ہمارے عہد کے بڑے دانشوروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے دو چہرے ہیں۔ ایک چہرہ ہشاش بشاش‘ جاہ و جلال سے مزین‘ سفید رنگ اور عظمتوں والا ہے۔ دوسرا کالامٹیالا، افسردہ ، کمزور ، ہڈیوں کا ڈھانچہ اور قابل نفرت اور بدمعاش ہے۔ پہلا عیش کرتا ہے، خرچ کرتا ہے، حکمرانی کرتا ہے۔ گھوڑے ، کتے اور دیگر پالتو جانور رکھتا ہے۔ بڑے محلات میں رہتا اور مہنگی گاڑیاں استعمال کرتا ہے۔دوسرا محنت، مشقت کرتا ہے۔ بچے پیدا کرتاہے اور بھوکا ننگا رہتا ہے‘ پہلے چہرے کی حقارت برداشت کرتا ہے۔ ایک چہرہ اجاڑتا، تباہی پھیلاتا اور بے جا صرف کرتا ہے۔ دوسرا سنوارتا، بناتا اور تعمیر کرتا ہے۔ پہلا باہر سے آیا ہے۔ دوسرا مقامی ہے۔ جو کچھ امریکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے وہی کچھ ہر اس ملک کے خدوخال ہیں جہاں ابھی جمہوریہ کمزور، دستور غیر موثر اور مساوات دیرینہ خواب ہے۔ کچھ حوالوں سے پاکستان اور بعض دوسرے ترقی پذیر ممالک کو بھی دو چہروں والے سماج کے ممالک میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
دستور پاکستان کی پہلی 40 دفعات میں وہ سب کچھ موجود ہے‘ جو انسانی حقوق، مساوات اور برابری کے ضمن میں انقلاب فرانس کے بعد پہلے جمہوری دستور میں اٹھارہویں صدی کے آخر میں بنیادی فلسفہ کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ 1948ء میں پیرس میں اقوام عالم نے انسانی عظمت ،مساوات اور یکساں سلوک کے ضمن میں جو اہم ترین رہنما دستوری قوانین منظور کئے تھے‘ وہ حرف بہ حرف دستور پاکستان کا بھی حصہ ہیں۔پاکستان دولت مشترکہ کا رکن ملک ہے‘ جس میں یورپی ممالک کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ یورپی یونین کے انسانی کنونشن کا اطلاق بین البرلمان تنظیم کے ذریعے پاکستان پر بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ اس کا رکن ہے۔ قومی خزانے سے سالانہ کم از کم نصف ارب روپے کے لگ بھگ پارلیمانی وفود کے بیرونی دوروں پر خرچ کیے جاتے ہیں‘ جو دولت مشترکہ کے ممالک یا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق پر عالمی فورمز کو پوری قوت ایمانی سے یقین دلاتے ہیں کہ انسانی حقوق سے متعلق جملہ عالمی اور قومی دساتیر پر من و عن عمل کیا جارہا ہے۔ اگرچہ، عالمی فورموں پر ہمارے پارلیمانی وفود اس پیشہ ورانہ مہارت اور تیاری کے ساتھ شمولیت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے جیسی ہمارا ہمسایہ ملک بھارت رکھتا ہے‘ لیکن اس کی حمایت یافتہ لابیاں کہیں نہ کہیں اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ انجام کار ، ہمارا پردہ رہ جاتا ہے۔
ہمارے جمہوری ملک میں انسانی حقوق ،مساوات اور برابری کی کیا صورتحال ہے، اس کا اندازہ ملک کے سب سے بڑے ایوان کے اس حصے سے لگایا جا سکتا ہے‘ جو اب تک ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی نظروں سے اوجھل ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس ایوان کے اراکین کی ظاہری شان و شوکت اور آن بان اس قدر متوجہ کر لینے والی ہے کہ ہمارے ملک میں خبریں تلاش کرنے والوں کو ان کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا‘ لیکن اپنی ظاہری صورتحال کی وجہ سے اور ارضیاتی اثرات کے تحت ایوان کے اندر کا یہ حصہ خاصا ہیبت ناک محسوس ہوتا ہے‘ جس میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ یہاں ہر محکمہ کے اہلکار موجود ہیں۔ اس حصے کے آغاز یعنی پارلیمان کے پہلے داخلی دروازے کے آخر میں برقی سیڑھیاں ختم ہوتی ہیں۔ آپ جیسے ہی دروازے میں داخلے کے لیے آگے بڑھتے ہیں‘ سینکڑوں کیمرہ مین، صحافی اور منتخب نمائندوں کے شکاری مخصوص شہری انتظار کرتے ، انٹرویو لیتے اور قہقہے لگاتے نظر آتے ہیں۔ اگر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا اجلاس ہو رہا ہو تو اس کے سامنے والے وسیع میدان میں مہنگی ترین گاڑیوں کا اکٹھ نظر آتا ہے۔ محافظوں کے چاق و چوبند دستے نہایت مستعدی سے اپنے فرائض سرانجام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ جیسے ہی اندر داخل ہوتے ہیں‘ عمارت کے اندر پچیس تیس گز کے احاطہ میں پُرکشش ماحول‘ چھت پر لٹکتے فانوس اور آپ کے منتظر لفٹ آپریٹرز آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ پہلی منزل پر چیئرمین سینیٹ اور سپیکر اسمبلی کے کمرے اور چیمبرز ہیں۔ وزراء ، قائدین اقتدار و اختلاف کے چیمبرز بھی یہیں موجود ہیں۔دوسری منزل پر چکا چوند روشنیوں سے جگمگاتے ماحول میں اجلاسوں سے قبل یہاں کے عوامی نمائندگان قہقہے لگاتے، ایک دوسرے سے مذاق کرتے اور خوش گپیوں میں مگن نظر آتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ اجلاس کسی بھی المناک ترین قومی سانحہ پر ہی کیوں نہ طلب کیا گیا ہو‘ یہاں کا ماحول سدا خوشگوار اور پُراعتماد نظر آتا ہے۔
برقی دیوار ختم ہوتے ہی پارلیمان کا وہ حصہ شروع ہو جاتا ہے‘ جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ اگر آپ داخلی راستہ نمبر5 سے عمارت کے اندر داخل ہوں تو پارلیمان کا تہہ خانہ نظر آتا ہے۔ مذکورہ حصے میں پہلے داخلی راستے کے دائیں اور بائیں جانب سے نہایت تنگ راستوں سے داخل ہوا جاتا ہے۔ جیسے ہی آپ اس حصے میں پہلا قدم رکھتے ہیں تو گھپ اندھیرا آپ کا استقبال کرے گا۔ آنکھیں کچھ دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو گٹر اور سیوریج کے مین ہولز اور سروں پر نصب سیوریج ، بجلی اور ایئرکنڈیشننگ سسٹم کے بڑے بڑے پائپس نظر آئیں گے۔ چونکہ آپ چکا چوند روشنی سے اندر داخل ہوئے ہوتے ہیں اس لیے پہلے پہل آپ کو کچھ نظر نہیں آتا؛ تاہم ، گٹروں کی بدبو اور تہہ خانوں کا مخصوص تعفن سانسوں میں داخل ہو کر آپ کو احساس دلاتا ہے کہ آپ کسی دوسرے جہان میں آگئے ہیں۔ آپ بھول جاتے ہیں کہ آپ کے سر پر خوشگوار ماحول میں رچا بسا طاقتور ایوان اور حکمرانوں کے چیمبرز ہیں‘ جہاں دستور کی بالادستی ،پارلیمان کی خود مختاری اور انسانی مساوات اور حقوق پر تقاریر اور قانون سازی ہوتی ہے۔ ایٹمی توانائی کے قومی کمیشن نے ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد میں تہہ خانوں کی تعمیر کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان کے تعمیر کنندگان اور باشندوں کو یہ بالکل معلوم نہیں کہ جن تہہ خانوں میں روشنی اور ہوا کا گزر نہیں ہوگا‘ وہ ہمیشہ ارضیاتی تابکاری کی زد میں رہیں گے‘ جس سے تیرہ و تاریک اور تنگ تہہ خانوں کے مکینوں کی زندگیاں ایسے ہی آہستہ آہستہ خطرے میں گھرتی چلی جائیں گی جیسے ایٹم بموں کی تابکاری کا شکار لوگ گھِرجاتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ اپنے متعدد فیصلوں میں حکم دے چکی ہے کہ کام کی جگہ کا حفظان صحت کے لیے موزوں ہونا ریاست کی اہم ترین ذمہ داری ہے کیونکہ دستور پاکستان حکومت اور پارلیمان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ بلاامتیاز شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ کرے؛ تاہم اعلیٰ ایوانوں میں ہی‘ جہاں برابری کے قوانین بنتے ہیں‘ دستور پاکستان پر پوری طرح عمل ہوتا ہے نہ کمیشن کی رپورٹوں اور عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کو ہی یقینی بنایا جاتا ہے۔
پارلیمان کے تہہ خانے میںہی ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اہم انتظامی اور مالیاتی شعبے بھی ہیں۔ جب میں اپنی پنشن کے کاغذات بنوانے وہاں گیا تو ان نوجوان ساتھیوں سے ملا جو وہاں آنے سے پہلے صحت مند اور توانا ہوا کرتے تھے۔ مجھے ان کے چہرے بے رونق، صحت روبہ زوال اور وہ خود متعددامراض کے شکار نظرآئے۔ وہاں موجود میرے ساتھیوں نے خود بھی اپنی مصروفیات اور صحت کے حوالے سے فکر مندی ظاہر کی۔ میرے ایک دیرینہ ساتھی نے آہ بھری اور کہا‘ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ تو آزاد ہو جائیں گے لیکن ہمارے مسائل کے بارے میں ضرور لکھنا۔
پارلیمان کا سالانہ بجٹ چار ارب روپے سے کچھ زیادہ ہے۔ چونکہ پارلیمان کی مالیاتی کمیٹیاں اعلیٰ عدالتوں،پبلک اکائونٹس کمیٹی اور آڈیٹر جنرل کے دائرہ کار سے غالباً باہر ہیں‘ اس لیے ان کی مالیاتی خود مختاری کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ سینیٹ نے چاروں صوبوں میں پروٹوکول کیمپ آفس قائم کر رکھے ہیں۔ جہاں ہمہ وقت مہنگی گاڑیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے اجلاس ہو رہے ہوں تو یہاں عملہ دیر تک موجود رہتا ہے‘ مگر لیٹ ڈیوٹیوں کے نام پر اوور ٹائم‘ سیشن الائونس اور اعزازیئے اسلام آباد سے لیتے ہیں۔وسائل کے ضیاع کا یہ عالم ہے کہ 2012ء میں پارلیمان کے کیفے ٹیریا پر 5کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی۔ قوم کو بتایا گیا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا لوگوں اور صحافیوں کو سستے داموں کھانا مہیا کرنے کا دیرینہ خواب پورا ہو گیا ہے‘ لیکن دو سال کے اندر اندر کیفے ٹیریا ناکام ہو گیا۔ آج اس کی حالت وہی ہے‘ جو 5کروڑ روپے خرچ کرنے سے پہلے تھی۔ اسراف بے جا کی بے انت مثالیں ہیں جن میں اب تک اربوں روپے بے مقصد خرچ کیے جا چکے ہیں‘ جس کا قوم کو کوئی بھی فائدہ نہیں‘ لیکن زبردست مالی فوائد پانے کے باوجود پارلیمان کے اہلکار غیر صحت مندانہ ماحول میں کام کر رہے ہیں۔ اصلاح احوال کا اہتمام ہونا چاہیے۔