ہر موسم ہماری زندگی پر ایک پہلو سے خوش گوار اثر ڈالتا ہے تو دوسرے پہلو سے ناگوار مسائل پیدا کر دیتا ہے لیکن بہار،خوش گوار اور صرف خوش گوار موسم ہوتا ہے۔ جب یہ موسم آتا ہے تو سردی کی شدت سے بند کمروں میںمقید انسان آزاد ہو جاتا ہے۔ موٹے موٹے کپڑوں کا بوجھ اس کے جسم سے اتر جاتا ہے۔ بے رنگ باغوں کا ماحول قسم قسم کے پھولوں سے رنگین ہو جاتا ہے۔ ہماری زندگی میں یہ تبدیلی کون لاتا ہے ؟ یہ خوشبو دار ہوا کون چلاتا ہے ؟ یہ سرسوں پھوٹنے، شگوفے نکلنے اور گیہوں کی بالیوں میں دانے پڑنے کا دلکش سماں کون پیدا کرتا ہے ؟ یہ سارا دن پرندوں کے چہچہانے، موروں کے ناچنے اور ہرنوں کے کلیلیں کرنے کا مسرور کن منظر کون دکھاتا ہے ؟ لاریب،دائمی و ابدی انعامات و احسانات کا منبع و سرچشمہ۔ عالم کا پروردگار۔ اگر ہم کہیں گرمی کی شدت سے پسینے میں شرابور ہو رہے ہوں اورایسے میں کوئی شخص ہمارے سامنے پنکھا چلا دے یا ہم کہیں سردی کی شدت سے ٹھٹھر رہے ہوں اور ایسے میں کوئی ہمارے سامنے ہیٹر جلا دے تو ہمارے دل میں اس شخص کے لیے شکر کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ شکریہ، تھینک یو، مہربانی کے الفاظ تو فوراً زبان پر آ جاتے ہیں ۔ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی ہمارے ہاں بہار آئی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے کسی ایک کمرے ہی کی نہیں بلکہ ہمارے گھروں، محلوں، میدانوں کی فضابھی خوش گوار ہوگئی ہے۔ مگر اس پر لوگوں کے ذہن میں ایک ہی بات آتی ہے کہ بسنت منائی جائے ،مگراللہ کا شکر ادا کرنے کی طرف کوئی دھیان نہیں ۔ حتی کہ بسنت کے مخالف مذہب پسند بھی اس طرف متوجہ نہیں۔ انسان بھی کیا چیز ہے تکلیف میں خدا کو یاد کر لیتاہے مگر جو نعمتیں اسے حاصل ہوتی ہیں ان کے بارے میں بالعموم غافل ہی رہتا ہے۔ ظاہرپرست انسان ہوائی جہاز کی محفوظ اور رواں پرواز پرتوپائلٹ کاشکر گزار ہوتا ہے۔اسے یاد کرتاہے۔اس کا اچھے لفظوں میںذکر کرتا ہے ۔جبکہ یہ کرہ ارض فٹ بال کی طرح خلا میں تیزی سے گھوم رہا ہے ۔اس کی گردش میں گڑبڑ ہوجائے توپوری انسانی نسل تباہ ہوجائے ۔مگر اس مسلسل ،بے خلل اورانتہائی غیرمعمولی خلائی پرواز کے’’پائلٹ‘‘ کے لیے شکرگزاری کے جذبات پیدا نہیں ہوتے۔اسے کوئی یاد نہیں کرتا۔ سورہ زمر کی آیت 66 میں ہے:’’ صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور (اسی کے) شکر گزاروں میں سے بنو۔ ‘‘یعنی خدا کا شکر ادا کرنا، اصل میں خدا کی بندگی اختیار کرنا ہے اور خدا کی بندگی اختیار نہ کرنا اصل میں سرکشی کا ارتکاب کرنا ہے۔مولانا امین احسن اصلاحی اس ضمن میں لکھتے ہیں:’’خدا کی عبادت درحقیقت اس جذبہ شکرگزاری کا مظہر ہے جو منعم حقیقی کے لیے بندے کے اندر پیدا ہوتا ہے۔اس کا سب سے واضح ثبوت سورۂ فاتحہ ہے جو اپنے موضوع کے اعتبار سے شُکر کی سورہ ہے اور اس کو اسلام کی سب سے بڑی عبادت ۔۔۔۔نماز۔۔۔۔کی خاص سورہ قرار دیا گیا ہے۔‘‘(تزکیہ نفس جلد 2 صفحہ 39) ہم نہ صرف یہ کہ آمدِ بہار پر خدا کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ معاملہ اس طرح سنگین تر کر دیتے ہیں کہ اس موقع پر بسنت منانے کی باتیں کرتے ہیں، کریکر چلا کر، بلند آواز سے بیہودہ گانے بجانے کی بات کرتے ہیں، بوکاٹا کی مکروہ آوازیں لگاکر، ہوا میں گولیاں چلاکر، ہمسایوں کو تکلیفیں پہنچاکر، بچوں کی نیند اڑاکر، خواتین کے لیے اپنے ہی گھر کی چھت پراور صحن میں بیٹھنے کو محال بنا نے کی بات کرتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ تفریح انسان کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر تہذیب میں کسی نہ کسی بہانے سے انسان اپنے لیے فرحت و تفریح کا اہتمام ضرور کرتا ہے۔ بہار کے موسم میں فضا میںغیر معمولی طور پر خوش گوار تغیر لوگوں کو غیر معمولی خوشی سے ہم کنار کرتاہے۔ جس طرح ایک گل دستہ پورے کمرے کو مہکا دیتا ہے، اسی طرح بہار کا موسم سارے ملک کو مہکا دیتا ہے۔ باہر کے رنگ اور اندر کے ترنگ سے جذبات میں جو ارتعاش پیدا ہوتا ہے ، وہ اپنا نکاس اور انعکاس چاہتا ہے۔ بسنت کی خواہش رکھنے والے بسنت کے نام پر ہمارے ہاں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں ،اس کے پیچھے یہی انسانی ضرورت کارفرما ہوتی ہے۔ بسنت کے مسائل اور قتل و غارت گری ہم سب کے سامنے ہے۔ ان تلخ حقائق کو مد ِ نظر رکھ کر ایسے تہذیبی مظاہر خود وجود میں لانے، جی ہاں خود وجود میں لانے چاہئیں، جو ہمارے لوگوں کی فطری امنگوں کے اظہار کا بھی باعث بنیں اور دوسرے انسانوں کے لیے ضرررساں بھی نہ ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اس معاملے میںشہروں میں پتنگ بازی ہی پر کیوں سوئی اٹک کررہ گئی ہے۔ بعض اوقات خطرناک امور خوب صورت چیزیں بنانے کا باعث بن جاتے ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن کے وجود میں آنے کا ایک سبب خونخوار جانور اور زہریلے کیڑے بھی بنے تھے۔ انسان نے خود کو ان کے ضرر سے بچانے کے لیے گھر بنائے ،شہر آباد کیے اور حصار قائم کیے ۔ضرورت ہے تقلیدی کے بجائے تخلیقی سوچ اختیار کرنے کی اورردعمل کے بجائے تعمیری مزاج اپنانے کی۔ اس ضمن میں ذرائع ابلاغ لوگوں کی ذہن سازی میں بڑا اہم کر دار ادا کر سکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تخلیقی اور تعمیری مزاج رکھنے والے آگے بڑھیں۔ وہ اپنے اخبارات جاری کریں۔ اپنے تفریحی ٹی وی چینل قائم کریں۔ فنونِ لطیفہ کے اپنے ادارے بنائیں۔ عوام کو تفریح پہنچانے کا خود اہتمام کریں اور تہذیبی سرگرمیوں پر اپنے اثرات مرتب کریں۔ یہ بات صحیح ہے کہ تہذیب و تمدن، دین کا نہیں بلکہ دین ،تہذیب و تمدن کا جز ہوتا ہے ۔ دین بنیادی رہنمائی دیتا ہے، کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے، پھر انسان کو آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ دو اسلامی معاشروں میں تہذیب و تمدن اور رسوم و رواج کا فرق ہو سکتا ہے، لہٰذا مذکورہ تہذیبی مظاہر کو وجود میں لاتے وقت لوگوں کو یہ ’’آزادی‘‘ ضرور دینی چاہیے۔او رانھیں یہ آزادی استعمال کرنی بھی چاہیے۔ دین جذبات کے اظہار پر پابندی نہیں لگاتا۔ وہ جذبات کے اظہار کو کچھ حدود کا پابند کرتا ہے۔ یہ وہ پابندی ہے جو انسان کو حیوان سے اور معاشرے کو جنگل سے ممیز کرتی ہے۔انسان اورجانورمیںفرق کیاہے؟حیاتیاتی پہلو سے کھانا پینا،تحفظ،بقائے نسل جیسی ضرورتیں دونوں میں یکساں ہیں۔حیوان اسی دائرے میںرہ کرسوچتا ہے۔جبکہ انسان اس سے اوپراٹھ کرسوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ مخلوق میںخالق دیکھ سکتا اورنعمت میں منعم کو پاسکتا ہے۔ اب یہ اس پرہے کہ وہ اعلیٰ سوچ رکھنے والے ،ظاہری مادی امور سے اوپر اٹھنے والا بنتا ہے یا حقوق اللہ کے شعورسے عاری محض حیوان ہی رہتا ہے۔