خبر بنائیں لیکن خبر نہ بنیں!

یہ جنوری 2009ء کی بات ہے، فلسطین ایک مرتبہ پھر سلگ رہا تھا، غزہ پر قیامت ڈھاتے ڈھاتے یہودیوں کو تین ہفتے ہوچلے تھے، اسرائیلی طیارے کھلے عام بمباری کررہے تھے، انسانی خون بے دردی سے بہایا جارہا تھا اور معصوم بچوں کے جسموں کے لوتھڑے فضاء میں بکھر رہے تھے۔ غزہ میں خوراک کی کمی سے صورتحال انتہائی تشویشناک ہوچکی تھی ، زخمیوں کو دوائی تو کجا ابتدائی طبی امداد تک نہیں مل پا رہی تھی اور انسانی بحران مسلسل شدت اختیار کرتا چلا جارہا تھا۔ غزہ کے وار تھیٹر میں کام کرنے والی برطانوی فلاحی تنظیموں کے گروپ ڈزاسٹر ایمرجنسی کمیٹی ( ڈی ای سی) کوغزہ کی مسلسل بگڑتی صورتحال سے جنم لینے والی سنگینی کا بخوبی ادراک تھا،اسی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے گرپ نے غزہ میں اسرائیلی حملے کا شکار ہونے والوں کی مدد کیلئے اپیل نشر کرانے کیلئے میڈیا ہاؤسز سے رابطہ کیا تو غزہ میں سب سے زیادہ فعال برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپیل نشر کرنے سے انکار کردیا۔ بی بی سی کے انکار کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، جس پر بی بی سی کو لگ بھگ گیارہ ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں، جن میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ بی بی سی اسرائیل نواز مفادات کا طرف دار ہے،لیکن بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل مارک تھامسن نے یہ الزام قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اُن کی کارپوریشن کا یہ فرض ہے کہ وہ غزہ کی کوریج ''متوازن اور غیر جانبدار‘‘ طورپر کرے۔
ایک نظر دیکھنے میں یہ بات انتہائی غیر انسانی اور غیر اخلاقی معلوم ہوتی ہے اور فلسطین کاز کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کیلئے اُس وقت یہ بات مزید جذباتی قسم کا معاملہ بھی بن جاتی ہے جب 
بی بی سی جیسا بڑا ادارہ فلسطینیوں کی اپیل نشر کرنے سے انکار کردے۔ اس انکار پر یقینا یہ الزام لگایا جاسکتا ہے کہ بی بی سی کے کرتا دھرتا افراد نے اپنے ادارے میں صیہونی مفادات کو نقصان سے بچانے کیلئے فلسطینیوں کی اپیل مسترد کی، کہنے کو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بی بی سی نے بالواسطہ طور پر اسرائیل فلسطین تنازع میں فریق بن کر دراصل فلسطین کے کاز کو نقصان پہنچایا۔ مطالبہ کرنے والے تو یہ مطالبہ بھی کرسکتے ہیں کہ اہلِ غزہ کی اپیل مسترد کیے جانے کے بعد تمام اسلامی دنیا کو بی بی سی کا بائیکاٹ کردینا چاہیے تھا۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے زخمی اور معذور افراد کی مدد کیلئے بی بی سی جیسے ادارے نے اپیل نشر کرنے سے انکار کرکے اپنی کریڈیبلٹی کو نقصان پہنچایا۔ اِن تمام الزامات کے باوجود اگر قدرے ٹھنڈے دماغ سے سوچا جائے تو معلوم ہوگا کہ بی بی سی پر لگائے جانے والے اِن الزامات میں اتنی ہی حقیقت تھی، جتنی الزامات میں سنجیدگی پائی جاتی تھی۔ الزامات کے برعکس حقیقت میں بی بی سی نے ناصرف یہ کہ ایک تنازع میں ''فریق‘‘ بننے سے بچ کر اپنی کریڈیبلٹی کوبرقرار رکھا، بلکہ بنظر غائر فلسطینیوں کی مدد کی۔ بالفرض اگر بی بی سی یہ اپیل نشر کردیتا تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اُس کا نتیجہ کیا نکلتا۔یقینی طور پر اسرائیل فورا سے پہلے غزہ اور اپنے علاقوں میں کام کرنے والے کارپوریشن کے رپورٹرز اور عملے کو نکال دیتا اور یوں اسرائیلی بربریت کے بارے میں وہ تھوڑا بہت سچ بھی سامنے نہ آپاتا، جو اُس وقت تک دنیا کو پتہ چل رہا تھا۔ اس اپیل کے برعکس اسی ادارے نے دنیا کو یہ بھی بتایا کہ صحافیوں کو متنازع امور کے بارے میں شامل تمام فریقین کی کس طرح صحیح صحیح عکاسی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر ایک اسرائیلی فوجی نے سفید کپڑا لہرانے کے باوجود ایک بوڑھی فلسطینی عورت کو گولی ماردی جس کے پوتے کو اسرائیلی فوجی نے اپاہج بنادیا تھا۔ کارپوریشن نے اس واقعے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ناصرف دو عینی شاہدین کا حوالہ دیا بلکہ اس واقعہ پر اسرائیلی فوج کا ردعمل جاننے کی کوشش بھی کی جس پر اسرائیلی دفاعی افواج کے ترجمان نے کہا کہ معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہے۔
