شہیدِ حق!

ایک ہزاریہ، تین صدیاں اور چھتیس سال ہوتے ہیں۔ یہ680ء کا اکتوبر اور اکتوبر کا دوسرا لیکن سال کا گرم ترین ہفتہ تھا۔عرب کے لق و دق صحرا میں بغداد سے ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک جانب کچھ رہائشی خیمے گڑے تھے تو دوسری جانب فرات کے کنارے حاکمِ وقت کے لشکری خیمہ زن تھے۔ یہ لشکری ہر صورت رہائشی خیموں والوں کی جان کے درپے تھے، خیموں والوں کو اپنی جان کا کوئی خوف نہ تھا، بس خیال تھا اتنا کہ قوم تقسیم نہ ہو۔ اِسی خیال سے خیموں میں رہائش پذیر خاندان کا سربراہ اپنی جان کے دشمن لشکریوں سے مخاطب ہوا ''اے لوگو! جلدی نہ کرو، پہلے میری بات سن لو، مجھ پر تمہیں سمجھانے کاجو حق ہے اسے پورا کرلینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو۔ اگر تم میرا عذر قبول کرلوگے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی۔ تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالیٰ میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے‘‘۔ عسکری حکمت عملی کے تحت رہائشی خیموں پر پانی بندکیا جاچکا تھا، جسموں کو جھلسادینے والی گرمی میں بچے پیاس سے بلکتے تھے، جوانوں کے ہونٹ خشک تھے، خواتین کے لب پپڑی بننے لگے تھے لیکن اس کے باوجود سب کے سب صبر و استقامت کا پیکر بنے ہوئے تھے۔ اُن میں سے کوئی بھی پانی کی چند بوندوں کیلئے اپنے دشمن کے سامنے دست ِ سوال دراز کرنے کو تیار نہ تھا۔ یہ گھرانہ دستِ سوال دراز 
کرتا بھی کیوں کریہ گھرانہ تو سرورِ کونینﷺ کے نواسے کا گھرانہ تھا۔یہ حضرت حسین ؓکا گھرانہ تھا، جس پر کربلا کے میدان میں کوہِ گراں گرانے کی تیاریاں مکمل کی جاچکی تھیں۔ حضرت حسینؓ نے لشکریوں سے اپنا خطاب جاری رکھا''لوگو ! تم میرے حسب و نسب پر غور تو کرو اور دیکھو تو سہی کہ میں کون ہوں؟ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔ خیال توکرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟‘‘ کیا میں تمہارے نبی ﷺکا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں؟ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہا اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لائے؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہؓ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیارؓ میرے چچا نہ تھے؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے، تو بتاؤ کہ کیا تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا چاہیے ؟ ‘‘۔
دوسری جانب دلوں پر چونکہ مہریں لگ چکی تھیں، اس لیے نواسہ رسول ﷺ کے اِس تاریخی خطاب اور تبلیغ کا لشکریوں پر اثر نہ ہوااور دس محرم الحرام کو اسلامی تاریخ کا سب سے افسوسناک اور المناک سانحہ پیش آیا، لیکن حضرت حسین ؓکا کردار حق پرستوں کیلئے روشنی کا ایک ایسا مینار بن گیا کہ حریت ، آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جب بھی مسلمانوں نے اپنی 
جدوجہد کا آغاز کیا تو حضرت حسینؓ کی قربانی کو مشعل راہ پایا۔ آپ ہی سے مسلمانوں نے سیکھا کہ جبر و استبداد کے سامنے سینہ سپر ہونا عین رضائے الٰہی ہے۔ اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی تھی، اُس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کرحق پرستی ، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ ابنِ علی ؓ بھی اُنہی اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدان عمل میں اترے ،لیکن راہ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدان کربلا میں گزری وہ جور وجفا ، بے رحمی اور استبداد کے سوا اور کیا تھا؟
جگر گوشہ بتولؓ کوکئی روز تک بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے شہید کرکے ان کے جسد اطہر کی بے حرمتی کی گئی، یہ تاریخ اسلام کی اولین اور بدترین مثال ہے۔ ظالموں کی جانب سے جرم کی سنگینی میں اس لیے بھی اضافہ ہوا کہ نواسہ رسول ﷺ نے آخری لمحات میں جو انتہائی معقول تجاویز پیش کیں اُنہیں یزیدی ٹولے نے سرے سے درخور اعتنا ہی نہ سمجھا ۔جہاں تک حق و انصاف ، حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جدوجہد کا تعلق ہے یہ کہنا درست ہوگا کہ سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب بھی ہے ۔حضرت حسینؓ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت جرأت اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ حضرت حسین ؓکا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل ِشوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اُس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لیے تاریخ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی۔ 
کم و بیش ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے کربلا کے میدان میں پیش آنے والا واقعہ دراصل ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ایک شہید ہوتا کیا ہے اور ایک شہید کی عظمت کیا ہوتی ہے؟ ایک شہید کس طرح حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی ، حریت فکر اور خداکی حاکمیت کا پرچم بلند کرتا ہے اور کس طرح اسلامی روایات کی لاج رکھتے ہوئے اُنہیں ریگ زار عجم میں دفن ہونے سے بچا لیتا ہے۔واقعہ کربلا ہمیں ایک سچے شہید کے اوصاف حمیدہ کے بارے میں بھی بتاتا ہے کہ ایک شہید عصمت و طہارت کا مجسمہ اور زہد وعبادت کا پیکر ہوتا ہے۔واقعہ کربلا ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ایک شہید جودوسخاکا بحر بیکراں، کمالِ اخلاق کی انتہا اور جرأت و بہادری کی مثال بنتا ہے؟واقعہ کربلا ہمیں ایک شہید کی اخلاقی جراَت، راست بازی، راست کرداری، قوتِ اقدام، جوش عمل ، ثبات و استقلال اور صبر و برداشت کی تصویریں بھی دکھاتا ہے۔
قارئین محترم!!عالمِ اسلام میں راہ حق میں جانیں قربان کرنے کا سلسلہ گزشتہ چودہ سو سال سے جاری ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام آج بھی زندہ و تابندہ ہے، لیکن افسوس کہ آج کچھ لوگوں نے ''شہادت‘‘ کے مرتبے کو بھی اپنی ''جاگیر اور ملکیت‘‘ سمجھ رکھا ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ شہید صرف وہی ہے، جسے اُن کے فتوے کی سند حاصل ہو، لیکن ایسے لوگ اِتنی سی حقیقت نہیں سمجھ سکے کہ شہید کسی سند، کسی فتوے، کسی انعام یا کسی تمغے کیلئے اپنی جان قربان نہیں کرتے بلکہ شمع حق کے پروانے تو صرف راہ ِ حق میں اللہ کی رضا اور اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ شہیدوں کے معاملے پر باہم دست و گریباں ہونے والوں کو چاہیے کہ کچھ اور نہیں تو کم از کم وہ واقعہ کربلا سے ہی کوئی سبق حاصل کرلیں۔ خدا کرے کہ ایسے لوگ راہ حق کے ایک سچے شہیدؓ سے ہی جان جانِ آفرین کے سپرد کرنے کا اصل مقصد اور حقیقی درس سیکھ لیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں