"AMK" (space) message & send to 7575

صحافت کے بادشاہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بادشاہ سلامت کی سواری کسی جنگل سے گزر رہی تھی۔ ایک دیہاتی نے دیکھا تو بھاگتا ہوا قافلے کے سامنے آ گیا اور مد د کے لیے پکارنا شروع کر دیا۔ بادشاہ سلامت نے محافظوںکو حکم دیا کہ اسے میرے حضور پیش کیا جائے۔ دیہاتی نے بادشاہ سلامت سے التجا کی: بادشاہ سلامت میں بہت غریب آدمی ہوں۔ سردی بہت ہے اپنی گرم چادر مجھے عنایت فرما دیں۔ بادشاہ کو ترس آ گیا۔ اس نے اپنی چادر اسے دے دی اور قافلہ اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔ دیہاتی سوچ میں پڑ گیا اور اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ میں بھی کتنا بے وقوف ہوں‘ بادشاہ سلامت سے گھوڑا مانگ لیا ہوتا تو مجھے گھوڑا مل جاتا اور میرے عیش ہو جاتے۔ بادشاہ کا قافلہ ابھی زیادہ دور نہیں گیا تھا۔ اس نے دوڑ لگا دی اور دوبارہ بھاگتا ہوا بادشاہ کی سواری کے سامنے جا پہنچا۔ بادشاہ نے دوبارہ اسے اپنے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا۔ بادشاہ نے دیہاتی سے پوچھا: اب کیا ہے؟ وہ دیہاتی بولا: بادشاہ سلامت میرے پاس گھوڑا نہیں ہے۔ آپ اپنا گھوڑا مجھے عنایت فرما دیں۔ بادشاہ نے گھوڑا دینے کی بجائے اسے ایک زور دار تھپڑ رسید کیا اور ان کی سواری آگے بڑھ گئی۔ بادشاہ کا تھپڑ کھانے کے بعد وہ دیہاتی رونے کی بجائے مسکرانے لگا۔ وہاں موجود ایک شخص یہ سارا واقعہ دیکھ رہا تھا‘ اس نے دیہاتی سے پوچھا: تم تھپڑ کھا کر بھی اتنا خوش کیوں ہو؟ اس پر وہ دیہاتی بولا: اگر آج یہ تھپڑ مجھے نہ پڑتا تو میں ساری عمر اپنے آپ کو کوستا رہتا کہ میں نے ایک نادر موقع اپنی بے وقوفی سے ضائع کر دیا کہ اگر آج میں بادشاہ سے چادر کی بجائے گھوڑا مانگ لیتا تو مجھے گھوڑا مل جانا تھا‘ جو میرے زیادہ کام آتا۔ اس کا ساری زندگی مجھے افسوس رہتا۔ تھپڑ کھا کے اب مجھے سکون ہے اور میں خوش ہوں کہ یہ مجھے چادر ہی مل سکتی تھی جو مجھے مل گئی۔ 
یہ واقعہ مجھے دوستوں کی محفل میں ہونے والی ایک گفتگو کے دوران یاد آیا‘ جس میں میرے دوستوں نے مجھ سے کالم نگاری کی فرمائش کی۔ میری طرح کے لاکھوں نیم خواندہ اپنے آپ کو ''مفکر ٹائپ‘‘ سمجھتے ہیں‘ اور ہر مفکر کالم نگار بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ میری ساری عمر درس و تدریس میں گزری ہے مگر پھر بھی اپنا حال تو ایسا ہے جیسے کہ
شیخ محشر میں پہنچے تو اعمال ندارد 
جس مال کے تاجر تھے وہ مال ندارد 
اور میرے جیسے ''مفکر ٹائپ‘‘ سوچتے سوچتے ہی اپنی پوری زندگی گزار دیتے ہیں کہ اگر ہم کالم لکھتے تو ہمارا نام بھی ملک کے معروف کالم نگاروں کی فہرست میں شامل ہوتا۔ مگر ان کے لیے بھی مؤثر علاج وہی ہوتا ہے جو اس بادشاہ سلامت نے دیہاتی کا ساتھ کیا تھا۔
لیکن میرے معاملے میں کچھ مختلف ہوا۔ جس محفل کا میں نے اوپر ذکر کیا‘ اس میں ہم دوستوں میں کسی مسئلے پر زور دار بحث ہو رہی تھی۔ اس مسئلے پر میرا موقف سننے کے بعد شہباز میاں نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ''تسی کالم کیوں نئیں لکھدے‘‘ (آپ کالم لکھنا کیوں شروع نہیں کرتے)۔ میاں کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر ایسا لگا‘ جیسے اس نے یہ فقرہ میرا ''توّا‘‘ لگانے کے لیے بولا ہے۔ میں ہنس پڑا اور بولا ''میری گل چنگی نہیں لگی تے نہ سہی‘ ہن میرا توّا تے نہ لائو‘‘ (میری بات پسند نہیں آئی تو نہ سہی مگر میرا مذاق تو نہ اڑائیں)۔ عدنان فاروق بولا: نہیں نہیں سر جی! میاں شہباز ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ آپ کالم لکھا کریں۔ بات یہاں تک رہتی تو ٹال دیتا مگر جب میرے بچپن کے دوست مستنصر مشتاق سلہری نے‘ جسے ہم مذاق میں ''ممتاز صحافی‘‘ بھی کہتے ہیں‘ نے ان دونوں کی ہاں میں ہاں ملائی اور مجھے مزید ''اُکسایا‘‘ کہ کسی اچھے اخبار میں کالم بھیج دیں ضرور چھپے گا‘ تو میں سوچ میں پڑ گیا۔ کیڑا تو پہلے ہی تھا ۔ اوپر سے دوستوں نے ''چک چکا‘‘ کے کالم لکھنے پر ''اکسایا‘‘۔ میرے اس ''جرم‘‘ میں میرے یہ احباب بھی شامل ہیں۔
دیہاتی کلچر سے واقف اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس طرح کے اکسانے کو ''للکارا مارنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب کسی لڑائی جھگڑے کے واقعہ کی رپورٹ تھانے میں درج کروائی جاتی ہے تو حملہ آور کے ساتھ ساتھ مخالف پارٹی کے کسی بزرگ کا نام بھی ''للکارے‘‘ میں لکھوا دیا جاتا ہے کہ فلاں بابا بھی حملہ آوروں کے ساتھ تھا اور اس نے للکارا تھا ''بچ کے نہ جائے کوئی‘‘ یا ''ٹانگیں توڑ دو ان کی‘‘۔ پھر وہ لکارنے والا بابا بھی ملزم بن جاتا ہے اور اس کے ساتھ بھی قانون دیگر حملہ آور ملزمان جیسا سلوک کرتا ہے۔
لیکن میری قسمت اچھی تھی کہ میں نے دورِ حاضر کے سب سے معتبر ''دنیا میڈیا گروپ‘‘ کا انتخاب کیا۔ چونکہ میں خود بھی دنیا اخبار کا قاری ہوں‘ ویسے بھی اب بندہ تھپڑ کھائے تو کسی بادشاہ سے ہی کھائے ۔ مگر میری خوش قسمتی ہے کہ آگے سے تھپڑ کی بجائے میری حوصلہ افزائی کی گئی اور دنیا اخبار نے میرے ساتھ وہی سلوک کیا جو ہر بڑے ادارے کو کرنا چاہیے۔ ہر کامیاب اور بڑے ادارے کو ایک تربیتی مرکز (Training Institute) کی حیثیت بھی حاصل ہوتی ہے ۔ اس شعبے میں آنے والے نئے اداروں کو انہیں بڑے اداروں سے ماہرین میسر آتے ہیں۔ اس طرح معرض وجود میں آنے والے نئے اداروں کو ان بڑے اداروں سے فیض جاری ہو جاتا ہے۔ یہی خوبی کسی بھی بڑے ادارے کو محترم بناتی ہے اور اسے مزید بڑا ''بادشاہ‘‘ بھی بناتی ہے ۔ ہر شعبے کے بڑے ادارے اپنے شعبے میں نئے آنے والوں کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں اپنے شعبہ میں رجحان ساز (Trend setter) کی حیثیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ یہی ادارے اپنے شعبہ کی اقدار (Values) اور معیارات (Standards) مرتب کرتے ہیں جو اس شعبہ میں نئے آنے والوں کے لیے رہنما اصول قرار پاتے ہیں۔ 
لکھنے والوں کی اور کمال لکھنے والوں کی دنیا اخبار میں کوئی کمی نہیں۔ بلا شبہ اس وقت دورِ حاضر کے معروف اور مؤثر کالم نگار دنیا اخبار سے وابستہ ہیں۔ ان کی تحریروں میں اپنا بے ڈھنگا کالم دیکھ کر میری آنکھیں پُر نم ہو گئیں۔ ''کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا‘‘ ۔ پھر دل ہی دل میں سوچا ''چپ کر جا جب تک میری کم علمی پکڑی نہیں جاتی ایسے ہی چلنے دو‘‘۔ 
دنیا اخبار نے تو بڑے پن کا ثبوت دے دیا کہ ایک نئے لکھنے والے کو موقع فراہم کیا‘ لیکن مجھے ایک بڑی آزمائش میں مبتلا کر دیا ۔ میں کبھی اس اخبار کے معیار پر پورا اتر سکوں گا؟ کیا میں بھی کبھی دلیل کے ساتھ اپنی بات موثر انداز میں کہہ پائوں گا؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس بادشاہ سلامت کی طرح مجھے بھی ایک ''تھپڑ‘‘ رسید کر دیا گیا ہوتا۔ میں ویں مطمئن تے ''بادشاہ ‘‘ وی راضی (میں بھی خوش اور بادشاہ بھی خوش)۔
اوپر سے مزید آزمائش کہ ہر ہفتہ کے روز میرا کالم چھپا کرے گا۔ اب اس '' تھپڑ‘‘ تک قارئین کو مجھے برداشت کرنا پڑے گا۔ عمر کے لحاظ سے نہ سہی مگر اس میدان میں نو وارد کی حیثیت سے تو میں ''چھوٹا‘‘ ہی ہوں بلکہ بہت چھوٹا۔ اور ہر ''چھوٹے‘‘ کو رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہیں تو وہ چھوٹا ہی رہ جاتا ہے۔بقول شاعر:
اب گرے سنگ کہ شیشوں کی ہو بارش فاکرؔ 
اب کفن اوڑھ لیا ہے کوئی افسوس نہیں 
دیہاتی کلچر سے واقف اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس طرح کے اکسانے کو ''للکارا مارنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب کسی لڑائی جھگڑے کے واقعہ کی رپورٹ تھانے میں درج کروائی جاتی ہے تو حملہ آور کے ساتھ ساتھ مخالف پارٹی کے کسی بزرگ کا نام بھی ''للکارے‘‘ میں لکھوا دیا جاتا ہے کہ فلاں بابا بھی حملہ آوروں کے ساتھ تھا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں