اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں اس وقت جتنے بھی جوہری ہتھیار موجود ہیں، اُن کی تعداد کو دیکھا جائے دنیا ہر وقت جنگ کے دھانے پر کھڑی نظر آتی ہے ۔ حیران کن طور پر سب سے زیادہ جوہری ہتھیار بھی اُن ممالک کے پاس ہیں، جنہیں دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کی بجائے دنیا میں قیام امن کی کوشش کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر سب سے زیادہ جوہری ہتھیار اور جوہری مواد رکھنے والے ممالک میں روس اور امریکہ بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔دونوں ممالک کے پاس 5 سے 6 ہزار تک ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ روس اور امریکہ کے بعد فرانس کے پاس 300، چین کے پاس 250، برطانیہ کے پاس 225 اور اسرائیل کے پاس 80 ایٹمی ہتھیاربتائے جاتے ہیں۔ بلاشبہ بھارت بھی ایک ایٹمی قوت ہے، جس کے پاس ایک سو کے لگ بھگ جوہری ہتھیار موجود ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ بھارت طویل فاصلے تک مار کرنے والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل اگنی پنجم کا تجربہ بھی کرچکا ہے۔ 17 میٹر لمبے، دو میٹر چوڑے اور50 ٹن وزنی اِس میزائل میں جوہری اسلحے کو لے جانے کی صلاحیت ہے اور یہ چین کے انتہائی شمال میں واقع علاقوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ماہرین کے مطابق اگنی پانچ ساخت کا میزائل ایک ٹن سے زیادہ وزن کا جوہری ہتھیار لے جانے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔اس کے علاوہ بھارت کے پاس 700 کلومیٹر تک نشانہ لگانے والے اگنی-1، 2000 کلومیٹر تک مار کرنے کے قابل اگنی-2، 2500 کلومیٹر کے فاصلے تک مار کرنے والے اگنی-3 اور 3500 کلومیٹر فاصلے تک مار کرنے والے اگنی-4 میزائل بھی ہیں، لیکن اس کے باوجود بھارت کا جنگی جنون ختم ہونے میں نہیں آرہا۔اِسی جنگی جنون کی وجہ سے بھارت سالانہ اسلحے کی بھٹی میں اربوں ڈالر جھونک رہا ہے اور یوں خطے میں اسلحہ کی خوفناک دوڑ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اِس پاگلوں جیسی دوڑ میں بھارت کی خواہش اور کوشش صرف اتنی سی ہے کسی طرح جوہری ٹیکنالوجی میں پاکستان سے آگے نکل جائے۔ ایک سو ایٹمی ہتھیار رکھنے کے باوجود بھارت کا احساس کمتری اس لیے بھی ختم نہیں ہورہا کہ پاکستان کے پاس ناصرف بھارت سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں، بلکہ پاکستان چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں سے بھی لیس ہے اور پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی بھی بھارت سے کئی گنا بہتر ہے۔
اسلحے کی اِس بھرمار کے باوجود بھارت کا جنگی جنون کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ جنگی ہتھیار خریدنے والے ملکوں میں ہوتا ہے اور آئندہ برسوں میں بھی بھارت اپنی فوج کیلئے بڑے پیمانے پر ہتھیار اور جنگی ساز و سامان خریدنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ انڈیا چونکہ مقامی سطح پر ہتھیار بنانے میں خود کفیل نہیں ہے اس لیے بیرونی ممالک سے ہتھیار خریدنا اس کی ایک ''مجبوری‘‘ بھی ہے، جس کیلئے بھارت نے ایک مرتبہ پھر اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کردیا ہے۔ بھارت نے اس برس کے اپنے سالانہ بجٹ میں ملک کے دفاعی اخراجات میں 10 فیصد سے زیادہ کا اضافہ کیا ہے، جو بھارتی سرکار کے مجموعی اخراجات کا تقریباً 13 فیصد بنتا ہے۔اس برس بھارتی حکومت نے دفاعی اخراجات کے لیے دو لاکھ 74 ہزار کروڑ بھارتی روپے مختص کیے ہیں، جس میں سے 68400 کروڑ بھارتی روپے ساز و سامان خریدنے کے لیے رکھے گئے ہیں۔
اس قدر بھاری دفاعی اخراجات کے باوجود خود بھارتی دفاعی ماہرین متفق ہیں کہ مستقبل میں بھارت کے دفاعی اخراجات میں مزید اضافے کا امکان ہے، جس کیلئے بھارتی دفاعی تجزیہ کار بڑی عجیب منطق پیش کرتے ہیں کہ ''چونکہ امریکہ کا سالانہ دفاعی بجٹ تقریباً 600 ارب ڈالر اور چین کا تقریباً 100 ارب ڈالر ہے، تو اِن ممالک کے مقابلے میں انڈیا کا دفاعی بجٹ تقریباً 45 ارب ڈالر ہے جو اسٹریٹیجک نقطۂ نظر سے کوئی بہت زیادہ بجٹ نہیں ہے‘‘۔ سابق بھارتی کموڈور ادے بھاسکر کے مطابق ''انڈیا کی اسٹریٹیجک صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تو چین ہے، جس سے سال 62ء میں بھارت کی جنگ ہوئی، چین کے ساتھ بھارت کے سرحدی اختلافات ہیں اور اس کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ دوسری جانب پاکستان ہے جس کے ساتھ چار جنگیں ہو چکی ہیں، تو اس پس منظر میں اسے کئی طرح کے چیلنجز اور مسائل کا سامنا ہے۔ مستقبل میں انڈیا کے دفاعی اخراجات میں مزید اضافے کا امکان ہے اور جلد ہی یہ اخراجات 45ارب ڈالر سے بڑھ کر 50 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے‘‘۔چونکہ ادے بھاسکر ایک سابق بھارتی کموڈور ہیں، اس لیے بھاسکر کے اِس تجزیے کو بھارت کے اندرونی خوف کا واضح ثبوت سمجھا جاسکتا ہے، اور اِسی خوف پر قابو پانے کیلئے بھارت اپنے دفاعی اخراجات میں مسلسل اضافہ کیے چلا جارہا ہے۔
بھارت خطے میں بالا دستی قائم کرنے کے خبط میں مبتلا ہے ، اِسی خبط کی وجہ سے ایک جانب بھارت پاکستان سے ٹیکنالوجی کی دوڑ میں آگے بڑھنا چاہتا ہے تو دوسری جانب پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے تخریبی کارروائیوں میں بھی ملوث ہے۔ بھارت نے عرصہ دراز سے پاکستان کی سرحدوں پر بلااشتعال فائرنگ، بلوچستان میں مداخلت اور خودکش دھماکے کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔بھارت عرصہ دراز سے پاکستان کے 8 ''کمزور‘‘ حصوں سے گھس کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے ''کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ پر عمل کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے، لیکن بھارت کو ابھی تک اس سلسلے میں منہ کی کھانا پڑی ہے۔ بھارتی فوج نے اپنی جنتا کو رام کرنے کیلئے گزشتہ برس پاکستانی حدود میں سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا دعویٰ کیا، جو بعد میں ڈرامہ ثابت ہوا۔ اس مبینہ ''سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کو بھارتی فوج ثابت کرسکی نہ ہی بھارتی حکومت اس حوالے سے کسی جگہ کوئی ثبوت پیش کرسکی۔ جواب میں بھارتی حکومت اور بھارتی فوج کو عالمی سطح پر جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا۔بھارت پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک تو نہیں کرسکا، لیکن پاکستان میں لسانی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے پیچھے البتہ بھارت ہی کارفرما رہا ہے، جس کا ایک واضح ثبوت کلبھوش یادیو کی صورت میں پاکستان کے پاس موجود ہے۔ بھارت پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے جو استعمال کرتا ہے ، ان کی وجہ سے بھی دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے۔
قارئین کرام!! کیا اِس میں کوئی شبہ ہوسکتا ہے کہ دنیامیں سب سے زیادہ پائی جانے والی خواہش اس وقت ''قیامِ امن‘‘ کے خواہش کے سوا کوئی دوسری نہیں ہوسکتی۔ چند ہزار افراد کے سوا دنیا کا ہر شخص چاہتا ہے کہ دنیا میں امن ہو، لیکن اس کے باوجود المیہ تو یہ ہے کہ دنیا میں جنگ کی خواہش رکھنے والوں کی تعداد کروڑوں اور لاکھوں میں بھی نہیں بلکہ محض ہزاروں میں ہوگی اور یہ ہزاروں افراد سات ارب سے زائد آبادی کی امن کی خواہش کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں، کیا دنیا کے سات ارب انسانوں کی خواہش کا احترام نہیں کیا جانا چاہیے؟اگر اِس خواہش کا احترام کیا جانا چاہیے تو اس کیلئے بھارت کو خطے میں اسلحے کی دوڑ سے روکنا ہوگا۔