ارکان پارلیمان اور سرکاری ہسپتال

اگرچہ پارلیمان کے اراکین ہمارے ہی طرح گوشت پوست کے بنے فانی انسان ہوتے ہیں۔ انہیں بھی چھینک آتی اور بخار ہوتا ہے۔ لیکن ان کے اور ہمارے درمیان مراتب کا بڑا فرق ہے جس کے تحت وہ معزز، محترم اور بااختیار مخلوق ہیں جو ہم جیسے عام شہری نہیں۔ ان کا استحقاق جو مجروح ہو تو خلاف ورزی کے مرتکب کو روایتاً سزا وار سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، جب عبوری عہد کا دورانیہ طویل ہو جائے اور عدم استحکام جگہ جگہ نظر آئے تو پھر ایک ریاست کے اندر کئی کئی ریاستیں بن جاتی ہیں ۔جہاں پر مرکز گریز بادشاہوں کی شہنشاہت ہوتی ہے۔ ان کے اپنے دستور اور قوانین ہوتے ہیں جہاں ملکی دستور اور قوانین معطل ہو جاتے ہیں۔ اس عہد میں محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے برابری اور مساوات سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں بہت ساری مضبوط مگر قابو سے باہر ریاستوں میں ایک بادشاہت ہمارے قومی معالجین کی ہے جہاں پر صرف اور صرف ان کا اپنا دستور اور قانون نافذ العمل ہوتا ہے ۔اگر کوئی بھی مریض ان کی لاپرواہی سے مر جائے تو ذمہ دار میڈیکل اور پیرامیڈیکل عملے کے دفاع میں بے شمار تنظیمیں حرکت میں آجاتی ہیں۔ اگر حکومت مجرمانہ غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کوئی اقدامات کر بھی لے تو ہڑتالیں شروع ہو جاتی ہیں۔ حفظان صحت کا پورا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑتا ہے۔اس وقت تک سینکڑوں لوگ لاپرواہی کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن چکے ہیں۔لیکن بہت کم ذمہ داروں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی گئی ہے۔حالانکہ مغربی ممالک میں جہاں جمہوریت مضبوط اور ہر شہری کی زندگی کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ، وہاں انسانوں کی تو کیاپالتو جانوروں کی بھی غیر فطری اموات پر طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔37سو سال پہلے ہمورابی کے قانون کے تحت اگر کسی بھی معالج کی غفلت سے کسی کی بھی موت واقعہ ہوتی تھی تو اس کو سخت سزا بھگتنی پڑتی تھی۔تاہم، پاکستان دنیا کی واحد چھٹی بڑی جمہوریت ہے جس میں معالجین کے خلاف ہر قسم کا ٹھوس ضابطہ کار غیر مؤثر ہو چکا ہے۔پاکستان میں وزیرستان واحد علاقہ نہیں جہاں پر ریاست کے قانون کی حکمرانی نہیں بلکہ پاکستان کے اندر بے شمار ایسی ریاستیں بن چکی ہیں جہاں قانون نافذ العمل نہیں ہو سکتا۔یہ وہ حالات ہیں جن کو اراکین پارلیمان بھی برداشت کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ یہاں ''معزز‘‘ اراکین پارلیمان سے غیر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کے طاقتور گروہ ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکتے ہیں۔ تاہم، پارلیمان کے اراکین کی اکثریت ، جو کبھی بھی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز نہیں بن پاتے، کم از کم یہ نہیں جانتے 
کہ معالجوں کی بادشاہت میں ان کے دستوری استحقاق کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔اس لئے ، گاہے گاہے پارلیمان میں سرکاری ہسپتالوں میں ان کے استحقاق مجروح ہونے کی تحریکات پیش ہوتی رہتی ہیں۔ ان تحریکات کا ڈاکٹروں کی بادشاہت پر کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن جب ایک پارلیمان کارکن اپنے استحقاق کے مجروح ہونے کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو قوی تاریخ میں یہ ضرور درج ہو جاتا ہے کہ اگر سرکاری ہسپتالوں میں معزز اراکین پارلیمان کے ساتھ ایسا برتائو کیا جاتا ہے تو پھر پاکستان کے عام شہری کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہوگا۔
محترمہ خالدہ پروین محسن صاحبہ انتہائی منکسر المزاج خاتون قانون دان ہیں۔ وہ پی پی پی کی جنوبی پنجاب سے واحد رکن سینیٹ ہیں جو ہر وقت باپردہ ایوان میں رہتی ہیں۔ اگر وہ خود اپنا تعارف خود نہ کرائیں تو کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ معزز سینیٹر ہیں جو ایک مرتبہ عام انتخابات میں غلام مصطفیٰ کھر کو شکست دے کر ایم این اے بھی رہ چکی ہیں۔ ان کی تقاریر معیاری اور حقائق پر مبنی ہوتی ہیں۔ وہ کبھی بھی اپنے ذاتی مسائل کا تذکرہ ایوان میں نہیں کرتیں کیونکہ انہوںنے ہمیشہ قومی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا۔ تاہم، گزشتہ اجلاس میں جب پولی کلینک کے سینئر ترین معالج نے ان کا علاج کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے اس معاملے پر ایوان میں تحریک استحقاق پیش کی ۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ میں نے باضابطہ طور پر 28نومبر2014ء ،جمعہ ، پولی کلینک ، اسلام آباد میں ایک ڈاکٹر سے 12بجے کا وقت لیا۔ میں پونے بارہ پہنچ گئی۔ اندر بتایا تو انہوں نے کہا 10منٹ باہر انتظار کریں کیونکہ ان کے کمرے میں جگہ نہ تھی۔ دریں اثناء میں ان کے ملحقہ کمرہ سے فزیوتھراپی کرانے کیلئے گئی اور پانچ منٹس بعد واپس آئی تو وہ اپنے کمرے سے باہر جارہے تھے۔ میں نے انہیں روکا ، اپنا تعارف کروایا اور کہا میں آپ کا انتظار کر رہی تھی۔ انہوں نے میری بات سنی ان سنی کر دی اور چلے گئے۔ میں نے ان کے عملہ کے ایک اہلکار کو بھیجا تاکہ وہ انہیں میرے بارے میں بتائیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب واپس نہ آئے۔میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے دفتر گئی ۔ انہیں بتایا۔ کسی نے میری کوئی مدد نہ کی اور میں بمع ہڈیوں کی تکلیف کے واپس آگئی۔سرکاری ہسپتا ل میں ڈاکٹروں کا یہ رویہ منتخب نمائندگان کے ساتھ ہے تو پھر ایک عام انسان کے ساتھ ان کی روش کیسی ہوگی؟ اس کا یہ معزز ایوان بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے۔انہوں نے کہا دستور پاکستان کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہر شہری کی زندگی کا تحفظ کرنا ہے۔ اس ضمن میں صحت کا شعبہ فلاحی ریاست میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم، اس وقت یہ صحت کا شعبہ اس قدر اخلاقی اور قومی انحطاط کا شکار ہو چکا ہے کہ ہمارے مسیحا، جن کا نصب العین زندگی کا تحفظ تھا، بڑے کاروباری لوگ بن چکے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی اور انسانیت کی قدر ختم ہو چکی ہے۔ دولت، مراتب اور ظاہری شان و شوکت نے تمام انسانی قدروں کو چند ھیا کر رکھ دیا ہے۔ اب سرکاری ہسپتالوں میں انسانیت ذلیل و خوار اور منتخب نمائندگان بے توقیر ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹروں کی متحرک لابیاں اس قدر طاقتور ہو چکی ہیں کہ ان کی لاپرواہی کی بدولت مرجانے والے مریضوں کے لواحقین کو بھی انصاف نہیں ملتا۔سرکاری ہسپتالوں میں غیر فطری اموات کی شرح خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ جبکہ کسی بھی ذمہ دار ڈاکٹر کے خلاف کارروائی عملاً ناممکن ہو چکی ہے۔ ان حالات نے ڈاکٹروں کے منظم گروہوں کے دل و دماغ سے خوفِ خداتک کو نکال دیا ہے۔محترمہ خالدہ پروین صاحبہ کی تحریک 
متعلقہ استحقاق کمیٹی کے حوالے ہو چکی ہے۔حسب معمول اس موضوع پر نجانے کتنے اجلاس طلب کیے جائیں گے۔ استحقاق کمیٹی کے اراکین کو بھاری معاوضے ملیں گے۔ محترمہ خالدہ پروین صاحبہ کو بھی بلایا جائے گا۔ انہیں بھی شرکت کا معاوضہ دیا جائے گا۔آخر میں متعلقہ ڈاکٹر کی معمولی سی معذرت پر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔ اگر محترمہ خالدہ پروین صاحبہ یہ معذرت قبول نہ بھی کریں تو اس سے ڈاکٹر کی معذرت قبو ل کر لی جائے گی۔ یہی کہانی استحقاق کمیٹی کو پیش ہونے والی ہر تحریک استحقاق کے منطقی انجام کی داستان ہوتی ہے۔ کوئی بھی نظام یا کوئی بھی قومی ادارہ پارلیمان میں استحقاق کی تحریکیں پیش کرنے سے نہیں بدلتا بلکہ اس کے بارے میں ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں