انصاف کا ڈھکوسلا

تاریخ میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی قوم نے انصاف کے ماحول کے بغیر ترقی کی ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ معاشرے ظلم کے ماحول میں پرورش نہیں پاتے بلکہ جیسے جیسے انصاف پر برگ و بار آنے لگتے ہیں تو معاشروں میں بھی نمو کی نئی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں۔ اس لیے انصاف کسی قوم یا ریاست کیلئے کتنا ضروری ہوتا ہے یا یہ کہ کسی حکمران کیلئے منصف مزاج ہونا کتنا لازمی ہوتا ہے؟ اس ضمن میں دو رائے ہوہی نہیں سکتیں۔ یقینا فلاحی معاشروں کی بنیاد انصاف کی اینٹوں سے ہی تعمیر ہوتی ہے، اور جب اہل اقتدار انصاف کے ترازو میں ڈنڈی نہیں مارتے تو معاشرے بھی انصاف کی راہ پر چلتے ہوئے نمو پانے لگتے ہیں اور ایسے معاشرے قوموں کے مستقبل کیلئے بیش بہا خزانہ ثابت ہوتے ہیں، لیکن اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ فلاحی معاشروں نے کامیاب ریاستیں قائم کرنا ہوں تو انصاف کے ساتھ ساتھ دیگر کئی عناصر بھی لازمی ہوجاتے ہیں۔اگر یہ عناصر ناپید ہوں تو قوموں اور ملکوں کا مقدر جلد یا بدیر تاریخ کا کوڑا دان ہی ٹھہرتا ہے، ورنہ قومیں عظیم قومیں اور ملک عظیم طاقتوں کی صورت میں ابھرتے ہیں۔
عظیم قوموں کی تشکیل کیلئے ناگزیر یہ اجزا ء کیا ہیں؟ مثال کے طور پر معاشی لحاظ سے مستحکم اور مضبوط ہونا، عسکری لحاظ سے ناقابل تسخیر قوت ہونا، اخلاقی لحاظ سے برتر اور آئین وقانون کا پابند ہونااور بروقت فیصلوں میں بے رحم ہوناہی وہ عناصر ہیںجو قوموں کی عمر صدیوں اور ہزاریوں تک بڑھا دیتے ہیںلیکن کتنے افسوس کا 
مقام ہے کہ اِن عناصر میں بیشتر عناصرہمیں چھو کر بھی نہیں گزرے اور جن عناصر کو ہم اختیار کرنے کی کوشش کررہے ہیںاُس کے راستے میں بھی رکاوٹیں ڈالنے کی مسلسل کوششیں ہورہی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جب ملک میں ہر طرف عسکریت پسندی کا دور دورہ اور دہشت گردی کا عفریت اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھاتو آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے اس عفریت پر بڑی حد تک قابو پانے کی کوشش کی گئی، لیکن کچھ سیاسی عناصر جو بعض صوبوں میں اہل اقتدار کی صفوں میں شامل ہیں، انہوں نے بہانے بہانے سے اس کوشش کو ناکام بنانے کی کوشش کی، اس طرح بحیثیت مجموعی ہم عسکریت پسندی کا خاتمہ کرکے اپنی عسکری برتری کا مکمل اور جامع ثبوت نہ دے پائے۔ اسی طرح بالخصوص اگر گزشتہ ڈھائی برسوں کی سیاست میں دھرنوں، جلسوں، جلوسوں اور بڑی سیاسی جماعتوں کے طرم خان قیادت اور حالات کی نبض پڑھنے کی صلاحیت سے عاری سیاستدانوں کے بیانات کا جائزہ لیں تو بھی ہم خود کو اخلاقی لحاظ سے اعلیٰ اقدار اور روایات کا امین ثابت نہ کرسکے۔ منزل کے تعین اور منزل تک رسائی کیلئے جو فیصلے ہوئے اُن پر بھی کبھی اعتراضات کی بھرمار کی گئی اور کبھی اُن پر عملدرآمد کرنے کرنے کی اہلیت ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ 
معاشی ترقی کیلئے جو اقدامات کیے گئے، ان میں ممد و معاون بننے کی بجائے اُن فیصلوں کا تمسخر اُڑایا گیا کہ ملک و قوم سڑکوں اور موٹر ویز سے ترقی نہیں کرتے۔اسی طرح انصاف کا نام تو بہت لیا گیا، لیکن انصاف کے راستے میں ہم خود ہی سب سے بڑی رکاوٹ بن کر بیٹھ گئے۔ اب حال یہ ہے کہ معاشرے میں کہیں انصاف کی رمق دکھائی دیتی ہے۔
ہم دنیا میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے خواب بھی بہت دیکھتے ہیں اور دعوے بھی بہت کرتے ہیں، لیکن ایک قوم اور ملک کے طور پر ترقی کیلئے جو لوازمات ضروری ہیں، ان کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے۔پاکستان کے سیاسی اکھاڑے پر نظر دوڑائیں تو ایک جانب پاکستان تحریک انصاف کی صورت میں ''حقیقی‘‘ اپوزیشن ہونے کی دعویدار سیاسی جماعت صرف انصاف کو ہی ترقی کا اصل راز سمجھتی ہے لیکن انصاف کے حصول کیلئے جس خلوص کی ضرورت ہے، اُس سے مکمل طور پر عاری ہے۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو نیشنل ایکشن پلان جیسے بڑے فیصلوں پر بلاچون و چرا عمل کرکے اعلیٰ اخلاقی روایات کا مظاہرہ کرنے کی بجائے دودھ تو دیتی ہے لیکن ہر بار اِس دودھ میں مینگنیاں ڈالنا بالکل بھی نہیں بھولتی، تیسری جانب حکومت ہے جو ملک کو اِس سیاسی بھنور سے نکالنا تو چاہتی ہے، لیکن بعض بزرجمہرفیصلہ سازی سے معاملات کو کسی کنارے لگانے کی بجائے اپنے گرما گرم بیانات کے ذریعے سیاسی ماحول کو مزید گرم کیے جاتے ہیں۔ 
مسلم لیگ ن کی حکومت نے لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد کے بعد اب ملتان میں بھی میٹرو بس سروس کا آغاز کردیا ہے۔میٹرو بس سروس کافائدہ صرف وہی جان سکتا ہے، جس کے پاس اپنی گاڑی نہ ہوں اور اسے روزانہ اپنے کام دھندے پر پہنچنے کیلئے بیس تیس کلومیٹر کے عام سفر کی خواری برداشت کرنا پڑتی ہو، لیکن تحریک انصاف کے بزرجمہر ہوئی جہازوں پر سفر کرتے ہیں اور عوام کو ملنے والی سہولت کا مذاق بھی اڑاتے ہیں کہ قومیں اور ملک سڑکوں ، موٹر ویز اور میٹرو بس سروس سے ترقی نہیں کرتی۔ کیا ہم توقع کرسکتے ہیں کہ اپنی ایک ایک کروڑ روپے کی ٹھنڈی گاڑیوں میں محفوظ اور آرام دہ سفر کرنے والے اپنے بیانات کو اس طرح تبدیل کرلیں کہ '' قومیں اور ملک ''صرف‘‘ سڑکوں ، موٹر ویز اور میٹرو بس سروس سے ترقی نہیں کرتی‘‘۔ اپنے جملے میں جس دن اپوزیشن نے ''صرف‘‘ کا لفظ شامل کرلیا تو اپوزیشن اپوزیشن نہیں رہے گی بلکہ مستقبل کی حکومت بھی بن سکتی ہے، ورنہ عوامی سہولیات سے فائدہ اٹھانے والے عام لوگ جانتے ہیں ، آنے والے انتخابات میں تعمیر کی بجائے تنقید آگے بڑھنے کی خواہش رکھنے والوں کو کیا اور کیسے جواب دینا ہے؟
قارئین کرام!! ہمارے سیاسی قبیلے کے اہم جزو جسے اپوزیشن کہا جاتا ہے، اُسے آنے والے انتخابات کی زیادہ فکر شاید اس لیے بھی نہیں ہے کہ موجودہ اپوزیشن کے اکثر رہنماء گزشتہ دو دہائیوں سے کسی ناں کسی حکومت میں اور کسی ناں کسی حوالے سے اقتدار کی گردشوں میں ہی گھومتے رہے ہیں۔ اپوزیشن کے یہ ''سابق حکمران‘‘ یقینا وہ تاریخی سبق بھول چکے ہیں کہ اگر کسی چیز کے اجزائے ترکیبی ہی پورے نہ ہوں تو پھر کہاں کی ترقی اور کہاں کے فلاحی معاشرے؟ جب ایک ترقی یافتہ معاشرے کے اجزائے ترکیبی موجو نہ ہوں یا اجزائے ترکیبی کے حصول کیلئے پالیسی بنانے کی جانب کوئی قدم ہی نہ اٹھایا جارہا ہو تو جدید دنیا کے ساتھ ساتھ چلنے اورایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرنے کا دعویٰ محض ڈرامہ ثابت ہوتا ہے۔ صرف کرپشن کرپشن کا شور مچانے سے ہزاروں برس پر محیط معاشرہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس خواہش کی تکمیل کیلئے فیصلے اور اقدامات بھی اتنے ہی واضح، موثر اور عملی ہونے چاہئیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو ٹھیک ورنہ انصاف کا شور ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں