یہ ڈھلتے نومبر کی ایک روشن صبح تھی، راولپنڈی کا پرانا ہاکی اسٹیڈیم لوگوں سے کھچا کھچ بھر چکا تھا، لیکن اسٹیڈیم میں ہاکی کا کوئی میچ نہیں ہورہا تھا بلکہ فوجی بینڈ کی دل موہ لینے والی دھنوں میں فوجی کمان کی تبدیلی کی پروقار تقریب منعقد ہونے جارہی تھی۔ فوجی کمان کی تبدیلی کی اِس تقریب میں پاک فوج کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسروں کی بڑی تعداد جمع تھی۔بھرپور انتظار کے بعد بالآخر وہ موقع آگیا جب پاک فوج کی اہم روایتوں میں سے سب سے خوبصورت روایت کا دوبارہ احیاء ہونے جارہا تھا۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف گراؤنڈ میں مخصوص جگہ پہنچے اور طاقت کی علامت ملاکا کین نامی چھڑی اٹھاکر پورے وقار کے ساتھ جنرل قمر جاوید باجوہ کو تھما دی۔ جنرل راحیل شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ''گڈ لک جنرل‘‘ کہا اور اِس کے ساتھ ہی خود سابق آرمی چیفس کی صف میں شامل ہوگئے۔تقریب میں سبکدوش ہونے والے جنرل راحیل شریف اور کمان سنبھالنے والے نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کورس میٹ اور دوست احباب بھی موجود تھے، جن میں سے جنرل راحیل کے دوست احباب کے دل اگرچہ دکھی تھے، لیکن انہیں خوشی تھی کہ جنرل راحیل شریف نے جو اپنے دور میں فیصلے اور جو اقدامات کیے، وہ نہ صرف پوری فوج کے مفاد میں تھے بلکہ اِس سے فوج کی تکریم میں بھی اضافہ ہوا۔ اِسی تقریب میں موجود نئے آرمی چیف کے62 ویں لانگ کورس کے ساتھی خاصے خوش تھے۔ تقریب کے اختتام پر جب نئے آرمی چیف مہمانوں سے ملاقات کررہے تھے تو ایل او سی کی صورتحال سے متعلق کالم نگار کے پوچھے گئے سوال پر جنرل قمر جاوید باجوہ مسکرائے، سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور بولے '' بیٹا! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ایل او سی پر صورتحال جلد ٹھیک ہوجائے گی!‘‘۔
بہرحال زیر نظر کالم کا مقصد جنرل راحیل کے دور کا جائزہ لینا ہے۔ بطور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دور ایک بھرپور دور تھا۔ انہوں نے بے شمار کامیابیاں بھی سمیٹیں اور انہیں لاتعداد چیلنجز بھی درپیش رہے۔ جنرل راحیل شریف پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ اپنے فرائض میں جتے رہے لیکن بہت سے بدخواہوں کو جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ اس حوالے سے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی اتنی افواہیں اڑائی گئیں کہ سال کے آغاز پر جنرل راحیل کو بیان جاری کرکے خود اِن افواہوں کی تردید کرنا پڑی، لیکن اس کے باوجود گزشتہ ایک سال سے بالخصوص مخصوص لابی اس حوالے سے اپنے ''کام‘‘ میں بلا روک ٹوک مصروف عمل رہی اور انہوں نے ایک دن کا بھی ناغہ نہیں کیا۔حتیٰ کہ جنرل راحیل کے آخری دن تک کبھی توسیع کی افواہیں آتی رہیں تو کبھی جنرل ر احیل کو فیلڈ مارشل بنائے جانے کی خبریں
گردش کرنا شروع کردیتیں۔ آخری ہفتے میں تو حد ہی ہوگئی، جب جنرل راحیل شریف کو 34 ملکی اتحاد کی فوج کا سربراہ بنانے کی خبریں بھی پوری طرح گرم ہوگئیں، لیکن دوسری جانب جنرل راحیل شریف پوری طرح پرسکون اور مطمئن تھے۔ دوست احباب نے جب بھی جنرل راحیل شریف سے ریٹائرمنٹ اور توسیع کے حوالے سے سوال کیا تو ان کا ہمیشہ کہنا تھا کہ ''تم تو مجھے جانتے ہو کہ میں کیا کروں گا!‘‘۔ جنرل راحیل شریف نے 29 نومبر کو ملا کا کین جنرل قمر باجوہ کے سپرد کرکے فوجی کمان ہی نئے آرمی چیف کے حوالے نہیں کی بلکہ فوج کی اعلیٰ روایات کو بھی ازسرنو پروان چڑھایا ہے۔ وہ اعلیٰ روایات جن کے مطابق اس دنیا میں کوئی ناگزیر نہیں ہوتا، کیونکہ جنرل راحیل شریف کو بھی یقین تھا کہ جو لوگ خود کو ناگزیر سمجھتے تھے بلا شبہ اُن لوگوں سے دنیا کے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔ یہ درست بھی ہے کہ اگر پرانے لوگ خود کو ناگزیر سمجھتے ہوئے وقت پر اپنی جگہ نہیں چھوڑیں گے تو پھر اُن کی جگہ نئے اور بہتر لوگ کیسے آئیں گے؟
جنرل راحیل شریف کا بطور آرمی چیف تقرر ہی شاندار نہ تھا بلکہ انہوں نے پورے تین سال تک خود کو ایک شاندار سپاہی بھی ثابت کیا۔ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف سخت موقف اپنایا جس کے لیے ان کا کردار مثبت اور اہم رہا ۔ آپریشن ضرب عضب سے لے کر قومی ایکشن پلان تک اور قبائلی علاقہ جات میں امن سے لے کر کراچی کو دوبارہ عروس البلاد بنانے تک جنرل راحیل شریف نے بے شمار کامیابیاں سمیٹیں۔تاہم جہاں قبائلی علاقوں اور کراچی میں سکیورٹی کی صورت حال قدرے بہتر ہوئی ہے وہیں بلوچستان میں بدامنی اور سرحدوں کو محفوظ بنانے کے سلسلے میں جنرل راحیل شریف کو بھرپور کامیابی نہ مل سکی۔
ماضی کے ''تجربات‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے، جنرل راحیل شریف کے دور میں بھی فوج کے ٹیک اوور کا خدشہ بھی سیاست دانوں کے ذہنوں میں موجود رہا، لیکن اپنے دور میں جنرل راحیل شریف نے فوج کو سیاسی امور میں مداخلت سے بڑی حد تک دور رکھا، جس کی ایک مثال دھرنوں میں مداخلت کے بھرپور مواقع ہونے کے باوجود جنرل راحیل شریف نے امپائر بن کر انگلی اٹھانے سے انکار کردیا تھا، لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جنرل راحیل شریف کے دور میں کچھ ایسے اقدامات بھی کئے گئے جن سے یہ تاثر گہرا ہوا کہ جب فوج پس منظر میں رہتے ہوئے سیاسی ڈوریں ہلاکر ہی اپنے تمام مقاصد حاصل کررہی ہے تو پھر اُسے براہ راست سیاسی حکومت کا تختہ الٹنے کی کیا ضرورت ہے؟ اسی لیے بعض تجزیہ نگار تنقید کرتے ہیں کہ ''جنرل راحیل شریف کی جانب سے بدعنوانی کے خاتمہ سے متعلق بیانات آنا یا جی ایچ کیو کی جانب سے سیاسی حالات پر پریس ریلیز کے ذریعے تبصرہ کرنا کھلے عام عوام سے متعلق پالیسی میں دخل اندازی دینے کے مترادف ہے‘‘۔مثال یہ دی گئی کہ جنرل راحیل شریف کے سیاسی کردار کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی الوداعی ملاقاتوں میں بھی وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سے ملتے ہیں، کراچی میں وہ کاروباری برادری کے ساتھ ملے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھلا ایک چیف آف آرمی اسٹاف کاروباری شخصیات سے ملاقات میں کیا کہتے ہوں گے؟
قارئین کرام!! جنرل راحیل شریف نے اپنے دور میں کامیابیاں زیادہ حاصل کیں یا ناکامیاں؟ اِس کا فیصلہ تو مورخ ہی کرے گا، لیکن ایک بات کا فیصلہ آج کا قاری خود بھی کرسکتا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ سیاست اور اسٹیبلشمنٹ میں اب نئی روایات جنم لے رہی ہیں۔ اگر یہ روایات جنم نہ لے رہی ہوتیں تو جنرل راحیل شریف کیلئے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرح مدت ملازمت میں ایک دو بار توسیع لیناکچھ ایسا مشکل بھی نہ تھا، لیکن ایک پروقار تقریب میں پاک فوج کے سربراہ کا منصب اور ملک کی جیوگرافیائی سرحدوں کی نگرانی کی ذمہ داریاں جنرل قمر جاوید باجوہ کو سونپ کر جن روایات کا دوبارہ احیاء کیا گیا ہے، وہ قابل تعریف بھی ہیں اور آئندہ کیلئے قابل تقلید روایات بھی ہیں۔