7مئی 1931ء کو نیویارک شہر، امریکہ کے ایک گنجان آباد علاقہ میں ڈیڑھ سوپولیس اہلکار، جدید اسلحہ سے لیس، گولیاں برسا رہے تھے۔ پورا علاقہ خوف و ہراس کی زد میں تھا۔ بارود کا دھواں ہر طرف پھیل چکا تھا۔ نیویارک شہر کی پولیس ایک مجرم ''کرولی‘‘(Crowley)‘ جس نے ایک پولیس اہلکار کا قتل کیا تھا کو پکڑنے کیلئے آپریشن کر رہی تھی۔ جہاں کرولی چھپا تھا پولیس اہلکار اس بلند وبالا عمارت کی چھت پر چڑھ چکے تھے۔ یکایک عمارت کے اندر سے مشین گن اور پستول سے پولیس پر جوابی گولیاں چلائی جانے لگیں۔ علاقہ میں دس ہزار سے زائد لوگ ایک مجرم اور ڈیڑھ سو پولیس اہلکاروں کے درمیان مسلح جنگ کو متجسس نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ مجرم بالآخرپکڑا گیا۔ پولیس کمشنر نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ انہوں نے ملک کے خطرناک ترین شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔پولیس کمشنر نے کہا کہ کرولی اس قدر سفاک، بے رحم، سنگدل اور ظالم ہے کہ اگر اپنے گرد چڑیا کے پیروں کی پراسرار آواز سنے گا تو وہ قتل کرنا شروع کردے گا۔
پولیس جس خطرناک ترین قاتل، جرائم پیشہ دہشت گرد کو پکڑ چکی تھی وہ بذات خود اپنے بارے میں کیا سوچتا تھا؟ ڈیل کارنیگی Dale Carnegieنے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ایک کتاب لکھی جو پہلی بار 1936ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا عنوان تھا: ''دوست کیسے بنائے جاتے ہیں اور لوگوں کو کس طرح متاثر کیا جا سکتا ہے؟‘‘ کارنیگی اپنی کتاب کی ابتداء کرولی کی گرفتاری، اس کی شخصیت اور پولیس آپریشن کے دوران اس کی ذہنی کیفیت اور اس کے اپنے بارے میں خیالات سے شروع کرتے ہیں۔ کارنیگی کہتے ہیں کہ جب پولیس کرولی کے فلیٹ پر گولیاں برسارہی تھی تو بالکل اسی دوران اس نے ایک خط ہر اس کے نام لکھا جو بھی اس کے بارے میں جاننے کا خواہش مند ہو۔ اس کو کچھ گولیاں لگ چکی تھیں، وہ زخمی تھا۔جس کاغذ پر وہ خط لکھنے لگا تھا اس پر اس کے خون کے چھینٹے پڑ رہے تھے۔ باہر سے اس کے فلیٹ پر گولیاں برسائی جارہی ہیں۔ وہ زخمی ہے۔ خون بہہ رہا ہے۔ وہ خط میں لکھتا ہے: ''میرے سینہ پر کوٹ کے اندر بھی ایک نرم و نازک دل ہے... ایک ایسا دل جو کسی کو بھی کوئی تکلیف نہیں دے سکتا۔‘‘
کرولی کو موت کی سزا سنائی گئی۔ جب اس کو الیکٹرک چیئرپر بٹھانے کیلئے لایا گیا تو اس کو بتایا گیا کہ اس نے پولیس اہلکار کا جو سنگدلانہ قتل کیا تھا اس کا انجام یہی ہونا تھا۔ پھر اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس سے اتفاق کرتا ہے؟ موت سے کچھ ہی ساعتیں پہلے اس نے بڑے اعتماد سے جواب دیا کہ نہیں، میں نے جان بوجھ کر کوئی قتل نہیں کیا بلکہ میں نے تو اپنا دفاع کیا جس کے نتیجے میں پولیس اہلکار مارا گیا۔ کارنیگی کہتے ہیں‘ اصل واقعہ یہ تھا کہ کرولی اپنی ایک دوست لڑکی کے ساتھ امریکہ کے دور دراز علاقہ میں سڑک کے کنارے بیٹھا تھا کہ ایک پولیس والا آیا۔ اس نے پوچھا تمہارے پاس لائسنس ہے۔ اس نے ایک لفظ بیان کیے بغیر اپنا پستول نکالا اور اس پر گولی چلا دی۔ پولیس مین زمین پر خون میں لت پت گر پڑا۔ کرولی نے زخمی پولیس مین پر گولیوں کی بارش کر دی۔ جب اس کو یقین ہو گیا کہ وہ مر چکا ہے تو اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور چلا گیا۔ کارنیگی کہتے ہیں یہ سنگدلانہ کام اس شخص نے بغیر کسی احساس گناہ کے کیا‘ جو سمجھتا تھا کہ اس کی چھاتی میں ایک ایسا نرم و نازک دل ہے جو کسی کو بھی کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتا۔ کارنیگی کہتے ہیں کہ ایک ایسا جرائم پیشہ خطرناک شخص‘ جس نے بے رحمی سے بے گناہ لوگوں کی جان لی ہو‘ کیسے دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کے سینے میں بھی ایک نرم و نازک دل ہے جو کسی کو بھی کوئی تکلیف نہیں دے سکتا؟ ہم فوری طور پر تو اس سے اتفاق نہیں کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف جرائم پیشہ دہشت گرد ہی نہیں بلکہ گینگسٹر بڑے بڑے لوگ اور تعلیم یافتہ شہری خود کو اس وقت بھی غلطی پر نہیں سمجھتے جب وہ برملا غلطی پر ہوتے ہیں۔
کارنیگی ایک اور جرائم پیشہ خطرناک گینگسٹر کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ کے اکثر بدنام زمانہ انسان دشمن عناصر خود کو برا نہیں سمجھتے بلکہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں انسانی فلاح، آئندہ کی بہتر زندگی اور عدل و انصاف کیلئے کرتے ہیں۔ وہ خود کو مجبور اور بے بس انسانوں کا محسن اور محافظ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے اس خود ساختہ ''نصب العین‘‘ کے حصول میں ایسے ایسے خوفناک جرائم اور ظلم کرتے ہیں جو انسانیت کے چہرے پر بدترین دھبہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی سیاہ کاریوں کے باوجود خود کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے‘ حتیٰ کہ اپنی قید کو بھی بے انصافی گردانتے ہیں۔ جب بھی امریکہ میں نوجوان قاتلوں یا خطرناک گینگ کے سربراہان اور اراکین کو پولیس گرفتار کرتی ہے تو وہ میڈیا کو کہتے ہیں کہ انہیں لوگوں کے سامنے ہیروز کے طور پر پیش کیا جائے۔ کارنیگی کہتے ہیں کہ امریکہ میں ڈیپارٹمنٹل سٹورز کے مالک جان وارنامیکرJohn Warnamaker نے اپنی موت سے کچھ پہلے اپنے اعترافی بیان کہا''مجھے تیس سال قبل اس بات کا علم ہوا کہ دنیا میں فضول ترین کام انسانوں سے نفرت یا انہیں برابھلا کہنا ہے۔ میرے اندر بھی نفرت اور حقارت کے جذبات موجود تھے۔ میں نے بڑی مشکل سے ان پر قابو پایا۔ مجھے یہ تسلیم کرنا پڑا کہ خدا نے ذہانت اور شعور کا تحفہ یا نعمت ہر ایک میں برابر تقسیم نہیں
کیا... مجھے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں ایک تہائی صدی لگی ۔تب میں جان پایا کے 99فیصد لوگ اپنے خطائوں پر نادم نہیں ہوئے۔ اپنی اصلاح نہیںکرتے، خود کو تنقید سے مبرا سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ وہ خطاکار ہوتے ہیں۔ اس لئے، بقول کارنیگی ، دنیا میں سب سے زیادہ فضول ترین کام دوسروں خواہ وہ خطرناک ترین مجرم ہی کیوں نہ ہوں، پربے رحم تنقید کے زہر آلود نشتر چلانا ہے۔
اس تناظر میں خاندان، سماج اور ریاست کا کام بہتر اور باشعور افراد پیدا کرنا ہے۔ انہیں بے انصافیوں اور محرومیوں سے بچانا ہے۔ ان کے کردار اور شخصیت کی تعمیر کرنا ہے۔ریاست ایک سماجی ادارہ ہے۔ اس کا اہم ترین کام قانون بنانا اور اس پر عمل کرنا ہی نہیں بلکہ ایک گمراہ شہری کو جرم کے ارتکاب سے روکنا بھی ہے۔ جمہوریہ کا آج یہ اہم ترین فریضہ ہے کہ وہ اپنے افراد کو، خواہ وہ کتنے بھی گمراہ کیوں نہ ہو چکے ہوں‘ راہ راست پر لائے۔ اگر تہذیبیں اپنے عظیم اخلاقی اور روحانی ورثے اپنی نئی نسل میں منتقل کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو اگلے ایک سو سال کے دوران ہم ایک بار پھر وحشی بن جاتے ہیں۔ریاست کا کام انتقام لینا نہیں بلکہ انسان کے اندر چھپی بربریت کو بہتر نظام سے بدلنا اور اس کے اندر نیکی کے جذبات کو اجاگر کرنا ہے۔لوگوں کو سمجھانا ہے کہ وہ بلاوجہ کسی سے بھی نفرت نہ کریں۔جب یہ عمل کسی سماج میں شروع ہو جاتا ہے تو وہ سماج تبدیل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ برائوننگ نے کہا تھا کہ جب انسان کے اندر ذہنی کشمکش شروع ہوتی ہے تو اس وقت اس اندر بڑی تبدیلی وقوع پذیر ہو رہی ہوتی ہے۔