حلال کیا ہے؟ اور حرام کیا ہے؟ اِن دونوں میں تمیز کچھ ایسی ناممکن بھی نہیں ہے۔سواد اعظم کے مطابق حرام وہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والے کو سزا ملے اور اس کے تارک کو ثواب ملے، کیونکہ وہ حرام کو ترک کرنے میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت ''نہی عن المنکر‘‘ پر عمل کرتا ہے اور حلال وہ ہے جس پر عمل کرنے میں کوئی گناہ نہ ہو اسی طرح اس کے ترک کرنے پر گناہ نہ ہو، لیکن اگر اس حلال فعل کو سرانجام دینے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر تقویت حاصل کرنا مقصد ہو تو اس نیت سے اسے ثواب ملے گا۔کسی چیز کو حلال اور حرام کرنا اللہ تعالی کا اختیار ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ بعض اشیاء کو حلال کر لیا، اور کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ بعض اشیاء کو حرام کردیا اور اسی طرح کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایسی عبادات ایجاد کر لیں جو اللہ نے مشروع نہیں کیں بلکہ ان سے روکا ہے۔
حلال اور حرام کے مختلف ذرائع میں ایک ذریعہ دولت کا حصول بھی ہے۔دولت کمانا کوئی بری بات ہے نہ ہی کوئی گناہ ہے، دولت کمانا انسانی جبلت میں شامل ہے ، انسان ساری عمر دولت کماتا ہے اور خوب کماتا ہے، حتیٰ کہ انسان اتنی دولت کمالیتا ہے کہ پھر اُسے دولت کا شمار کرنے کیلئے بھی دوسروں کا ''محتاج‘‘ ہونا پڑتا ہے، لیکن بات وہی ہے کہ دولت کمانے کا راستہ حلال ہے یا حرام؟حرام راستے سے کمائی ہوئی دولت آپ بینک میں جمع کراتے ہیں اور پھر بینک اپنی مرضی سے اِس میں منافع (سود کاتڑکا)لگاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ دولت کہیں نصف دہائی گزارنے کے بعد جاکر دوگنا ہوتی لیکن حلال راستے سے کمائی ہوئی دولت میں منافع اللہ خود لگاتا ہے ۔یوں اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جو کام مالک کائنات خود کرتا ہو، کیا اس کا شمار ممکن ہوسکتا ہے، یقینا اُس کا شمار ممکن نہیں ہو سکتا، لیکن اس کے باوجود ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں جو دولت کمانے کے لیے حرام راستے کا انتخاب ہی کرتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں بھی ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے، جنہوں نے حرام کو حلال پر ترجیح دی اور پھر ہمیشہ کے لیے ماضی کا حصہ بن کر رہ گئے، اُنہیں معاشرے میں کوئی عزت ملی نہ ہی سیاست میں وہ کبھی ابھر سکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے آخری دور حکومت میں مرکز اور دیگر صوبوں میںجو لوٹ مار کی گئی، اس کی داستانیں سن کر انسان کی روح تک کانپ اٹھتی ہے۔سربراہ خاندان سمیت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر خاندان اور ان کے حواری عام آدمی کی طرح اپنی زندگی کا آغاز کرنے کے باوجود اب عامیوں سے ''ترقی‘‘ پاکر خاص الخواص بن چکے ہیں اور خاص بھی ایسے کہ جو پیپلز پارٹی کبھی غریب کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ لگاکر پہلے وجود اور پھر اقتدار میں آئی، اپنے چار ادوار میں غریب کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھیننے کا باعث بن چکی ہے، غریبوں کے برعکس پیپلز پارٹی کے مصاحبین اور وزراء کا ایک ٹولہ ہے کہ اُن کی لوٹی ہوئی دولت کا کوئی انت ہے نہ کوئی شمار ہے!کہیں اِن ''جیالے‘‘ وزراء کے گھروں سے اکٹھے دو دو ارب روپے کی نقدی ملتی ہے تو کہیں اِن کے لاکرز میں پڑے اربوں روپے کے کرنسی نوٹ جل کر راکھ ہوجائیں تو اِنہیں پھر بھی کوئی پروا یا پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ اِن کی دولت کی حد تو یہ ہے کہ اربوں روپے کی کرنسی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل
کرنے کیلئے بھی اِنہیں ''لانچوں‘‘ کی ضروت پیش آتی ہے،اور تو اور عام لوگوں سے ہی رقم لوٹ کر اتنا بھی نہیں کیا جارہا کہ غریبوں کیلئے دو وقت کی روٹی جتنی رقم ہی چھوڑ دی جائے۔احتساب کرنے والے ادارے اگر مکمل غیر جانبداری کے ساتھ تحقیق کریں تو ایسی ایسی ہوشربا کہانیاں سامنے آئیں گی کہ لوگ دیوانوں کی طرح اپنے گریباں چاک کرکے گلیوں میں نکل آئیں گے۔ مسلسل لٹنے والے غریب تو ابھی تک جان ہی نہیں پائے کہ اُن کے ساتھ بالخصوص گزشتہ تین دہائیوں کھیل کیا کھیلا جاتا رہا ہے؟
دوسری جانب فاربز کے مطابق دنیا کے پہلے سو امیر ترین افراد میں سے تمام افراد وہ ہیں، جنہیں یہ دولت کسی وراثت یا ترکے میں نہیں ملی تھی بلکہ انہوں نے یہ اربوں کھربوں ڈالراپنی عمر بھر کی محنت اور ریاضت سے کمائے۔اِنہی ارب پتیوں میں ایک عرب شہزادہ بھی شامل ہے۔یہ سعودی شہزادہ ولید بن ولید ہے۔ شہزادہ طلال کی اِس بے بہا دولت کی بھی یہی ''خوبی‘‘ہے کہ سعودی شہزادہ ہونے کے باوجود یہ دولت اسے وراثت میں نہیں ملی بلکہ 1979ء میں کاروباری دنیا میں آنے کے بعد شہزادہ ولید بن طلال نے یہ ساری دولت اپنی محنت سے کمائی۔ مکمل شاہانہ اور انتہائی پرتعیش زندگی گزارنے کی وجہ سے دنیا بھر میں شہزادہ ولید بن طلال کی مثالیں دی جاتی تھیں لیکن دو برس پہلے شہزادہ ولید بن طلال نے بتیس ارب ڈالر کی اپنی ساری دولت خیرات کرنے کا اعلان کیا تو ہر کسی نے انگلیاں دانتوں میں دبالیں۔
اپنی محنت شاقہ سے بتیس ارب ڈالر کمانے والے شہزادہ ولید بن طلال کی جانب سے ساری دولت غریبوں کیلئے وقف کرنے کا فیصلہ بالخصوص اْن لوگوں کیلئے دھچکا ثابت ہوا جنہوں نے لوگوں کا لہو نچور کر اُس میں سے ڈالر، پونڈ، ریال، دینار اور روپے کشید کیے اور پھر اُس رقم پر سانپ بن کر بیٹھ گئے۔ شہزادے کے فیصلے پر مورخ یقینا لکھے گا کہ ابن طلال نے گزشتہ چار دہائیوں میں جو دولت کمائی وہ غریبوں کے نام کرکے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہنے کا ایسا سودا کیا جس میں ''فائدہ ہی فائدہ‘‘ تھا، لیکن دوسری جانب تاریخ اِس پر بھی یقینا خاموش نہیں رہے گی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ خاندان اور خاندان کے حواریوں نے تین دہائیوں میں پاکستان میں لوٹ کھسوٹ کرکے گھاٹے کا ایسا سودا کیا کہ اب پیپلز پارٹی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کے لیے اُن کے پاس بڑھکوں کے سوا کچھ نہیں رہا۔
قارئین کرام!! افسوس! فاربز میگزین صرف ایسی دولت اور اثاثوں کا شمار رکھتا ہے، جو ڈیکلئیر ہوں، ورنہ اگر فاربز میگزین لوٹی ہوئی دولت سے دنیا کے دولت مند افراد کی فہرست مرتب کرتا تو یقینا پہلے ٹاپ ٹین امیر افراد کا تعلق پاکستان سے ہی ہوتا اور اْن میں سے اکثر اقتدار کے مزے لوٹنے والے سابق صدر، سابق وزرائے اعظم اور پیپلز پارٹی کے سابق وزراء ہی ہوتے!لیکن اِن تمام تر تلخ حقائق کے باوجود اگر سابق صدر اپنے ''تجربے‘‘ اور اپنے صاحبزادے کے ''جوش‘‘ کو بروئے کار لاکر دوبارہ اقتدار میں آنے کی امید رکھتے ہیں تو انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستانیوں کی قسمت اب اتنی خراب بھی نہیں ہے۔
اُس نے پانچ ہزار کا گھپلا کیا تھا۔اگلے دن پولیس موبائل گھر پہنچ گئی۔