یہ خیال کہ موجودہ سائنسی ترقی میںمسلمانوں کاکوئی کردار نہیں،کسی طرح صحیح نہیں ہے۔یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے آج کی سائنس کی ترقی کی بنیاد فراہم کی اور اسے آگے بڑھایا۔ مسلمانوں کو زوال آیا تواہل مغرب اسے لے کر آگے چلے اور اسے عروج تک پہنچایا۔وہ وقت بھی تاریخ کی گھڑیوںنے دیکھاہے جب مسلم اندلس کی گلیاںروشن ہوتی تھیں اورمغرب اپنے تاریک دورسے گزررہاتھا۔مسلمانوں کے ان کارناموں کی ایک وجہ ان کامذہب اسلام تھا۔جو مذہب اپنے پیروکاروںکویہ اطلاع دے کہ زمین وآسمان میں جو کچھ ہے وہ انسان کی خدمت کے لیے بنایاگیا ہے۔اورہدایت دے کہ اس سب کچھ کو مسخر کرواور اپنے فائدے کے لیے استعمال کروتو وہ قوم سائنسی ترقی کیوں نہیں کرے گی۔ مغرب کے منصف مزاج محققین نے یہاں تک تسلیم کیا ہے کہ مغرب کا رینے ساں (احیائے علوم) براہ راست عربوں کی دین ہے۔اس لیے کہ سائنس یا تجربی علم مسلمانوں کی ایجاد ہے۔وہ اس علم کی طرف پہلی بار پہنچے اور اسے یورپ سمیت دوسری اقوام کومنتقل کیا۔ فلپ حتی (Philip Hitti)نے اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربس(1970ء)میںلکھا : ’’قرون وسطیٰ میں کسی بھی قوم نے انسانی ترقی میںاتنا حصہ اد ا نہیں کیا جتنا عربوں نے اور عربی زبان بولنے والوں نے کیا۔‘‘ عربی زبان او رمطالعہ اسلام کے مشہور مغربی پروفیسرمانٹگومری واٹ (Montgomery Watt) نے لکھا : ’’خلافت عباسی کے دور میںبغداد میں دنیا کا پہلاطبی کالج قائم کیا گیا۔قاہرہ میںایک ہسپتال بنایا گیاجس میں بیک وقت آٹھ ہزار آدمی رہ سکتے تھے۔ اس میں عورتوں اور مردوں کے الگ الگ وارڈ بنے ہوئے تھے۔اسی طرح مختلف بیماریوں کے لیے الگ الگ شعبے تھے۔اس میں دوسرے انتظامات کے ساتھ لائبریری اور لیکچر روم بھی موجود تھے۔‘‘ The Majesty that was Islam,London,1984.P227 by Montgomery Watt)) رابرٹ اسٹیفن بریفالٹ (Robert Stephen Briffault)نے لکھا ہے: ’’ہماری سائنس کے لیے عربوں کی دین صرف یہ نہیںہے کہ انھوں نے انقلابی نظریا ت دیے۔سائنس کے لیے عرب کلچر کی دین اس سے بھی زیادہ ہے ۔وہ اپنے وجود کے لیے عربوںکی مرہون منت ہے۔‘‘۔۔۔۔۔’’ یہ بہت زیادہ قرین قیاس ہے کہ عربوں کے بغیر جدید صنعتی تہذیب سرے سے پیدا ہی نہ ہوتی۔‘‘(The Making of Humanity By Robert Briffault P 190 ) تاریخ کا بے تعصب مطالعہ صاف بتاتا ہے کہ عرب مسلمانوں نے اندلس میں اعلیٰ درجہ کی یونیورسٹیاں قائم کی تھیں جہاں یورپ کے طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے اور پھر اسے اپنے ملک میں عام کرتے تھے۔ اسی طرح یورپ نے سپین میں موجود بہت سی علمی کتابوں سے بھی استفادہ کیا۔ بعد میں یہ تمام چیزیں یورپ کے احیاے علوم میں معاون ثابت ہوئیں۔ سسلی (صقلیہ) وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں نے 130 سال تک حکومت کی۔ اس طرح سسلی یورپ میں اسلامی ثقافت کے فروغ کا دوسرا اہم مرکز تھا۔صلیبی جنگوں (1291-1099ء) اور بیت المقدس کی زیارت نے یورپ کے لوگوں کو عربوں سے ملنے کے مواقع فراہم کئے جس سے انھوںنے بہت سیکھا۔ فرانسیسی مورخ گستاؤلیبان (1841-1931۔Gustave Le Bon) اپنی کتاب ’’حضارۃ العرب‘‘ (تمدن عرب) میں لکھتا ہے: ’’ مغرب پر عربوں کے ان عظیم اثرات کا ہم اس وقت تک تصور نہیں کر سکتے جب تک ہم یورپ کے اس زمانے سے واقف نہ ہوں جب وہ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔یورپ کے عہد وسطیٰ میں جہالت کا زمانہ طویل ہے۔ جب کچھ روشن دماغوں کو یورپ سے جہالت ختم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو انھوں نے عربوں کے دروازے پر دستک دی۔ وہ اپنی ضرورت کے مطابق عربوں سے علم کے طلب گار ہوئے۔ گویا کہ وہ اس زمانے میں تنہا علم کے سردار تھے۔‘‘ مسلم سپین کے ممتاز جراح ابولقاسم الزہراوی (Abulcasis) کی کتاب ’’التصریف‘‘لاطینی زبان میں 1497ء میںشائع ہوئی۔پھر یورپ کی تمام زبانوں میں اس کاترجمہ کیا گیا۔یہ کتاب تقریباً500سال تک اہل مغرب کے لیے طب اورسرجری کامرجع بنی رہی۔حِتی کے الفاظ ہیں:It helped lay the foundation of surgery in Europe\"p 577 (ا س نے یورپ میںسرجری(جراحی) کی بنیاد فراہم کرنے میںمدددی۔) زہراوی نے انسانی جسم کاگہرا مطالعہ کرکے اس کے اصول مقرر کئے ۔اس نے جراحی کے لیے انسانی جسم کے تشریحی مطالعہ کی اہمیت واضح کی اور مشاہدے اور تجربے کو جراحی کا لازمی حصہ قرار دیا۔ اسی موضوع پر مزید حقائق کو کھولنے والی پروڈیوسرڈائریکٹررابرٹ گارڈنر(Robert Gardner) کی سن 2000ء میںریلیز کی گئی بے مثل ڈاکومینٹری The Making of Islam: Empire of Faith دیکھی جاسکتی ہے جوانٹرنیٹ پربھی دستیاب ہے۔ فرانسیسی فلسفی ’’رینہ جینو‘‘ (Rene Genot) جنھوں نے اسلام قبول کر کے اپنا نام عبدالواحد یحییٰ رکھا، کے بقول: ’’ مسلمانوں کے ثقافتی اثرات یورپ تک محیط ہیں۔ یہ وہ عربی الاصل الفاظ ہیں جو افکار کو منتقل کرنے اور مافی الضمیر کی ادائیگی میں سب سے بہتر ہیں۔ اسلامی افکار کی منتقلی سے ہم نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔‘‘ انگریزی زبان پرعربی کاکتنا اثرہوا ،چند مثالیں پیش خدمت ہیں: امیر البحر سے admiral‘ کیمیا سے chemistry‘ الجبر سے algebra‘ قندی سے candy‘ قہوہ سے coffee,cafe‘ جرہ سے (jar: food or drink container)‘ یاسمین سے jasmine‘ لیموں سے lemon‘ مخازن‘ خزانہ سے magazine‘ نارنج سے orange‘ سفر سے safari‘ صفہ سے sofa‘ سکر سے sugar‘ شراب سے syrup‘ صفر سے zero‘ مس سے massage‘ موسم سے monsoon‘ جن سے genie بنے ہوئے الفاظ ہیں۔ یہ ہے تاریخی حقائق کی ایک جھلک ۔کاش قوم کو ہر وقت کوسنے اوراسے ڈپریشن میں مبتلا کرنے والے لوگ اس سے کچھ روشنی حاصل کریں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم علوم وفنون میںتنقیدی ،تحقیقی اورتخلیقی سوچ اپنائیں۔تقلیدی اورشخصی عقیدت کے نام پر علمی امورمیںجذباتیت سے بچیں۔ اسلام کا وہ فہم عام کریں جوزمین وآسمان کے اندر کارفرما قوانین قدرت دریافت کر کے انھیں بروئے کار لا کر بنی نوع انسان کے لیے اس کے ثمرات عام کرے۔ اوراس فہم اسلام کی غلطی واضح کریں جس میںاسلام کوسیاسی نظام بنا دیا گیا ہے ۔اسی طرح عملی لحاظ سے سیاست کو غیر متوازن طور پر اپنے اعصاب اورذرائع ابلاغ پر حاوی نہ ہونے دیں۔جس دن کسی اصلی ڈگری والے پاکستانی کی سائنسی دریافت کی خبر جمشید دستی کی جعلی ڈگری پر سزا کی خبر پر ترجیح پا گئی تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم ترقی کی راہ پرچل پڑے ہیں۔بصورت دیگر ہم مشینوں کی بجائے ’’دستی‘‘ کام کرنے والی پرانے زمانے کی ’’دونمبر‘‘ مخلوق ہی بنے رہیںگے۔