غیرجانبدارانہ، آزادانہ اور معروضی صحافت کیا ہے؟ میڈیا میں یہ سوال ہمیشہ سے درپیش رہا ہے لیکن ابھی رواں ماہ کے آغاز میں پاکستانی انگریزی اخبار کے نمائندہ کی تہلکہ خیز سٹوری سے پاکستان میں یہ سوال ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آیا ہے۔یقینا یہ کوئی آسان کام نہیں کہ کسی واقعے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے رپورٹر اُس سے لا تعلق رہے اور اُس کا اثر نہ لے۔ صحافی اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں، تاہم رپورٹرز کو بھی اپنے کام سے مکمل انصاف کرنے کیلئے خود پر مکمل قابو رکھنا چاہیے اور خبر میں کسی بھی طور اپنی خواہش یا جانبداری کا عنصر شامل نہیں کرنا چاہیے۔ وار زون کی کوریج ہو یا یا کسی بھی قسم کے متنازع ، مبہم اور غیر واضح امور کی خبر دینا مقصود ہو تو ہر صحافی اور ہر صحافتی ادارے کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ اپنی خبرکی بناوٹ اور کوریج کوطے شدہ معروضی پیمانوں کے اندر رکھے اور خبر اور کوریج میں توازن اور غیرجانبداری کے عناصر سے پہلو تہی نہ کرے۔ ہر صحافی کو اپنے ضمیر کی بات ماننی چاہیے لیکن اس کے ساتھ اپنا پیشہ ورانہ فرض بھی نبھانا چاہیے یعنی سچ کی رپورٹنگ کرنی چاہیے۔حقائق کے بارے میں معلومات اکٹھی اور ان کی تصدیق کرنے کے بعد صحافی کو ان کے مطالب کی ایماندارانہ اور قابلِ اعتماد تصویر پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔رپورٹنگ کے دوران تمام متعلقہ ماخذات کا احاطہ کرنا ہی وہ طرزِ فکر ہے جو صحافی کی ساکھ کو برقرار رکھتی ہے۔
انگریزی اخبار کے نمائندے کی خبر پر یہ الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ رپورٹر اور اُن کے ادارے نے خبر شائع کرکے قومی اور ملکی مفادات کو نقصان پہنچایا۔ ہم اگر فرض کرلیں کہ واقعی ایسا ہی ہوا ہے تو کیا یہ بھی غلط ہے کہ اِس کی ذمہ داری خود الزام لگانے والوں پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ مقتدر حلقوں کی جانب سے جہاں یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ پاکستانی میڈیا کا کچھ حصہ خبریں دیتے ہوئے ملکی مفادات کا خیال نہیں رکھتا تو وہیں مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ مقتدر حلقے آج تک قومی اور ملکی مفادات کی ایسی درست اور واضح تعریف نہیں کرسکے، جسے صحافی ''ریڈلائن‘‘ قرار دے کر اُسے چھونے کی کوشش نہ کریں۔ 
قارئین کرام!! دلائل مقتدر حلقوں کے پاس بھی ہوتے ہیں اور خبر شائع کرنے والے اداروں کے پاس بھی لیکن اس کے باوجود یہ بات بھی درست ہے کہ ہر خبر شائع یا نشر کرنے کیلئے نہیں ہوتی! ٹھیک دو سال پہلے پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے آخری دنوں میں سات محرم الحرام کو عمران خان کا نکاح ریحام خان کے ساتھ ہوا، جس کی خبر اِس کالم نگار کو اگلے روز مل گئی۔ یہ خبر گزشتہ ادارے کے ایڈیٹر کے ساتھ ''شیئر‘‘ کی تو ادارے نے عمران خان کے نکاح کی کاپی مانگ لی، جو ظاہر ہے اُس وقت دستیاب نہ تھی۔ اپنے سورس پر مکمل یقین کے باوجود کالم نگار نے خبر شائع کرنے پر زور نہ دیا کیونکہ میرے خیال میں سب سے اہم بات یہی تھی کہ مجھے اس خبر کا پتہ تھا اور میں نے یہ خبر ادارے کے ساتھ شیئر کردی تھی۔ اس خبر کا سکوپ ریکارڈ پر رکھنے کیلئے یہی خبر میں نے ''کوڈ ورڈز‘‘ میں سوشل میڈیا پر لکھ دی اور جب شادی کی خبر خود عمران خان اور ریحام کی جانب سے منظر عام پر آئی تو یہ ''کوڈ ورڈز‘‘ کھول دیے۔ اگر رپورٹرز کو یہ بات سمجھ آجائے کہ ہر خبر شائع کرنے کیلئے نہیں ہوتی تو وہ خبر بنانے کے ساتھ ساتھ خود بھی خبر بننے سے بچ سکتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں