"NLC" (space) message & send to 7575

چھلانگ لگانے کو تیار، ایک بار پھر؟

امریکہ کی پرنسپل انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ، ایلس ویلز نے سری لنکا اور انڈیا کا دورہ مکمل کر کے چند روز قبل ہمارے ہاں قدم رنجہ فرمایا۔ اپنے سرکاری مرتبے کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان میں جس کسی سے چاہا اس سے ملاقات کی۔ انہوں نے وزیر داخلہ اعجاز شاہ سے بھی ملاقات اور تبادلہ خیالات کیا۔ اس دوران ایسے سوالات پوچھے جن کے جواب دینا عموماً عزت نفس رکھنے والے ممالک ضروری نہیں سمجھتے۔ محترمہ نے یہ بیان تک دے ڈالا کہ سی پیک کے تحت ٹھیکے نا مُناسب ٹھیکے داروں کو دیے گئے۔ یہ کسی آزاد ملک کے معاملات کی وحشیانہ مائیکرو مینجمٹ ہے۔ شاید یہ اشارہ تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے ہمارا نام جلد نکلنے والا نہیں ہے۔ اس سے قبل ہم سے کہا گیا تھا کہ ہم قومی بچت کی سکیموں میں سرمایہ کاری کرنے والے تمام افراد کی فہرست فراہم کریں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیا اور کیوں ہے؟
اب اس کے ساتھ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں کی جانے والی تجدیدِ عنایت جوڑیں۔ اس سب کچھ کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ افغان طالبان اور امریکہ کے مابین ہونے والے ممکنہ امن معاہدے تلے چھپایا جا رہا ہے۔ پاکستان افغانستان میں امن کے لیے جان توڑ مشقت کر رہا ہے، افغان طالبان پر اپنے اثر و رسوخ کو ہر طرح استعمال کر کے انہیں بار بار مذاکرات کی میز پر لا رہا ہے۔ ہم نے کچھ اہم غیر ملکی قیدیوں کی رہائی اور طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے حالیہ اعلان میں بھی مدد کی۔ اور اس سب کے باوجود امن کو دستاویزی شکل اسلام آباد کی بجائے دوحہ میں دی جا رہی ہے۔ یہ چیز ہماری سفارتی مہارت کو آشکار کرتی ہے۔
اب جب یہ امر بظاہر واضح نظر آتا ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے لیے سنجیدگی سے ہاتھ پائوں مار رہا ہے تو ایسے میں ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ وہ اس خِطے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے کیا کرے گا؟ کیا امریکہ یہ برداشت کر سکتا ہے کہ وہ اس خطے کو یہاں پیدا ہونے والی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے مشتاق بلکہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے بالکل تیار بیٹھے ممالک یعنی روس، چین، ایران اور کچھ وسطی ایشیاء کی ریاستوں پر چھوڑ دے؟ جنوبی ایشیا میں اس کا واحد تزویراتی اتحادی بھارت ہے‘ جو کسی صورت اپنی گردن دنیا کی اس خطرناک ترین جگہ پر پھنسانے کے لیے تیار نہیں۔ اور اب ایک بار پھر دنیا کی واحد سپر پاور کی جانب سے پاکستان کے لیے پیار کی تجدید اور قربت کے تعلقات کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اور بد نصیبی سے ڈالروں کے لیے پیاسا پاکستان ایک بار پھر اَن گنت ویں بار اس صورت حال میں کودنے کو تیار ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ اگر آپ بھوکے اور پیاسے ہیں تو اصول اور زندگی کے بلند مقاصد کوئی معنی نہیں رکھتے۔ لیکن ضروری نہیں کہ کسی قوم کا رویہ کسی فرد کے رویے سے مماثل ہو۔ اور پاکستانی قیادت کو (جو کوئی بھی معاملات چلا رہا ہے) لوگوں نے اس بات کا مینڈیٹ نہیں دیا کہ وہ ایسے اقدامات کریں‘ جو عالمی سطح پر ان کے وقار کو مجروح کریں۔ ایسے سنجیدہ نوعیت کے معاملات پر پارلیمان کے اندر اور باہر بحث ہونی چاہیے۔ چین کے ساتھ ہمارے، بارہا آزمائے ہوئے، طویل تزویراتی تعلقات ہیں۔ سی پیک ہمارا مستقبل ہے۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ ایران اور افغانستان ہمارے ہمسائے ہیں۔ روس اور وسطی ایشیاء کی ریاستیں‘ دونوں بحر ہند تک رسائی کے خواہاں ہیں۔
امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہمارے تمام منصوبوں اور خوابوں کو ویران کرنا چاہے گا۔ امریکہ افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ پاکستان کی مدد سے برقرار رکھنا چاہے گا۔ پاکستان میں امریکہ کی موجودگی ایران کے خلاف ان کے عزائم کو بھی تقویت دے گی۔ سی پیک منصوبے کا انتشار اور چین و روس کو گھیرے میں لینا بھارت اور امریکہ کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ ان حالات میں یہ پیش گوئی کرنا مشکل نہیں کہ پاکستان کو گھیرنے کے لیے کچھ بڑی ترغیب دہ چیزیں ملنے والی ہیں کہ وہ امریکہ کو اپنی سیاست، سکیورٹی اور معیشت کے شعبوں میں مزید پیر جمانے کا موقع دے۔ شہد سے لتھڑی ہوئی شاخِ زیتون کی مزاحمت کرنا مشکل کام ہو گا، اور اگر شروع میں اس سے کام نہ چلا تو ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی چھڑیوں یعنی قرض کی ادائیگی، انڈیا کا خطرہ، امریکہ اور مشرق وُسطیٰ سے ہونے والی ترسیل زر میں کمی جیسے اقدامات کو بروئے کار لایا جائے گا۔ یہ گرم و سرد والی (روایتی امریکی حکمت عملی) ایک بار پھر آزمائی جائے گی۔
اور اگر تاریخ کی گواہی کوئی چیز ہوتی ہے تو امریکہ کی اس حکمت عملی کی کامیابی یقینی ہے۔ یہ امریکی حکمت عملی صرف اس صورت ناکام ہو سکتی ہے کہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت اپنے ماضی کے رویوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے، پاکستان کے مفاد اور چین اور خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مقدم رکھ کر جھکنے یا مجبور ہونے سے انکار کر دے۔ ہم افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا بوجھ نہیں سہار سکتے‘ نہ ہی ہم کوئی ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں جو روس، چین اور ایران کو سیخ پا کر دے۔ لیکن اس راہ پر چلنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بھارتی خطرہ دیموکلس کی تلوار (سر پر مسلسل منڈلاتا خطرہ) کی مانند حقیقتاً ہمارے سروں پر لٹک رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ امریکی خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کوئی عسکری مہم جوئی کر گزرے۔ 
اب ہمارے پاس کیا امکانات موجود ہیں؟ بہترین سفارت کاری تو یہ ہے کہ ہم اپنے تعلقات میں اس طرح توازن رکھیں کہ دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات اپنے عروج پر ہوں اور مخاصمت کم سے کم سطح پر رہے۔ عمومی قدر نما تو قومی مفاد ہے۔ وقت پڑنے پر کچھ چھوٹا موٹا لین دین کیا جا سکتا ہے۔ لیکن قومی زندگیوں میںایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے کہ انہیں دو راہے پر کھڑے ہو کر کسی ایک راہ کو چننا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک بار پھر ریاست ہائے متحدہ امریکہ والوں سے دلی طور پر جا ملیں اور انہیں موقع دیں کہ وہ یہاں بیٹھ کر افغانستان، ایران اور وسطی ایشیاء کے ممالک میں اپنے سیاسی و معاشی اثر و رسوخ کو قائم رکھیں؟ ہم سی پیک کے بدلے میں بڑی معاشی آسانی قبول کر لیں اور چین کی دوستی سے ہاتھ دھو بیٹھیں؟ ایک بار پھر ہم پرانی ڈگر پر چلتے رہیں تاوقتیکہ سپر پاور ہمیں اپنے مفاد کے لیے برت کر استعمال شدہ ٹشو کی طرح پھینک نہیں دیتی‘ اور ہم گھوم پھر کر دوبارہ اسی جگہ پر پہنچ جائیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے ماضی میں کئی بار ہمارے ساتھ ہو چکا ہے؟ 
دوسرا امکان یہ ہے کہ ہم چین، روس، ایران، ترکی اور ملائیشیا جیسے ممالک کے مزید قریب ہوں اور انڈیا، امریکہ اور مشرقِ وُسطیٰ کے دوست ممالک کے غضب کا نشانہ بنیں۔ ہم کچھ مشکل وقت سہیں لیکن آخر میں ایک آزاد اور با وقار ملک کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئیں۔
اوپر جو کچھ کہا گیا ہے ہو سکتا ہے کہ صورت حال بالکل ایسے ظہور پذیر نہ ہو؛ تاہم ہمیں خود کو خطے میں باہم ٹکراتے ہوئے مفادات کی جنگ کے لیے تیار رکھنا چاہیے۔ اپنے عالمی دوستوں سے مشاورت کرنی چاہیے، سول سوسائٹی اور پارلیمان میں اس معاملے پر راست بازی سے مباحثہ کر کے ان حالات میں اپنے لیے قابل عمل حکمت عملیاں تشکیل دینی چاہئیں، اور اس کام میں ہرگز تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ وقت ہمارے غفلت زدہ، ریزہ ریزہ اور غیر سنجیدہ رد عمل کا انتظار نہیں کرے گا۔ 
میرے پیارے وزیر اعظم، سپہ سالارِ اعظم اور وزیر خارجہ صاحب! کسی بھی ٹال مٹول کی ہمیں بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں