"NLC" (space) message & send to 7575

آپس کی جنگ کہیں بھسم نہ کر دے!…(1)

آج جب ہم آپس کی جنگ اور لڑائی کی بات کریں تو اس کا بین الاقوامی پس منظر میں مسلمانوں کے علاوہ اندرون ملک کی صورت حال سے بھی گہرا تعلق بنتا ہے۔ عراق، سوڈان، لیبیا، یمن، شام، ترکی، اب ایران اور پاکستان، غرضیکہ جہاں بھی کسی حکومت نے سپر پاور کی بات نہ مانی تو اس حکمران کی تبدیلی (Regime Change) کے لئے جو طریقۂ کار(Technique) استعمال کیا گیا‘ اب وہ بہت واضح ہو چکا اور فقط عقل اور آنکھوں کے اندھوں کو شاید نظر نہ آئے۔ فوجی اور معاشی طور پر مضبوط ملکوں کو پہلے ایک دوسرے سے لڑوا کر (ایران عراق جنگ، شام ترکی اور عرب، یمن سعودیہ اور متحدہ وغیرہ) کمزور کیا جاتا ہے، اندرونی خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کی جاتی ہے، جیسا کہ سوڈان، نائجیریا اور لیبیا میں کیا گیا، اور پھر ایک کمزور اور ڈگمگاتی حکومت کو برسرِ اقتدار لا کر من مانی کی جاتی ہے۔ اب باری چند عرب ملکوں، ایران اور پاکستان کی ہے۔
پہلے بحیرہ عرب میں امریکی جنگی بیڑے کی آمد اور ایران کے ساتھ پیدا ہونے والے تناؤ کی بات ہو جائے۔ دنیا اچھی طرح سے واقف ہے کہ ایران نے اپنی ایٹمی سرگرمیوں پر قدغن لگانے والے جس معاہدے پر دستخط کئے تھے بقول بین الاقوامی ایٹمی انرجی ادارے (IAEA) کے ایران نے اس کی مکمل پاس داری کی اور کئی یورپی ملکوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی، لیکن پھر بھی ٹرمپ بہادر نہ مانے‘ یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو منسوخ کر دیا اور ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ آخر امریکہ کو ایران سے خدا واسطے کا بیر کیوں ہے؟ اگر ماضی قریب کے واقعات پر نظر دوڑائیں تو مشرق وسطیٰ میں امریکی اور اسرائیلی عزائم کے راستے میں جن ملکوں نے روڑے اٹکائے ان میں ایران پیش پیش رہا۔ لبنان، شام، یمن اور عراق وغیرہ کے واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روس سینہ ٹھونک کر امریکہ کی راہ میں حائل ہوا تو ایران بھی زیادہ پیچھے نہیں رہا۔ چین گو کہ کھلے طور پر کم ہی سامنے آیا‘ لیکن اقتصادی وسعت کو طول دیتے ہوئے افریقہ اور ایشیا کے اکثر ممالک میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو گیا۔ مشرق وسطیٰ کے سلسلے میں کئی مواقع پر ترکی نے بھی اپنے آپ کو امریکی پالیسی سے دور رکھا۔ لیکن اگر کچھ ملکوں نے ہر جگہ امریکہ کے ارادوں کی عملی مدافعت کی تو ان میں روس اور ایران سر فہرست ہیں۔ ایران کا محل وقوع بھی امریکہ کیلئے درد سر ہے۔ بحیرہ عرب میں بندر عباس اور گوادر کا امریکی اثر و رسوخ میں نہ ہونا اور چین کا ان بندرگاہوں کا اقتصادی استعمال، اس خطے میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ چین کا بی آر آئی اور سی پیک (CPEC & BRI) اگر کامیابی سے چلنے دیا گیا تو امریکہ کا اقتصادی دائرہ کار ایشیا اور افریقہ میں چھوٹا ہوتا چلا جائے گا۔ کچھ عرب ممالک نے جب آزادانہ خارجہ اور معاشی پالیسی اپنانے کا عندیہ دیا تو اس پر بھی امریکہ اور اس کے چند حلیف سیخ پا ہوئے تھے۔ مندرجہ بالا جائزہ تقریباً ان تمام محرکات کی نشاندہی کرتا ہے جن کی بنا پر امریکہ، اسرائیل اور ان کے چند حلیف اس خطے کو جنگ کی آگ میں دھکیل کر دونوں اطراف کے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے بعد، اپنی اجارہ داری قائم رکھتے ہوئے، اپنے مفادات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اب کچھ ممکنہ حکمت عملی پر بحث کی جائے۔
متوقع امریکی حکمت عملی:
اس میں کوئی شک نہیں کہ کرۂ ارض پر اس وقت کی بڑی طاقتوں میں امریکہ اپنے مفادات کو بڑھانے کیلئے جنگ پر ہر دم آمادہ سب سے دلیر ملک ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس رویے کے سبب دنیا میں ظلم، بربریت، اور بے حسی کی داستانیں بھی رقم ہو رہی ہیں۔ اب ایران اور عرب ممالک کے بارے میں امریکی اور اسرائیلی عزائم کی تکمیل کا کیا منصوبہ ہو سکتا ہے؟ پہلے تو جنگ سے پیشتر ایران پر شدید نفسیاتی اور معاشی دباؤ پیدا کیا گیا ہے۔ جدید جنگی بیڑے کو خطے میں داخل کرنے کے بعد میڈیا وار (Media War) شروع ہے۔ ایک فالس فلیگ کارروائی (False Flag Operation) بھی کی گئی، جب سعودیہ کے کنٹینر شپس (Container Ships)پر حملے کا ناکام ڈرامہ رچانے کے بعد خود امریکہ نے تحقیقات کی ذمہ داری بھی لے لی۔ ہے نا مزے کی بات؟
اب امریکہ اور اسرائیل کی کوشش یہ ہو گی کہ ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جس میں جنگ براہ راست عربوں اور ایران کے درمیان ہو‘ چاہے اس کو شروع کرنے میں خود ان کو لیڈ (Lead) کرنا پڑے، جس کیلئے اسرائیل ہر دم تیار ہے۔ اور یہ شروعات ہوائی حملوں سے ہو گی کیونکہ ایران کی ہوائی فوج نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب ایران نے اچھی ڈپلومیسی کا ثبوت دیتے ہوئے جنگ سے اجتناب کا عندیہ دیا لیکن سعودی عرب نے حملے کی صورت میں پوری قوت استعمال کرنے کی دھمکی دے ڈالی اور عرب ممالک کا ایک مشاورتی اجلاس بھی طلب کر لیا۔ جنگی پالیسی اور سٹریٹیجی (War of Strategies and Policies) کو سمجھنے والے جانتے ہیں‘ اس خطے میں کسی بھی قسم کی جنگ کے نقصانات فقط مسلمان ممالک کو ہوں گے اور ایک بار عرب اور فارس ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے تو کئی اور مسلم ممالک اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ اور یہ جنگ طول پکڑ سکتی ہے اور خدانخواستہ کم از کم اس علاقے کے مسلمانوں کی مکمل تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ مسلمانوں کا مورال (Morale) گرانے کیلئے جہاں پہلے کئی اقدام کئے گئے ہیں (بیت القدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانا، گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کا حصہ بنا دینا وغیرہ) وہاں مکہ اور مدینہ پر حملہ کر کے ( میرے منہ میں خاک) پورے عالم اسلام کے عزم کو چوٹ لگائی جا سکتی ہے۔ یہ کام جو بھی کرے نام ایران کا لگایا جائے گا۔
عرب ممالک کیلئے لمحۂ فکریہ:
آنے والے ممکنہ حالات کی جو امکانی (Hypothesis) تصویر کشی اوپر کی تحریر میں کی گئی‘ اس کو عرب آسانی سے مات دے سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ یہودی اور امریکی سازش کو پہلے ہی مکمل طور پر بھانپ لیں اور کسی کی شہ پر جنگ میں شرکت سے صاف انکار کر دیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو امریکہ ایران پر حملہ کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچے گا چاہے یہ بات اسرائیل کو کتنی ہی بری لگے۔
پاکستان کا کردار اور ممکنہ خلیجی جنگ کے ہم پر امکانی اثرات:
پاکستان کو ہر صورت میں غیر جانبدار رہنا چاہئے اور کسی بھی سائیڈ کے دفاع کی بات ہرگز نہیں کرنی چاہئے؛ البتہ حرمین شریفین پر حملے کی صورت میں پاکستان کی جانب سے جارح کو دندان شکن جواب کا اعادہ ضرور کیا جانا چاہئے۔ اور برادر اسلامی ممالک میں صلح کیلئے اپنی خدمات پیش کرنا چاہئیں۔ جیسا کہ قرآن پاک میں دو بھائیوں کے درمیان جھگڑا ختم کروانے کا طریقہ بیان ہوا ہے۔ اور اگر اکیلے یہ کام ممکن نہ ہو تو ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا کو ساتھ ملا کر یہ کام کرنا ضروری ہے‘ ورنہ اس آگ سے ہم اپنا دامن بچا نہیں پائیں گے۔ ہو سکتا ہے کچھ خلیجی ممالک اور امریکہ ہماری سرزمین یا ہوائی حدود استعمال کرنے کی استدعا کریں۔ ہمیں سختی سے ایسی تمام کوششوں کو رد کرنا ہو گا۔ یمن کے سلسلے میں مدد نہ کرنے پر کچھ دوست ناراض ہوئے تھے لیکن آج ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا وہ فیصلہ بالکل درست تھا۔ ہو سکتا ہے جنگ کی صورت میں ہمیں ایرانی پناہ گزینوں سے نمٹنا پڑے۔ افغانستان کے حالت سے سبق سیکھتے ہوئے پرانی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔
اس دعا کے ساتھ کہ اللہ نہ کرے یہ سب کچھ وقوع پذیر ہو اور اس طرح دونوں اطراف کے مسلمان اس بڑی سازش کا شکار ہونے سے بچ جائیں‘ تحریر کا پہلا حصہ ختم کرتا ہوں۔ دوسری قسط میں پاکستان کے اندر ہونے والی ممکنہ محاذ آرائی کے خوفناک نتائج کی بات ہو گی اور اللہ نہ کرے اگر ایسا ہوا تو سوائے دشمنوں کے جیت کوئی بھی نہیں پائے گا۔ امید واثق ہے کہ عوام کی مدد سے یہ سازش ناکام بنا دی جائے گی۔ انشا اللہ! (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں