزیر موصوف نے جب بھی لوڈ شیڈنگ پر بیان دیا تو ہمیشہ جلے کٹے الفاظ میں کہہ دیا کہ بندے مر رہے ہیں توذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے‘ وفاقی حکومت کی نہیں۔ سننے والوں کو پھر حضرت عمر فاروق ؓ کا وہ قول یاد آجاتا ہے کہ دریائے فرات (یا دجلہ) کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے گا تو مجھ سے باز پرس ہو گی۔یہ بات ہے صرف انسانی احساس اور خوف خدا کی۔ جوحکمران بے حس ہوں گے یا جنہیں خدا کا خوف نہ ہو گا وہ کبھی اتنی دور کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے۔