"MBC" (space) message & send to 7575

سانحہ بادامی باغ اور اسلامی تعلیمات

رسولﷺ کی شخصیت ایسی غیر معمولی کشش رکھتی ہے کہ بے تعصب غیر مسلم بھی آپ سے متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتے۔سکھ شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ نے کہا: عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں غیر مسلم رسولﷺ کے لیے محض جذباتی قسم کی محبت رکھ سکتے ہیں۔ مگرمسلمانوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محض ایک محبوب ہی نہیں، بلکہ واجب الاطاعت ہادی بھی ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے : ’’ہم نے رسولوں کواسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔‘‘ (النساء 62:4) ’’اے ایمان والو،اللہ کی اطاعت کرو، اور اس کے رسول کی اطاعت کرو،اور اپنے اعمال کورا ئیگاں نہ کرو۔‘‘ (محمد33:47) لیکن یہ بادامی باغ کے مسلمانوںنے کیا کیا۔بے گناہ مسیحی بھائیوں پر ایسا ظلم ۔ان کے گھروں کو آگ لگا دی۔وہ بے چارے جان سے جانے کے خوف سے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ان موروثی مسلمانوں نے رسول کے نام پررسول کی نافرمانی کر ڈالی اور نافرمانی بھی ایسی جو سرکشی سے بھر پورہے۔ انھوں نے زمین پر وہ فساد مچایا جس کا اندیشہ تخلیق آدم کے وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے فرشتوںنے ظاہر کیا تھا۔اور یہ وہ فساد ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ میں انتہائی سخت سزا بیان کی ہے: ’’ان لوگوں کی سزا، جو اللہ اور رسول سے بغاوت کرتے ہیںاور ملک میںفساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں، بس یہ ہے کہ تقتیل (عبرت ناک طور پرقتل )کر دیے جائیںیا سولی پر لٹکا دیے جائیںیاان کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیںیا ملک سے باہر نکال دیے جائیں۔‘‘(آیت23) بادامی باغ کے ایسے لوگوں کو شایدیہ معلوم نہیں کہ اسلام کے قریب ترین مذہب مسیحیت ہے۔ابتدائے اسلام کے وقت جب مکہ میں مشرکین کے مظالم حد سے بڑھنے لگے تونبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کو حبشہ کی جانب ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی جہاںایک عیسائی بادشاہ(نجاشی ) کی حکومت تھی۔اور جس نے صحیح معنوں میںان مظلوم مسلمانوںکی مدد بھی کی۔اس لحاظ سے مسیحی ہمارے محسن ہوئے۔ اسی طرح جب عرب سے متصل رومی مقبوضات اردن،شام اور فلسطین پر ایرانی مجوسیوں کی فتح ہوئی تو عرب کے مسلمان اس پربہت غمگین ہوئے اور مشرکین خوش۔اس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ روم میں پیشین گوئی فرمائی کہ عیسائی رومیوں کو پھر فتح نصیب ہوگی جس سے مسلمانوں کو حوصلہ ملا۔ اسلام نے مسلمانوں کو مسیحی خواتین کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت دی۔ایک زاویے سے سوچیں تو مسلمان اور عیسائی،دونوںحضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی اولادہیںاو رآپس میں کزن ہیں۔ آگ لگانے والوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ انہوں نے رسولﷺ کے نام پر یہ جر م کر کے دنیا میں اسلام اور رسولﷺ کا کس قدر تاثر خراب کیا ہے۔ایک زاویے سے دیکھیں تو ان کی یہ حرکت خود گستاخی رسالت کی ذیل میںآتی ہے۔ یہ سادہ سی بات ہے کہ پاکستان مسلمانوں کی ریاست ہے۔مسلمانوں کا حکمران موجود ہے ۔سورہ النساء میں ہے: ’’ایمان والو،اللہ کی اطاعت کرواور اس کے رسول کی اطاعت کرو،او ران لوگوںکی جو تم میںسے حکمران ہوں۔‘‘(آیت 59) ریاست نے توہین رسالت کا ایک قانون بنا رکھا ہے۔اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کسی نے توہین رسالت کی ہے تووہ متعلقہ ریاستی ادارے کے پاس جائے او رملزم کے خلاف مقدمہ کرے ۔پھر عدالت عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ کرے گی کہ توہین رسالت ہوئی ہے یا نہیں۔اور اگر جرم ثابت ہوجاتاہے تو پھر متعلقہ ادارے اس سزا کا نفاذ کریںگے۔جس طرح کوئی عام شہری کسی چور کو پکڑ کر اس کے ہاتھ نہیں کا ٹ سکتا اگرچہ قرآن میں چور کے ہاتھ کاٹنے کاحکم موجود ہے ایسے ہی کسی عام شخص کو یہ حق حاصل نہیںہے کہ وہ کسی گستاخ رسول کو خود سزا دے۔ہم کسی جنگل میں نہیں رہتے ۔اللہ کا شکر ہے کہ ہماراایک نظم اجتماعی،ایک اقتدار اعلیٰ،قوانین کامجموعہ موجود ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ’’جو شخص ایک بالشت کے برابر بھی اقتدار کی اطاعت سے نکلا،اور اسی حالت میں مر گیا،اس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔’‘‘(بخاری، کتاب الفتن) یہاں یہ ذہن میں رہے کہ جاہلیت قبل از اسلام کے دور کو کہا جاتا ہے۔سوچنے والوں کو غور کرنا چاہیے کہ کہیں یہاں رسول اللہﷺ نے ایسے مجرموں کو اسلام سے خارج تو قرار نہیں دے دیا؟ اور معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔یہ بات پیش نظر رہے کہ کسی مسلم ریاست میں غیر مسلم شہریوں کی دوقسمیںہوتی ہیں۔ایک ذمی اور دوسرے معاہد۔ذمی کسی جنگ کے نتیجے میں مسلم ریاست کے شہری بنتے ہیں۔معاہدین کسی جنگ کے بغیر کسی معاہدے کی رو سے مسلم ریاست کے شہر ی بنتے ہیں۔جیسے مدینہ میں رسول اللہﷺ نے میثاق مدینہ میں وہاں کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا۔ابن ہشام کی سیرت النبیؐ میں ہے: ’’بنی عوف کے یہوداس دستور(میثاق مدینہ) کے مطابق مسلمانوںہی کی طرح ایک مستقل گروہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔رہا دین کا معاملہ تو یہودی اپنے دین پررہیںگے اور مسلمان او ران کے موالی ،سب اپنے دین پر۔‘‘(جلد2صفحہ 107) پاکستان کے غیر مسلم شہری معاہدین کی ذیل میںآتے ہیں۔قائد اعظم نے 15اگست1947ء کو پاکستان کے گورنر جنر ل کی حیثیت سے ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کی تمام اقلیتوں سے ان کی زندگی، جائداد، مذہب اور کلچر کے تحفظ کا عہد کیا ۔ انھیں کسی امتیاز کے بغیر ملک کا شہری قرار دیا۔ اور اب بادامی باغی کے فسادی دل تھام کر اپنے رسولﷺ کے یہ فرامین پڑھ لیں: ’’خبر دار ،جو شخص کسی معاہدپر ظلم کرے گا یا اس کے حقوق میں کمی کر ے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ اس پر ڈالے گا یا اس کی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اس سے لے گا ، اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود استغاثہ دائر کروںگا۔’’(ابوداؤد،کتاب الجہاد) ’’جو کسی معاہد کو قتل کرے گا ، اسے جنت کی بو تک نصیب نہ ہوگی،حالانکہ اس کی بو چالیس برس کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔‘‘(بخاری، کتاب الدیات) اب بادامی باغ کے فسادی قیامت کے روز رسو ل اللہﷺ کی طرف سے دائر ہونے والے مقدمے کے لیے تیار رہیں۔ آہ!کس قدر بدقسمت ہے وہ شخص جو خود کو مسلمان سمجھتا ہو مگر قیامت کے روز اس کے خلاف رسولؐ کا مقدمہ دائر ہو۔اور اس میں ان شریف شہریوں کا جرم بھی کم نہیں ،جنھوںنے یہ ظلم ہونے دیا اور ظالموںکاہاتھ نہیں روکا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں