انسان جسم اور روح کا مرکب ہے۔ یہی روح نفس یا شخصیت کہلاتی ہے۔ یہی اصل انسان ہوتا ہے۔ یہ شخصیت نظر نہیں آتی مگر اس کا اظہار اس کے عمل، رویے اور فکر سے ہوتا ہے۔ یہ عمل یا رویہ پسندیدہ اور نا پسندیدہ ہونے کی بنیاد پر کسی بھی فرد کے اچھے یا بُرے ہونے کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے۔ پسندیدہ اور نا پسندیدہ رویہ قدر (Value) کہلاتا ہے۔ ہر معاشرے کی اپنی اقدار (Values) ہوتی ہیں‘ جنہیں اس معاشرہ کا نظامِ اقدار کہا جاتا ہے۔ تعلیم کی بے شمار تعریفوں میں ایک اہم تعریف ''اقدار (Values) کی نسل در نسل منتقلی کا عمل تعلیم کہلاتا ہے‘‘۔ انسان اپنے حیوانی وجود کے تحت خواہشات اور ضروریات رکھتا ہے، ان کی تکمیل چاہتا ہے کیونکہ تعلیم ہی اسے حیوان سے انسان بناتی ہے اور جائز و نا جائز کی تمیز سکھاتی ہے۔ اسی کردار سازی کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء معبوث فرمائے۔
کچھ نا پسندیدہ رویے اور اعمال جرائم قرار پاتے ہیں جن پر سزا دی جاتی ہے۔ جرائم سے ہٹ کر کچھ اعمال کو افراد، معاشرہ بُرا خیال کرتے ہیں۔ یعنی وہ جرائم کے درجے میں تو نہیں آتے لیکن نا پسندیدہ اقدام کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ ان میں سے جو اقدام ہمارے دینی احکامات کے خلاف ہوں، وہ گناہ قرار پاتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے اقدام ایسے ہوتے ہیں‘ جو جرم اور گناہ کے علاوہ بھی نا پسندیدہ قرار پاتے ہیں۔ تعلیم کا مقصد افراد کو جرائم، گناہ اور نا پسندیدہ رویے اور اعمال سے روکنا ہے۔ ایسے اعمال اور رویوں کو منکر سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس طرح کچھ اقدام یا رویے پسندیدہ یا معروف قرار پاتے ہیں۔ تعلیم کا مقصد افرادِ معاشرہ کو ان معروف یا پسندیدہ رویوں کی تربیت دینا ہے تاکہ معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کے شر سے محفوظ رہ سکیں اور معاشرے میں پیار محبت، خلوص، ہمدردی‘ امن، انصاف اور خوبصورتی قائم رہے۔
کسی بھی قوم کے نظامِ اقدار کا انحصار اس قوم کے نظریات پر ہوتا ہے۔ کچھ اعمال تو پوری دنیا کی تمام اقوام کے لیے منکر ہیں جیسا کہ چوری کرنا، قتلِ نا حق، حق تلفی، جھوٹ، دھوکہ دہی اور کسی دوسرے کی جان و مال اور عزت کے خلاف کوئی اقدام وغیرہ وغیرہ ہر معاشرے میں نا پسندیدہ یا منکر قرار پاتا ہے۔ اسی طرح کچھ اعمال یا رویے پوری دنیا کے لیے معروف ہیں۔ بالعموم اقدار معاشرے کے مذہبی نظریات پر مبنی ہوتی ہیں یعنی کوئی بھی قوم اپنے اچھے یا بُرے اور منکر یا معروف کا تعین اپنی مذہبی فکر سے کرتی ہے اور جن اقوام میں مذہب کا تصور موجود نہیں یا وہ اپنے آپ کو مذہبی احکامات کا پابند نہیں سمجھتیں‘ وہ اپنی تاریخ، روایات، ثقافت اور اپنی اجتماعی دانش سے معروف اور منکر کا تعین کرتی ہیں۔
کوئی معاشرہ نظام اقدار کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔ یہ اقدار (Values) وقت کے ساتھ ساتھ اور دیگر معاشروں کے ساتھ تعامل سے تبدیل بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ایک صدی پہلے بزرگوں کے سامنے بغیر سر ڈھانپے جانا معیوب سمجھا جاتا تھا اور آج کل اس کے بر عکس ہے۔ اسی طرح کسی خوشی کے موقع پر بالعموم اور سالگرہ کے دن بالخصوص کیک کاٹنا آج کل معروف ہے۔ عید جیسے مذہبی تہوار پر بھی اب لوگ ایک دوسرے کو کیک کا تحفہ دیتے ہیں۔ یہ معروف ہمارے ہاں اہل مغرب سے تعامل سے آیا۔ اقدار ہی کسی معاشرے کی روایات، رہن سہن، لباس، طرز تعمیر، خوراک، زبان اور رسم و رواج کا ماخذ بنتی ہیں۔ اسی نظام اقدار سے انصاف کے معیارات طے ہوتے ہیں اور پھر اس سے ہی قانون وجود میں آتا ہے جس سے معاشروں میں امن قائم ہوتا ہے۔
ہر معاشرے کے لیے منکر اور معروف دوسرے معاشرے سے خاصی یکسانیت کے باوجود الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ ہمارے لیے اچھا انسان ایک اچھا مسلمان ہوتا ہے اور ہمارے ہاں کامیاب زندگی کا تصور آخرت کی کامیابی سے مشروط ہے۔ ہمارے ملک کے لیے مقاصد تعلیم میں اچھا مسلمان بنانا بھی شامل ہے۔ اگرچہ اچھے مسلمان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہوتی ہیں جو ایک اچھے انسان میں پائی جاتی ہیں؛ تاہم اس سے بڑھ کر کچھ مزید اعلیٰ صفات کا حصول بطور ترجیح دینی احکامات کے باعث مقصود ہے۔ ماں کا احترام اور خدمت کرنا اگرچہ پوری دنیا میں پسندیدہ قدر ہے، لیکن مسلمان اس پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔ اس طرح حلال اور حرام کا تصور بھی ہمارے ہاں زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے۔ ہمارے ہاں صفائی کے ساتھ پاکیزگی اور جسمانی طہارت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
تعلیم کے مقاصد کسی قوم کے نظام اقدار سے اخذ کئے جاتے ہیں اور پھر ان مقاصد کے حصول کے لیے نصاب مرتب کیا جاتا ہے۔ کچھ ماہرین پوری دنیا کے لیے ابتدائی تعلیم ایک جیسے نصاب کے تحت کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک پوری دنیا کے منکر اور معروف ایک ہی ہیں۔ اس لیے ابتدائی تعلیم ان کے مطابق دی جانی چاہیے۔ یہ لوگ بچوں کو ایک جیسی ابتدائی مہارتیں، ادب و آداب، طور طریقے سکھانے کی بات کرتے ہیں۔ وہ خلوص سے سمجھتے ہیں کہ یورپ، امریکہ، جاپان، چین، بھارت، افریقہ اور پاکستانی بچوں کو ایک ہی نصاب کے تحت ابتدائی تعلیم دی جانی چاہیے۔ اب ہم اپنے بچے کو دائیں ہاتھ سے کھانے کی تربیت دیتے ہیں، ہمارے ہاں یہ معروف ہے جبکہ دنیا کی دیگر اقوام میں شاید یہ کوئی خامی نہ ہو۔ طہارت کے باب میں ہمارے ہاں بچوں کو پانی سے اور بائیں ہاتھ سے طہارت کرنا سکھایا جاتا ہے۔ اس طرح ہم اپنے بچوں کو کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سکھاتے ہیں۔ ہمارا نصاب اور ہمارے اساتذہ کرام بچوں کو والدین اور اساتذہ کے عزت و احترام کا خصوصی درس دیتے ہیں۔ دیگر معاشروں میں بھی یہ درس دیا جاتا ہے مگر بطور دینی حکم ہمارے ہاں اس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور استاد کو باپ کا درجہ دیا جاتا ہے۔
نظریات کے حوالے سے بات کی جائے تو ہم ابتدائی تعلیم سے ہی بچے کو دینی نظریات سمجھاتے ہیں۔ توحید ایمان اور عمل صالح کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب ہم کیسے پوری دنیا کے بچوں کا نصاب اپنے بچوں کے لیے منتخب کریں۔ جن معاشروں میں خدا کا تصور موجود نہیں اور اگر موجود ہے بھی تو وہ آخرت، جزا و سزا اور قیامت سے انکار کرتے ہیں‘ ان اقوام کا نصاب کیسے ہمارے بچوں کے لیے موزوں ہو سکتا ہے؟ دنیا کی ہر قوم اپنا الگ نظام اقدار رکھتی ہے اور اسی نظام اقدار اور اپنی ترجیحات سے مقاصد تعلیم طے کرتی ہے، پھر ان مقاصد کے حصول کے لیے نصاب تعلیم مرتب کرتی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو محب وطن پاکستانی بھی بنانا ہے۔ اس لیے پاکستان کی تخلیق کے اسباب‘ اس کی جدوجہد کو نصاب کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ کوئی بھی قوم اپنی تاریخ سے غافل ہو کر فکری انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایک خطے میں رہنے والے ایک قوم اور پھر ہر قوم کا ایک ہی نظام اقدار اور ایک جیسے مقاصد تعلیم اور پھر ان یکساں مقاصد تعلیم کے لیے یکساں نصاب ہی کسی قوم کو متحد رکھنے کا باعث ہوتا ہے۔ ہماری ایک تاریخ ہے۔ ہمارے رہنما قائد اعظم، علامہ اقبال، سر سید احمد خان ہیں۔ دوسری کسی قوم کے لیے کوئی اور ہوں گے۔ ابتدائی تعلیم کا نظام ہر قوم اپنی منفرد اقدار، روایات، ضروریات اور ترجیحات کے مطابق مرتب کرتی ہے اور مادری زبان میں ہی بہتر نتائج دیتی ہے؛ تاہم اعلیٰ و پیشہ ورانہ تعلیم پوری دنیا میں ایک جیسی ہونی چاہیے۔ اعلیٰ تعلیم چونکہ دنیا میں ہونے والی نئی تحقیق پر مبنی ہوتی ہے، لہٰذا اس کا پوری دنیا میں یکساں ہونا ضروری ہے۔ ہمیں اس پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اعلیٰ تعلیم کو ترقی یافتہ ممالک کے معیار کے مطابق بنایا جائے اور ہر سال اس کے نصاب کی تجدید کی جائے۔