"AMK" (space) message & send to 7575

سیانے

اچانک ہوائی جہاز ہچکولے کھانے لگا۔ پائلٹ نے اعلان کیا کہ ہوائی جہاز خراب ہو گیا ہے‘ ابھی تھوڑی دیر بعد گرنے والا ہے۔ جہاز میں پائلٹ سمیت 4 افراد سوار تھے۔ ''ایک بچہ، ایک بزرگ، ایک پائلٹ اور ایک ''سیانا‘‘۔ پائلٹ نے اطلاع دی کہ اس وقت جہاز میں صرف 3 پیراشوٹ ہیں‘ میں اپنا پیراشوٹ لے کر جا رہا ہوں آپ اپنا فیصلہ خود کر لیں۔ اور وہ اپنا پیرا شوٹ لے کر کود گیا۔ 
اب مسئلہ یہ تھا کہ بقایا 3 لوگ تھے اور پیرا شوٹ 2۔ ''سیانا‘‘ بولا: میں بہت عقلمند ہوں دنیا کو میری بہت ضرورت ہے‘ میرا زندہ رہنا نسل انسانی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اور ساتھ ہی پیرا شوٹ اٹھا کر جہاز سے کود گیا۔ 
اب جہاز میں ایک بچہ اور ایک بزرگ بچ گئے۔ بزرگ بولا: بیٹا میں نے تو اپنی زندگی گزار لی۔ یہ پیرا شوٹ تم لے لو اور اپنی جان بچائو۔ وہ بچہ بڑے اطمینان سے بولا: آپ بے فکر رہیں انکل ہم دونوں ہی بچ جائیں گے۔ بزرگ نے حیران ہو کر پوچھا: وہ کیسے؟ بچہ بولا ''وہ سیانے انکل میرا بستہ لے کود گئے ہیں‘‘۔ یہ لطیفہ اس لیے یاد آیا کہ چند روز پہلے میرا ایک دوست کافی سالوں کے بعد امریکہ سے پاکستان آیا ہوا تھا۔ باتوں باتوں میں مَیں نے اس سے پوچھا کہ اتنے سالوں کے بعد آئے ہو‘ پاکستان میں کیا فرق محسوس کیا ہے؟ وہ بولا کہ میں کافی لوگوں سے ملا ہوں‘ ہر بندہ ہی خواہ زندگی کے کسی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو‘ ہر معاملے میں مشورہ دیتا ہے۔ 
عمران خان کو کیا کرنا چاہیے؟ نواز شریف کے لیے بہتر حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ ملک کے معاشی مسائل کیا ہیں؟ ہر ایک کے پاس ان مسائل کا مکمل حل موجود ہے۔ ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قیمت کیسے کنٹرو ل کی جا سکتی ہے؟ قرضو ں میں پھنسی ہوئی ملکی معیشت کو کیسے سنبھالا جا سکتا ہے؟ لاہور قلندر کا کپتان کون ہونا چاہیے؟ ہر کوئی یہ جانتا ہے۔ 
وہ بولا: ایک محفل میں ہم کچھ دوست بیٹھے تھے کہ ایک دوست نے پوچھا: یار اپنی صحت کی سنائو۔ میں نے جواب دیا: پچاس کے بعد صحت کے چھوٹے موٹے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ بلڈ پریشر اور شوگر کی احتیاطی ادویات استعمال کرتا ہوں۔ بس پھر کیا تھا۔ اس محفل میں موجود ہر فرد نے حسب توفیق مجھے ان بیماریوں کے تیر بہدف نسخے بتانا شروع کر دیئے۔ 
ان بیماریوں پر تحقیق جاری ہے مگر تا حال ان کا مکمل و مؤثر علاج دریافت نہیں ہوا مگر یہاں پاکستان میں تقریباً ہر فرد کے پاس ان کا شافی علاج موجود ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے سیانوں کی بھرمار ہے‘ جو اپنے شعبہ کے علاوہ دیگر تمام شعبہ جات کے بھی ماہرین ہیں۔ سیاست کے میدان میں دلچسپی تو کسی حد تک خوش آئند ہے کہ افراد اور معاشرے کو سیاسی معاملات میں لا تعلق نہیں ہونا چاہیے‘ لیکن عملی زندگی کے ہر شعبے میں رائے دینا‘ اور رائے بھی حرف آخر کی طرح اور اگر کوئی دوسرا ان کی رائے سے اختلاف کرے تو پھر تعلقات بچانے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ گفتگو میں اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے جھوٹ، سچ، غصہ اور دھونس کا استعمال۔ شاید اس سے ان کی انا کو تسکین ملتی ہے۔ اپنے آپ کو سیانا ثابت کرنا۔ اپنے آپ کو ''توپ‘‘ چیز سمجھنا‘ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر تصور کرنا۔ یہاں تک تو شاید قابل برداشت ہو‘ مگر دوسروں کو کم عقل اور حقیر ثابت کرنا‘ نفس انسانی کی ایک خطر ناک بیماری ہے۔ یہ خبط عظمت نرگسیت کی نشانی ہے جو کہ تکبر کا ایک اظہار ہے۔ 
تکبر تو اللہ کی شان ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جو صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے ہی مخصوص ہے۔ اس کے بر عکس اللہ کو بندے کی عاجزی پسند ہے۔
ان سیانوں میں کچھ تو وہ ہوتے ہیں جو اپنے شعبۂ زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ کامیابی سونے پہ سہاگہ کا کام کرتی ہے۔ ایسی صورت میں تو اللہ کی پناہ۔ کسی ایک شعبۂ زندگی کے کامیاب لوگ اوپر سے نرگسیت کے مارے ہوئے۔ بس اب عملی زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس پر وہ اپنے آپ کو حتمی اتھارٹی نہ سمجھتے ہوں۔ وہ اچھے ڈاکٹر ہیں تو پھر بس وہ اچھے بزنس مین، ماہر تعمیر، منصوبہ ساز، ماہر معیشت، ماہر قانون دان اور ماہر تعلیم تو ہوں گے ہی۔ 
مجھے نہیں معلوم کہ قیامت والے دن ان تکبر میں مبتلا لوگوں سے کیا سلوک ہو گا‘ انہیں کس درجہ حرارت میں رکھا جائے گا اور کس قسم کا عذاب نازل ہو گا‘ یہ بات تو کوئی عالم دین ہی بتا سکتا ہے۔ بہرحال وہ دنیا میں ہی اپنی اور اپنے متعلقین کی زندگی عذاب بنائے رکھتے ہیں۔ میں تو صرف نفس کی اس بیماری کے ان پر اور ان کے متعلقین پر پڑنے والے ممکنہ اثرات پر ہی اپنی رائے دے سکتا ہوں۔ چونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو بہت با صلاحیت سمجھتے ہیں؛ چنانچہ محسوس کرتے ہیں کہ معاشرہ ان کو جائز مقام نہیں دے رہا۔ اس طرح وہ صرف اس غلط فہمی اور غلط سوچ کی وجہ سے مظلوم بن جاتے ہیں اور خود ترحمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنی ذات کے حوالے سے ایسے لوگ سیکھنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے۔ چونکہ وہ خود اپنے آپ کو ہر شعبۂ زندگی کا ماہر تصور کرتے ہیں اس لیے کسی شعبہ کے ماہر کو ماہر سمجھنا ممکن نہیں رہتا اور ظاہر ہے اگر کوئی ماہر ہی میسر نہ ہو تو بندہ مشورہ کس سے کرے؟ 
ایسے لوگ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ہمیشہ خارجی عوامل اور دوسروں کو گردانتے ہیں اور اس طرح خود احتسابی کا ان کی زندگی میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی۔ کسی ملازمت کے دوران ان کی کارکردگی کی نگرانی پر مامور کوئی افسر ان کی کسی غلطی کی نشاندہی کرے‘ تو وہ غلطی تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اگر بہ امر مجبوری تسلیم کر لیں تو اسے کسی کی سازش قرار دیتے ہیں یا پھر باس ہی ان کی نظر میں کم عقل اور جانبدار قرار پاتا ہے۔ عام زندگی میں ایسے لوگ ہر کسی کو بلا وجہ و بلا ضرورت متاثر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں اور کامیابیوں کا ہر کسی سے تذکرہ کرتے ہیں۔ ان پر ہر کسی کو مرعوب کرنے کی دھن سوار رہتی ہے اور وہ شیخی بگھارتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی اپنے آپ کو بہادر سمجھتا ہے تو وہ ہر کسی کو اپنی بہادری کے قصے سناتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ بہادری ہی بنیادی انسانی خوبی ہوتی ہے۔ جو لو گ ایمانداری سے نوکری کرتے ہیں وہ بات بات میں اپنی ایمانداری کے قصے سناتے ہیں۔ تقریر ہو یا تحریر یہ اپنا سارا زور بیان مدعا بیان کرنے کی بجائے مخاطب کو مرعوب اور متاثر (Impress) کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ بات سمجھانے کی بجائے اپنی علمیت کا رعب جھاڑتے ہیں۔ اردو زبان میں ایسے رویے کے لیے کافی مؤثر الفاظ مستعمل ہیں‘ جیسے تکبر، رعونت‘ زعم، خبط عظمت، احساس برتری، خود پسندی ، خود پرستی اور انا پرستی وغیرہ وغیرہ۔ شاید اس لیے کہ ہمارے ہاں ایسے رویے عام ہیں۔ ایسے کامیاب لوگوں کو اللہ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ کامیابی کی صورت میں اللہ نے ان پر جو رحمت کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ ان کو اعلیٰ ظرف بھی عطا کرے تاکہ وہ اس نعمت اور رحمت کو ہضم کر سکیں اور بد ہضمی کا شکار نہ ہوں اور دوسروں کی رائے کو حقیر نہ سمجھیں۔ اپنے علاوہ بھی دوسروں سے محبت کر سکیں اور اس امکان کو ذہن میں رکھیں کہ وہ بھی انسان ہیں اور انسان سے غلطیاں بھی سر زد ہو جاتی ہیں۔ حقیقت میں تو سیانا وہی ہوتا ہے جو اپنے آپ کو سیانا نہیں سمجھتا۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جس شاخ پر پھل لگتا ہے وہ جھک جایا کرتی ہے۔
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے 
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں