"MBC" (space) message & send to 7575

جمہوریت ایک نعمت

اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت وطنِ عزیزمیں جمہوریت کا عمل خوب صورت مراحل سے گزر رہا ہے۔کسی کو پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا اور نہ کسی کو جلا وطن کیا گیا ہے۔ اہلِ اقتدار خوشی سے اپنی کرسی چھوڑ رہے ہیں۔ مگر حیرت ہوتی ہے کہ اس صورت حال میںبھی بعض لوگ جمہوریت کے خلاف بولتے ہیں۔جمہوری اورآمرانہ ادوار کاتقابل کرتے ہیں اورآمریت کو بہترقراردے ڈالتے ہیں۔ حالانکہ ایک سچا مسلمان جمہوریت کے سوا کسی اور نظام کاتصور بھی نہیںکرسکتا۔ سورہ شوریٰ میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اور ان(مسلمانوں) کا نظام ان کے باہمی مشورے کی بنیاد سے چلتا ہے۔‘‘ (آیت ۳۸) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہﷺ سے زیادہ کسی کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے والا نہیں پایا۔‘‘ (ترمذی، کتاب الجہاد) ہر معاملے میں عملی طور پر تمام مسلمانوں سے مشورہ لینا ناممکن ہے۔اس صورت حال میں مختلف طبقات کے نمائندہ افراد سے مشورہ لیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ مسئلہ دینی نہیں، تمدنی ہے۔ اس مسئلے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمدن کے مطابق حل بھی فرمایا۔ بخاری شریف میں ہے: ’’مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، جب ہوازن کے قیدی رہا کرنے کی اجازت دی تو آپﷺ نے فرمایا: میں نہیں جان سکا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی۔ پس تم جاؤ اور اپنے لیڈروں کو بھیجو تاکہ وہ تمھاری رائے سے ہمیں آگاہ کریں۔‘‘ (کتاب الاحکام) اسی طرح رسول اللہﷺ نے اپنی وفات سے قبل یہ فیصلہ فرمایا کہ آپ کے بعد حکومت کے لیے آپ کے جانشین انصار کے بجائے قریش ہوںگے۔انصار نے مہاجرین پر عظیم احسانات کیے تھے جب وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے۔لیکن اصول اصول تھا۔ عربوں کی اکثریت قریش کی پیرو تھی۔ رسول اللہﷺ نے قریش کو اقتدار منتقل کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا: ’’لوگ اس معاملے میں قریش کے تابع ہیں۔عرب کے مومن ان کے مومنوں کے پیرو ہیںاوران کے کافر ان کے کافروںکے۔‘‘(مسلم،کتا ب الامارہ) اور مزید فرمایا: ’’ہمارا اقتدار قریش کو منتقل ہوجائے گا، جب تک وہ دین پر قائم رہیں۔اس معاملے میں جو شخص بھی ان کی مخالفت کرے گا اللہ اسے اوندھے منہ آگ میں ڈال دے گا۔‘‘(بخاری، کتاب الاحکام) اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب مشورہ لیا جائے گا تو لوگ ایک دوسرے سے اختلاف بھی کریں گے۔ اس صورت حال میں کیا کیا جائے؟ اس معاملے میں بھی دین نے ہدایت کر رکھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’الجماعۃ (یعنی مسلمانوں کی ریاست) پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ چنانچہ جب کوئی اس سے الگ ہوتا ہے تو اسے شیاطین اُچک لے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے جب تم لوگ کوئی بڑا اختلاف دیکھو، تو (عمل کے معاملے میں) اکثریتی گروہ کی پیروی کرو۔ کیونکہ جو ریاست سے الگ ہوا، اسے الگ کر کے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ (المستدرک، کتاب العلم) اسی مضمون کی ایک اور روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم اختلافات دیکھو تو اکثریت کی رائے کی پیروی کرو۔‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الفتن) ظاہر ہے کہ اختلافات کے باوجود نظام تو چلانا ہے، کاروبار زندگی تو معطل نہیں کیا جا سکتا، اس لیے اس مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ اکثریت کی بات پر عمل شروع کر دیا جائے۔ اس میں یہ ہو سکتا ہے کہ کبھی اکثریت کی بات صحیح نہ ہو، مگر اجتماعی شعور رکھنے والے جانتے ہیں کہ معاملات بہرحال اسی بات کے مطابق چلانا ہوں گے۔ البتہ دوسری رائے رکھنے والے اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ دلیل اور تہذیب سے دوسروں کو قائل کر سکتے ہیں۔ اگر وہ اکثریت کو اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کا خیال آپ سے آپ قانون بن جائے گا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے سیاست دانوں کا ریکارڈ بہت بُرا ہے‘ لیکن معاشرے کے تمام شعبوں اور تمام طبقوں کایہی حال ہے۔ اہلِ مذہب کی دنیا، گھروں کا ماحول، ٹریفک کی صورتِ حا ل دیکھ لیجئے ۔کبھی اس عورت کو دیکھیے، جو ساس بن چکی ہے ۔ ۔ کبھی گزرنے والوں کا راستہ روک کر فٹ پاتھ پر چھابڑی لگائے ہوئے شخص کو دیکھیے جو شام کے گہرے سائے کا فائدہ اٹھا کر باسی اور گلے سڑے پھل بیچ رہا ہوتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ خرابیاں جو ہم سیاست دانوں کے ہاں دیکھتے ہیں وہ پوری شدت کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی صورت میں معاشرے میں بھی نظر آ جائیں گی ۔ہماری سیاسی برائیاں درحقیقت معاشرتی برائیاں ہی ہیں۔ جمہوری نظام کی خامیوں کی اصلاح مزید جمہوریت میںہے ۔ اصلاح کا کام جمہوری عمل خود بھی انجام دے گا ۔جب بار بار انتخابات کاانعقاد ہو گا تو یہ انتخابات چھلنی کا کردار ادا کرنا شروع کر دیں گے اور بُرے سیاست دانوں کو چھان کر الگ کر دیں گے ۔اس کے علاوہ اہل اصلاح و دعوت لوگوں کے شعور کوبہتر کریں۔ میڈیا کے احتساب کے اپنے ثمرات ہوںگے۔ لہٰذا جمہوریت اصل میں نعمت ہے اور اسی نعمت میں ہم سب کی فلاح مضمر ہے جو آمرانہ بالفاظ دیگر غیراسلامی مزاج رکھنے والے سطح بیں لوگوں کو شایددکھائی نہ دے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں