الیکشن 2013ء: نتائج پر سوالیہ نشان

11مئی کے انتخابی نتائج نے ایک بار پھر1997ء کے انتخابات کی یاد تازہ کر دی ہے۔ حالیہ انتخابات 1997ء کے انتخابات کا ری پلے تھا یا جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے بھوت ریفرنڈم کا؟ حیران کن بات یہ ہے کہ بے شمار حلقوںمیںجو ووٹ ڈالے گئے ان کی تعداد انتخابی فہرستوں کے اعدادو شمار سے بھی تجاوز کر گئی۔ ایسا بھی ہوا کہ ابتدائی نتائج کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار خاطر خواہ لیڈ حاصل کرتے ہوئے نظر آئے مگر رات گئے یہ امیدوار ہا رگئے۔ یہ بات ابھی پرانی نہیں ہوئی کہ 1997ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو صرف 17نشستیں حاصل ہوئیں تھیں۔ بہرحال‘ پیپلز پارٹی کی قیادت نے سخت تحفظات کے باوجود انتخابی نتائج کو تسلیم کر لیا ہے تاکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی عظیم قربانی کی بدولت وجود میں آنے والی جمہوریت جو ارتقائی عمل سے گزر کر مستحکم ہو رہی ہے ‘کا تسلسل برقرار رہے۔ کچھ بقراط فرماتے ہیں کہ خراب طرز حکومت‘ کرپشن، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی سے بیزار عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی سے انتقام لیا۔ اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ کیا خراب حکمرانی‘ کرپشن اور مہنگائی کا عمل صرف وفاق اور خیبر پختونخوا میں تھا؟ حضور! پنجاب میں تو پانچ سال خادمِ اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت رہی۔ چلیں مان لیا کہ صوبائی خودمختاری ملنے سے قبل بجلی کی پیداوار کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی مگر ڈھائی سال کے دوران خادم اعلیٰ کی پنجاب پر مکمل حکمرانی رہی‘ انہوں نے وفاق سے ٹکرائو کی پالیسی اختیار کیے رکھی۔ سوال یہ ہے کہ جب خادمِ اعلیٰ میٹرو بس سروس کے معاہدے کر سکتے تھے تو کیا بجلی کی پیداوار کے منصوبے کے لیے کوئی کام نہیں کر سکتے تھے؟ حضور والا! وفاقی حکومت اور خیبر پختونخواکی حکومت تو پانچ سال کے دوران ایسے عناصر کے خلاف بر سرِ پیکار رہی جو ریاست کی رِ ٹ کو چیلنج کرکے قانون کو تسلیم کرنے سے انکار اور شدتِ پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانی زندگیوں سے گھنائونے کھیل کھیلتے رہے۔ وہ سکولوں‘ بازاروں اور عبادت گاہوں کو راکھ کی ڈھیر بنانے پر تُلے ہوئے تھے۔ ایسے حالات میں شدت پسندوں کی مزاحمت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو شکست ہو جائے اور جیت اُن کی ہو جو سوات سے قومی پرچم اتارنے، ریاست کے قانون کو تسلیم نہ کرنے والوں کا اپنا قرار دے کر ملالہ یوسفزئی پر حملہ کرنے والوں کی وکالت کرتے ہوں تو اُس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی قابل ِ سزا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خوف اوردہشت کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی انتخابی مہم چلانے سے دور رہے۔ اگر شدت پسندوں اور وطن کے پرچم کی توہین کرنے والوں کی مزاحمت کرنے والوں‘ اپنی نوجوان بیٹی کی لاش کندھے پر اٹھانے والوں اور بشیر بلو ر کے خاندان کو انتخابات میں شکست ہو تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُن کے دامن میں نفرت کے کانٹے ہیں؛ بلکہ اُن کی شکست کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ 11مئی کے انتخابات کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی کے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ قصور وار عوام نہیں کیوں کہ ووٹ دینے کے بعد اُن کو گھر تو جانا ہی تھا۔ انتخابی مہم کے آخری دن صبح پاکستان پیپلز پارٹی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی جو پنجاب اسمبلی کے حلقے 200 کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے‘ کو کارنر میٹنگ سے اغوا کیا گیا۔ دہشت گردوں نے اُن کے محافظ کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس طرح جنوبی پنجاب کے عوام کو پیغام دیا گیا کہ اُن کا حشر دیکھ کر ووٹ کا استعمال کیا جائے۔ با لکل اسی طرح کراچی میں ایم کیو ایم کے دفاتر پر حملے کئے گئے۔ کیونکہ کراچی شہری علاقہ ہے اس لئے ایم کیو ایم اور اس کے حامیوں کے درمیان رابطہ برقرار رہا۔ اگر عمران خان نے خیبرپختونخوا میں بشیر بلور کے بھائی کو شکست دی تو اسے پی ٹی آئی کی مقبولیت قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر معیار یہی ہے تو پھر کراچی میں ایم کیو ایم کی مقبولیت کو چیلنج کرنے کی اخلاقی وجہ کیا ہے؟ بالکل اسی طرح سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے فتح حاصل کی ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور اس کے اتحادی عوام کا فیصلہ تسلیم کرنے کے بجائے دھاندلی کا شور و غوغا کرتے نظر آر ہے ہیں‘ حالانکہ کراچی سے مسلم لیگ(ن) کے حکیم بلوچ اور فنکشنل لیگ کے صدر الدین شاہ راشدی کس طرح انتخاب جیتے؟ دھاندلی کی غضب کہانی ہے۔ رہی بات لاڑکانہ کی تو وہاں ووٹروں نے ممتاز بھٹو اور پی پی پی سے بغاوت کرنے والی سرکردہ شخصیات کو ان کی اوقات یاد دلوا دی ہے جبکہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے نتائج قطعی طور پر متنازع بن چکے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں