یہ سی پیک کی صدی ہے!

2017ء شروع ہونے کے بعد جنوری ہی ختم نہیں ہوا بلکہ ایک دوسرے مہینے کا پہلا ہفتہ بھی گزر چکا ہے اور آج آٹھویں دن کا یہ روشن سورج بھی شام کو افق کے پار غائب ہوجائے گا۔ بہار سر پر آن پہنچی ہے اور باغوں میں پھول مہکنے کا موسم آن پہنچا ہے۔ خزاں گزرنے اور بہار شروع ہونے پر یہ جائزہ لینا مناسب ہوگا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران اِس دنیا نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ بالخصوص پاکستان نے گزشتہ ایک برس میں کیا حاصل کیا اور کیا کیا ضائع کردیا؟ جائزہ لیا جائے تو خودبخود پتہ چل جائے گا دنیا نے اِس دوران ترقی کی کتنی منازل طے کیں یا کس قدر مزید پستی میں دھنس گئی اور یہ بھی کہ اِس دوران جنوبی ایشیائی خطے میں مختلف شعبوں میں کتنی بہتر آئی یا پاکستان پستی، تنزلی اور ابتری کی کتنی اور گہرائی میں چلا گیا؟اگر تفصیلی جائزہ لیا جائے تو گزشتہ برس گوادر بندر گاہ کے باقاعدہ فعال ہونے کے بعد جنوبی ایشیا میں اہم ترین اسٹریٹیجک پیش رفت ہوئی اور پاک چین اقتصادی راہداری سے تجارت شروع ہونے کے بعد دور دراز کے علاقوں نے بھی سی پیک سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان سے رابطے شروع کردیے، لیکن اگر کسی کو سامنے کی یہ حقیقت سمجھ میں نہیں آئی تو وہ بھارت ہے، جس نے پہلے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کے ذریعے ناصرف سی پیک کو ناکام بنانے کی کوشش کی بلکہ جنوبی ایشیا کے امن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی سازش بھی کی اور پھر بھارتی خفیہ ادارہ ''را‘‘ کے حاظر سروس افسر کلبوشن یادیو کی صورت میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد بھی اپنی ''حرکتوں‘‘ سے باز نہیں آیا اور دور مار اگنی میزائل کا تجربہ کرکے خطے میں دوبارہ ہتھیاروں کی دوڑ شروع کردی۔
بھارت کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں جنگوں سے انسانوں کے ساتھ ساتھ ماحولیات کو بھی براہ راست ہی نقصان نہیں پہنچ رہا بلکہ بالواسطہ طور پر بھی ماحولیات نشانے پر ہے۔ مثال کے طور پر ایک رپورٹ کے مطابق ''میانمار، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لائبیریا،سینی گال، کولمبیا اور کانگو میں جاری خانہ جنگی میں جنگلات کی لکڑی سے حاصل ہونے والے وسائل کا استعمال کیا جارہا ہے۔ انگولا کی جنگ میں تیل اور ہیرے، میانمار کی جنگ میں لکڑی، ٹن، قیمتی پتھر اور افیون ، کمبوڈیا کی خانہ جنگی میں لکڑی اور ہیرے جبکہ کولمبیا کی جنگ میں تیل، سونا، کوکا، لکڑی اور زمرد بیچ کر جنگی اخراجات پورے کیے جارہے ہیں۔ اسی طرح کانگوکی خانہ جنگی میں تانبہ، کولٹن، ہیرے، سونا ،کوبالٹ، لکڑی ، تیل اور ٹن، آئیوری کوسٹ میں ہیرے اورکوکا ،آچے (انڈونیشیا) کی لڑائی میںلکڑی اور قدرتی گیس جبکہ ویسٹ پاپوا (انڈونیشیا)میں تانبے ، سونا اور لکڑی کے قومی معدنی وسائل پر ہاتھ صاف کیا جارہا ہے۔لائبیریا میں جنگجو لکڑی ، ہیرے ، لوہا ، پام آئل، کوکا، کافی، ربڑ اور سونا، پیرومیں کوکا ، سینی گال میں لکڑی اور کاجو، سری لیون میں ہیرے، کو کا اور کافی، صومالیہ میں مچھلی اور چار کول جبکہ سوڈان میں تیل بیچ کر اسلحہ خریدتے ہیں اور لڑنے والوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کرتے ہیں، یوں قدرتی و معدنی ذخائر بھی چند لوگوں کی ہفت کشور کشائی کی ہوس کا نشانہ بن کر ختم ہورہے ہیں‘‘۔
گزشتہ چھ دہائیوں میں مختلف ممالک کی حدود میں ہو نے والے تنازعات کا تعلق قدرتی وسائل سے ہے جبکہ 1990ء سے اب تک 18متشدد تنازعات میں قدرتی وسائل کا بہت نقصان ہوچکا ہے۔ جنگوں، لڑائیوں اور متشدد تنازعات کے دوران ارادی طور پر دریائی پانی چھوڑ کر سیلابوں سے دشمن کی زرخیز زمینوں کو بنجر اور تباہ کردینے سے بھی ماحولیات کو نقصان پہنچتا ہے۔ جنگوں میں بڑے پیمانے پر معدنی ایندھن(فوسل فیول) استعمال ہوتا ہے، یہ ایندھن بھی ماحولیات کیلئے انتہائی تباہ کن ہوتا ہے کیونکہ معدنی ایندھن گوبل وارمنگ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے تو یہاں تک متنبہ کردیا ہے کہ کچھ ممالک میں ایک تہائی بیماریاں اور دنیا بھر میں ہر سال ایک کروڑ30لاکھ اموات کو 
صرف ماحول بہتر بنا کر روکا جاسکتا ہے، یوں یہ کہنا کچھ بے جا نہ ہوگا کہ جنگوں سے انسان اور ماحولیات یکساں نقصان پہنچا ہے۔ماہرین کے نزدیک جنگوں کو روکنا اور تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنا ازحد ضروری ہے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو بصورت دیگر آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر آئندہ دہائیوں میں قدرتی وسائل پر قبضے کے لیے تنازعات میں اضافے کا خدشہ رہے گا۔ اس کے علاوہ موسمی تبدیلیوں کے نتیجے میں پانی کی فراہمی متاثر ہونے، خوراک کی کمی اور بیماریوں میں اضافے سے موجودہ تنازعات کے بڑھنے اور نئے تنازعات پیدا ہونے کے بھی خدشات ہیں۔سیاچن میں موجود بھارتی افواج کی بڑی تعداد میں موجودگی کی وجہ سے خود پاکستان اس قسم کے سنگین خطرات سے دوچار ہے، پاکستان اس حوالے سے سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا مطالبہ بھی کرچکا ہے، لیکن بھارت کو شاید آنے والے خطرات کا اندازہ نہیں ہے۔
چار دہائی پہلے ''سقوطِ سیگان‘‘ میں ہزیمت سے دوچار ہوکر امریکہ ویتنام سے اپنی جارحیت کے خلاف جنگ ہار گیا تھا، لیکن امریکہ کے کیمیائی حملوں (ہربی سائیڈز کی بمباری) کے بعد متاثرہ علاقوں میں سبزے کی ایک کونپل پھوٹ سکی نہ ہی ویتنام سے امریکہ کی وحشت ناکیوں کے اثرات ختم ہوسکے۔ اس وقت بھی دنیا کے مختلف ممالک میں جتنے متشدد تنازعات جاری ہیں،اگر ان تنازعات کو حل کرنے کی راہ نہ نکالی گئی تو خدشہ ہے کہ آنے والی چند دہائیوں میں دنیا میں موجود گھنے جنگل ، اونچے اونچے پہاڑ، سر سبز مرغزار، اٹھلاتی بل کھاتی ندیاں ،شور مچاتے آبشار اور گنگناتے جھرنے دم توڑ دیں گے۔ اگر دنیا سے جنگوں اور ہتھیاروں کے خاتمے کیلئے سنجیدہ قدم نہ اٹھایا گیا تو پھر دن بھر کی جسمانی تھکن اور ذہنی کلفتوں کو دور کرنے کا بڑا ذریعہ قسم ہا قسم کے چرند و درند، خوبصورت رنگوں اور دلنشین آوازوں والے پرند، سرسبز و شاداب درخت اور رنگ برنگے پھول اپنی آخری سانسیں لے لیں گے۔ اس لیے اگر بین الاقوامی برادری نے وسائل غصب اور ہڑپ کرنے کی ہوس میں ڈوبی عالمی طاقتوں کے سیاہ عزائم کے راستے میں بند نہ باندھا تو سمجھیں کہ یہ دنیا تباہ ہوجائے گی۔
قارئین کرام!گیارہ ماہ بعد سال 2017 ء بھی ختم ہوجائے گا اور جب 2018ء کا پہلا سورج طلوع ہوگا تو سی پیک بھی پوری طرح انگڑائی لے رہا ہوگااور چند ممالک کے سوا پوری دنیا ''سی پیک‘‘ کی اداؤں پر واری قربان جارہی ہوگی۔ بھارت اگر یہ بات خود نہ سمجھے تو عالمی برادری کو آگے بڑھ کو بھارت کو یہ باتیں سمجھانی چاہئیں، کیونکہ پاکستان، چین، بنگلہ دیش، مالدیپ، بھوٹان، سری لنکا اور نیپال جیسے پڑوسیوں کے ساتھ جنگوں اور سرحدی تنازعات کی دہائیوں پر محیط تاریخ رکھنے کے باوجود بھارت یہ سمجھ نہیں پایا ،یہ صدی جنگوں کی صدی نہیں ہے بلکہ یہ صدی سی پیک کی صدی ہے۔ جی ہاں سی پیک کی صدی!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں