گوادر پورٹ، خواب حقیقت بن گیا!

نائن الیون کے واقعہ کے بعد بالعموم اور سانحہ لال مسجد کے بعد بالخصوص پاکستان کے اندر دہشت گردی کی جو لہر شروع ہوئی، وہ آنے والے سالوں میں انتہائی تباہ کن ثابت ہوئی۔ انفراسٹرکچر کی تباہی کے علاوہ دہشت گردی کی یہ لہر ہزاروں پاکستانیوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی شہادت کا سبب بھی بنی۔ دہشت گردی کی اس لہر کے اثرات کم کرنے میں ایک دہائی صرف ہو گئی۔ اِن حالات میں تین برس پہلے جنرل راحیل شریف نے افواج پاکستان میں آرمی چیف کا منصب سنبھالا تو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ''ضربِ عضب‘‘ کے نام سے پوری قوت اور جرات سے شروع کیے جانے والے آپریشن کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے۔ دوسری جانب دہشت گردوں اور اُن کے بیرونی سرپرستوں اور سہولت کاروں نے اپنی ''سرمایہ کاری‘‘ ڈوبتی دیکھی تو بجھتی شمع کی طرح بھڑک اُٹھے۔ اسی دوران 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں اے پی ایس کا سانحہ پیش آ گیا، جس نے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کا بیانیہ یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اس بیانیہ کی کوکھ سے ''نیشنل ایکشن پلان‘‘ نے جنم لیا، جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کے مقدمے فوجی عدالتوں میں چلائے گئے اور دہشت گردوں کو پھانسیوں کا پر لٹکایا گیا۔ اس کے علاوہ کالعدم جماعتوں اور ملکی مفاد کے منافی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی مالی معاونت کرنے والوں کو بھی پکڑا جانے لگا۔ اِس آپریشن کے دوران ہزاروں دہشت گرد انجام کو پہنچے، دہشت گردوں کی کمین گاہیں ختم کر دی گئیں اور دہشت گردوں کے درمیان قائم رابطے کی کڑیاں کاٹ دی گئیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قبائلی علاقوں اور بالخصوص کراچی کو ایک مرتبہ پھر پُرامن بنانے میں بہت مدد ملی۔
آپریشن ضرب عضب کے بعض نکات پر عمل درآمد کے نتیجے میں بلاشبہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی، اس کے باوجود دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نیشنل ایکشن پلان کوئی ایک دو نکات پر نہیں بلکہ پورے بیس نکات پر مشتمل تھا۔ مثال کے طور پر نیشنل ایکشن پلان میں سیاسی و مذہبی جماعتوں سے عسکری ونگز کے خاتمہ اور نیکٹا کو مضبوط و موثر بنانے کا عزم کیا گیا تھا۔ نفرت انگیز تقاریر و مواد کے خلاف مکمل کارروائی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کالعدم تنظیموں کو کسی دوسرے نام سے بھی کام کرنے سے روکنے، مذہبی منافرت پھیلانے کے خلاف سخت اقدامات کرنے اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہی خصوصی کاؤنٹر ٹیررازم فورس کا قیام اور تعیناتی عمل میں لانے، دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطہ بندی کا اہتمام کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دہشت گرد تنظیموں اور ان کے نظریات کی تشہیر پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔ دہشتگردوں کے مواصلاتی نظام کو ختم کرنے اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشتگردوں اور اُن کے نظریات کے فروغ پر مکمل پابندی کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے اور بلوچستان کے تمام سٹیک ہولڈرز سے سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے لیے جامع پالیسی بنانے کے علاوہ صوبائی انٹیلی جنس اداروں کو دہشتگردوں کے مواصلاتی رابطوں تک رسائی دینے اور انسداد دہشتگردی کے اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے فوجداری نظام میں اصلاحات کا عمل تیز کرنے کا بھی فیصلہ ہوا تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ ان نکات میں سے کچھ پر تو سو فیصد عمل ہوا، کچھ نکات پر کم اور کچھ نکات پر زیادہ‘ لیکن ایسا تمام کے تمام نکات پر سو فیصد عملدرآمد نہ ہو سکا، جس کے منفی نتائج بعد میں قوم کو بھگتنا پڑے۔
نیشنل ایکشن پلان کے تمام کے تمام نکات پر سو فیصد عملدرآمد نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گردوں کو کمزور تو کر دیا گیا، لیکن دہشت گردی کا سو فیصد خاتمہ نہ ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ ماہ پہلے ملک میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر شروع ہو گئی، جس کا مرکز پنجاب، سندھ یا خیبر پختونخوا کی بجائے بلوچستان تھا۔ دہشت گردی کی اِس لہر میں پہلے اگست میں کوئٹہ میں ہسپتال میں وکلا پر خود کش حملہ کیا گیا، جس میں متعد وکلا سمیت ستر سے زیادہ افراد شہید ہو گئے، جس کے بعد اکتوبر میں کوئٹہ میں ہی پولیس اکیڈمی پر دہشت گردوں کے حملے میں ساٹھ سے زیادہ پولیس جوان جاں بحق ہو گئے‘ اور اب دہشت گردوں نے بلوچستان کے علاقے حب میں شاہ نورانی کے مزار پر زائرین کو نشانہ بنایا ہے۔ اس خود کش حملے میں چوّن افراد لقمہ اجل بن گئے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر دراصل سی پیک کو ناکام کرنے اور گوادر بندرگاہ کو باضابطہ طور پر فعال بنانے سے روکنے کے لئے تھی، لیکن دہشت گردی کی ان تمام وارداتوں کے باوجود جب گوادر پورٹ کے باقاعدہ اور باضابطہ فعال ہونے کی تقریب کامیابی سے منعقد ہو گئی‘ تو پاکستان کے ازلی دشمن نے لائن آف کنٹرول پر توپوں کے دھانے کھول دیے، جس کے نتیجے میں سات فوجی جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
سی پیک کے تاج میں ہیرے کی طرح جگمگانے والی گوادر بندرگاہ سے چین کا پہلا تجارتی قافلہ روانہ ہونے کے بعد اب بھارت سرکار کو راتوں کو نیند نجانے کیسے آتی ہو گی؟ شاید یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں سے سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے عزائم میں ناکام ہونے کے بعد اب بھارت نے اپنے جیسے عزائم رکھنے والے دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر نئی کھچڑی پکانے کا فیصلہ کیا ہے اور اِسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر اسرائیلی صدر بھی بھارت جا پہنچے ہیں۔ وہاں پہنچتے ہی اسرائیلی صدر باقاعدہ کھل کر سامنے آ گئے اور بول اُٹھے کہ بھارت اور اسرائیل کو اپنے تعلقات اب چھپا کر نہیں رکھنے چاہئیں۔ 
قارئین کرام!! بھارت کو معلوم ہے کہ پاکستان اپنے جیو سٹریٹیجک مقام گوادر کو اب جیو اکنامک حب بنانے جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت کبھی پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں سے پاکستان کو سی پیک منصوبے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے‘ تو کبھی سرحدوں پر چھیڑ خانی کرکے اپنے مذموم مقاصد پورے کرنا چاہتا ہے۔ سی پیک کو متنازع بنانے کے لئے دشمن نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو استعمال کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی، لیکن بھارت سیاسی جماعتوں کے ''راستے‘‘ سے بھی سی پیک کو روکنے میں ناکام رہا ہے‘ اور آئندہ بھی ناکام ہی رہے گا۔ بھارت سمیت سی پیک کے دیگر دشمنوں کی حالیہ ناکامی کے بعد پاکستان اور چین کو اب اقتصادی راہداری کے تمام منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ دشمن کی مسلسل نظریں اس منصوبے کو ناکام بنانے پر لگی ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے دشمن دراصل پاکستان اور چین کے مشترکہ دشمن ہیں۔ گوادر بندرگاہ فعال ہونے کے بعد بھی پاکستان اور چین کے یہ اذلی دشمن یقینا آرام سے نہیں بیٹھیں گے، اس لیے پاکستان اور چین کو پہلے سے بھی زیادہ چوکنا اور ہوشیار ہو کر رہنا پڑے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں