اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تفریح ہر انسان کی ضرورت ہے ۔ اپنادل لبھانے کے لیے انسان ہر دور میں کوئی نہ کوئی ذریعہ ضرور اختیار کرتا رہا ہے ۔عہدِ رسالتﷺمیں پہلوانی ، گھڑ سواری ، تیر اندازی ،نیزہ بازی ، شمشیر زنی ، پیراکی ، دوڑ اور شعر و شاعری جیسے مشاغل موجود تھے ۔ رسول اللہﷺ نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو مسجدِ نبوی کے صحن میں حبشیوں کے ہتھیاروں(ڈھالوں اور نیزوں) کے ساتھ فوجی کرتب دکھائے۔جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھک گئیں تو رسول اللہﷺ نے حبشیوں سے کہاکہ جاؤ۔ (مسلم،کتاب صلوٰۃ العیدین)۔ تمدنی ارتقا کے ساتھ ساتھ تفریح کے ذرائع میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے ۔ہمارے ہاں بھی مختلف قسم کی تفریح مہیاکرنے والے بے شمار مراکز موجود ہیں۔مگر ہماری اس تحریر کے مخاطب تمام مراکز بالعموم ،مگرنجی تفریحی ٹی وی چینلز بالخصوص ہیں۔ ٹی وی چینلز غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ گھر گھردیکھے جاتے ہیں اور کروڑوں لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ لیکن بعض نجی تفریحی ٹی وی چینلزاس پہلو سے اپنی غیر معمولی ذمہ داری کا احساس نہیں رکھتے۔ غیرملکی ڈرامے جواردو زبان میںڈب کرکے نشر کیے جارہے ہیں،واضح طور پر مزید سنسر کا تقاضا کرتے ہیں۔ان کے زیراثر یاان کا مقابلہ کرنے کے لیے ملکی ڈرامے بھی تجاوز کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ محض اشتہارات کے لالچ میںانڈین فلمی ایوارڈ ز کی تقاریب اپنی تہذیب کے لحاظ سے سنسر کیے بغیر بڑے اہتمام کے ساتھ دکھائی جارہی ہیں۔ ایک مرتبہ کسی دانش ور نے کیا خوب کہا تھاکہ دوپٹہ لہرانا،کلاشنکوف لہرانے سے زیادہ خطرناک ہے۔جی ہاںتخریب کاری محض گولہ وبارود ہی ہی کی شکل میں نہیںہوتی،فن اورخوب صورت پیش کش کی صورت میں بھی ہوتی ہے۔ بعض اوقات خوب صورتی اپنے اندر بڑے بدصورت نتائج سمیٹے ہوئے ہوتی ہے۔سورہ زخرف کی آیت 36 میں ہے : ’’اور جو اللہ کی تذکیر سے آنکھیں بند کر لیتا ہے،ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیںپس وہ اس کاحقیقی ساتھی بن جاتا ہے۔‘‘ اور سورہ حٰم السجدہ کی آیت 25 میں ان ساتھیوںکی ایک ٹیکنیک واضح فرمائی جس میں وہ خوب صورتی کو استعمال کرتے ہیں: ’’اور ہم نے ان پر برے ساتھی مسلط کر دیے تو انھوں نے ان کے آگے اور پیچھے کی ہر چیز ان کو خوش نما بنا کر دکھائی۔بالآخران پر بھی وہی بات پور ی ہو کے رہی جو جنوں او رانسانوں کے ان گروہوں پر پوری ہوئی جو ان سے پہلے گزر چکے تھے،وہ نامراد ہونے والوں میں سے بنے۔‘‘ ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہوائی جہاز میںسوارتھے کہ ائیرہوسٹس مشروبات لے کرآئی۔بزرگ نے اورنج جوس مانگا اوران کے ساتھ بیٹھے ہوئے صاحب نے وہسکی۔بزرگ لکھتے ہیں کہ جب میز پردونوں گلاس رکھے گئے تو میں نے دیکھا کہ دونوں مشروبات کا رنگ بالکل ایک جیسا ہے۔مجھے محسوس ہوا کہ دنیا میںچیزیں مشابہ انداز میںپیداکی گئی ہیں۔حتی ٰکہ جس طرح عمدہ الفاظ میںحق بیان کیا جاسکتا ہے اسی طرح باطل بھی خوب صورت الفاظ میں ڈھل جاتا ہے۔یہ مشابہت برائے امتحان ہے۔اس لیے انسان کو دنیامیں بے حد چوکنا ہو کررہنا ہوگا۔ورنہ وہ ایک مشروب کو فروٹ جوس سمجھ کرپینے لگے گا ۔حالانکہ انجام بتائے گا کہ وہ پھل کے رس کے رنگ میںشراب تھی جس کو وہ نادانی اوربے شعوری کے تحت پی گیا۔ ان معاملات میں ہمیںبھی بہت چوکنا ہوکر رہنا ہوگا۔یہ وہ انتہائی اہم امور ہیں کہ جن میں حدود سے تجاوزکے نتائج دنیا میں بھی قومی زوال کی صورت میںظاہرہوسکتے ہیں۔کوئی بھی معاشرہ کسی بھی جغرافیائی ماحول میںرہتا ہو اس کی ترقی کا انحصار اس پربھی ہوتاہے کہ اس نے اپنے ماضی اورحال میںان اخلاقی امور میں کیا رویہ اختیارکیا۔اس ضمن میں بنائے گئے ضوابط میںتبدیلی قوم کی بلندی یا پستی کے رخ کی تبدیلی کی وجہ بن جاتی ہے۔ اخلاقی طورپر بہتر معاشرہ ہر لحاظ سے ترقی کرتا چلا جاتاہے اوربے راہ روی کا شکار معاشرے میںفکروعمل کی قوتیںمفقود ہوجاتی ہیں۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیںملتی کہ کسی قوم میں اخلاقی پابندیوں کی روایات کمزور پڑگئی ہوں اور اس کے باوجود وہ اپنی ترقی کوقائم رکھ سکی ہو۔ عرب میںاسلام نے آکر بدکاری سے روکا،مردوزن کے ملنے جلنے کے آداب مقرر کیے تو یہی عرب اپنے محدودعلاقے سے نکل کر دنیامیںپھیل گئے ۔ان کی توجہات کارخ تخلیقی اورتعمیری مقاصد کی طرف مڑ گیا۔علوم وفنون میںبہت ترقی ہوئی۔اعلیٰ تہذیبی روایات قائم ہوئیں۔ حتیٰ کہ آج بھی بے تعصب مغربی مفکرین مانتے ہیںکہ دورحاضر کی سائنسی ترقی کی بنیاد عرب مسلمانوںنے فراہم کی تھی۔مگربعد میںجب مسلم حکمرانوں نے ان اخلاقی حدود کو پامال کیا توان کی فتوحات رک گئیں۔اورمختلف شعبوں میں ترقی تنزلی میںتبدیل ہوگئی۔ یہاںیہ حقیقت پیش نظررہے کہ قومیں ایک دم عروج و زوال سے ہمکنارنہیں ہوتیں،اس تبدیلی کے اثرات دو یا تین پشتوںمیںنمودارہوتے ہیںجس میں سترسے نوے بر س لگ جاتے ہیں۔اس خاموش عمل کو عام نگاہیں نہیں دیکھ پاتیں مگر دیدہ ٔبینا کو وہ صاف دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ میلانات نگاہ ہی کے راستے سے دل میں اترتے ہیں۔یہ دروازہ اگر چوپٹ نہ کھولا جائے تو انسان بہت سی آفتوں سے بچ جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ برائی کی فضا پیداکرنے اور اس میں شریک ہونے سے بھی روکا گیاہے۔سورہ بنی اسرائیل کی آیت 32 میں ہے : ’’اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو۔‘‘ اس معاملے میںیہ بھی ضروری ہے کہ مذہبی طبقات‘ دین کوصحیح معنوں میںمکمل مانیں اور اللہ ورسولﷺ کی عائد کردہ پابندیوں میں اپنی طرف سے اضافے مت کریں۔ اللہ و رسولﷺ سے بڑھ کر غیر ت مند کوئی نہیں ہے اور نہ کوئی ان سے بڑھ کر انسان کی فلاح کا متمنی ہو سکتاہے۔مذہب کے نام پر اپنی طرف سے انسانوں پربے جا پابندیاں لگانا بھی معمولی جرم نہیں ہے ۔یہی وہ پابندیاں ہوتی ہیں جن سے گھبرا کر ردعمل کے طورپر انسان کامل آزادی کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ فلاح اسی کی ہے جس نے اپنے نفس کوپاک کرلیا ۔اورجنھوں نے اپنے اوردوسروںکے نفس کو آلودہ کیا،وہ ہوسکتا ہے قطرے کی ماننداس عارضی دنیامیں ’’تماشائیوں‘‘کی ریٹنگ حاصل کر لیں ،کروڑوں روپے بھی کمالیں لیکن سمندر کی مانند اپنی ابدی دنیامیں جنت کے فرشتوں کی ریٹنگ سے محروم ہوجائیں اورحقیقت میںایک بہت بڑے خسارے سے دوچارہوجائیں۔