"AMK" (space) message & send to 7575

تاثر

''تم وہی ہو جو لوگ تمہیں کہتے ہیں‘‘۔ یہ ایک مشہور قول ہے۔ سماج میں تعامل کے بعد دوسروں کی آپ کے بارے میں عمومی رائے کیسی ہے، دراصل یہی آپ کا تعارف ہے۔ یہ تعارف انسان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ انسان کا کِردار ہی اصل انسان ہوتا ہے۔ جو اس کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے۔
بات تو کردار کی ہوتی ہے وگرنہ عارف 
قد میں انسان سے تو سائے بھی بڑے ہوتے ہیں
لوگوں کا آپ کے بارے میں کیا تاثر ہے، اس باب میں محتاط اور حساس ہونا چاہیے۔ لوگوں کے ساتھ مسلسل یکساں رویہ اور معاملہ رکھنے سے یا مخصوص عادات کی وجہ سے لوگ آپ کے بارے میں کوئی تاثر قائم کر لیتے ہیں جو آپ کی پہچان بن جاتا ہے۔ اس باب میں مجھے بہت تلخ تجربہ ہوا۔ میرے بچپن کے دوستوں نے میرے مضامین پڑھنے کے بعد پہلا تاثر یہی لیا کہ میں اپنے ادارے کے کسی پروفیسر سے یہ مضامین لکھوا کر سفارش سے صف اول کے اخبار میں چھپوانے کا اہتمام کرتا ہوں۔ اور جو یہ سوچ رکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر کام روپے پیسے سے ممکن ہے انہوں نے یہ گمان کیا کہ تھوڑی بہت حاصل آسودگی کی بنا پر ''مفکر‘‘ بننے کی کوشش کر رہا ہوں۔
کچھ دوستوں نے میرے ساتھ قدرے بہتر سلوک کرتے ہوئے بہت ہی دلکش گمان کیا کہ یہ میرے دنیا گروپ کے چیئرمین میاں عامر محمود کے ساتھ دیرینہ تعلقات کا نتیجہ ہے۔ ان سے گزارش کی کہ کاش ایسا ہوتا۔ مگر میاں صاحب تو شاید ہی میرے نام سے واقف ہوں۔ کافی سال پہلے میاں صاحب نے خصوصی شفقت فرماتے ہوئے ناظم لاہور کے دور میں ہماری چند تقریبات میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت فرما کر ادارے کی عزت افزائی کی تھی۔ وہ اس طرح نئے اور چھوٹے اداروں کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ میری ان سے کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی۔ میری اس وضاحت سے میرے دوست مطمئن ہوئے یا نہیں یہ میں نہیں جانتا۔
پچھلے دنوں ایک دوست میرے دفتر میں خصوصی طور پر ''تفتیش‘‘ کرنے آئے۔ ہم سب دوستوں میں وہ سب سے زیادہ ''سیانے‘‘ سمجھے جاتے ہیں اور در حقیقت میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ عمر میں چند سال بڑا ہونے اور اپنے علم و مطالعہ کی بنیاد پر ہم سب دوست انہیں ''استاد‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کی''تفتیش‘‘ سے یہ کہہ کر بے گناہ قرار پایا کہ ''استاد جی! میں تو وہی کچھ لکھتا ہوں جو آپ سے سیکھا ہے‘‘۔ جس پر ان کے چہرے پر اطمینان کا تاثر ابھرا۔ ابھی بیرون ملک مقیم بچپن کے دوست کی آمد متوقع ہے۔ دعا کریں کہ اس کی ''باز پرس‘‘ کے بعد سرخرو ہو جائوں۔ ان دوستوں میں میرا بچپن کا ایک دوست اپنے ہر اہم معاملے میں مجھ سے مشورہ کرتا ہے۔ سوچا یقینا وہ مجھے اس کا اہل سمجھتا ہو گا۔ اسے پوچھا کہ ''یار چوہدری تمہیں تو یہ شک نہیں؟‘‘ بولا ''بالکل نہیں مجھے کوئی شک نہیں بلکہ یقین ہے‘‘۔
تاہم یہ بات طے ہے کہ میرا تاثر ایسا نہیں تھا۔ یہ بات دوستوں کے لیے حیرت کا باعث ہے۔ اگر میرے یہی مضامین کسی دوسرے اخبار میں چھپتے تو شاید اتنی حیرت نہ ہوتی کیونکہ میرے جیسے درجنوں مضمون نگار قدرے کم اشاعت والے اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں۔ ویسے بھی میں کون سا بابائے اردو مولوی عبدالحق بن گیا ہوں۔ سادہ الفاظ میں اپنی بات دلیل کے ساتھ بیان کر دیتا ہوں۔ ایک بار خیال ہوا کہ اخبار کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ذمہ داروں سے اپنے کام کے معیار کے بارے میں پوچھوں تو آگے سے بہت دلچسپ جواب ملا ''جب تک چھپ رہا ہے سمجھیں معیاری ہے‘‘۔
کسی چیز کا تاثر کیسے قائم ہوتا ہے۔ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے دیگر افراد کے ذہن میں اچھا یا برا تاثر قائم ہوتا ہے؟ کسی بھی تاثر کے قائم ہونے میں بہرحال اپنی ہی بے اعتدالی موجب بنتی ہے۔
کسی بھی فرد کے تاثر قائم ہونے میں سب سے پہلے اس شخص کا حلیہ کردار ادا کرتا ہے۔ پھر اس شخص کی گفتگو اور بعد ازاں اس شخص کا اخلاق، حسن سلوک اور دیگر رویے اس شخص کی شخصیت کا مکمل تعارف اور تاثر قائم کرتے ہیں۔ دوسروں کے بارے میں اچھا تاثر ہی رکھنا چاہیے تا وقتیکہ کوئی اس کو اپنے عمل، رویے یا موقف سے غلط ثابت کرے۔
اقوام کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر حقیقت سے نظریں نہ چرائی جائیں تو امر واقعہ یہی ہے کہ پاکستان کا اقوام عالم میں اچھا تاثر نہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا اور اس کے بعد ان وجوہات کا تعین کرنا اور پھر اس کے لئے مناسب اقدامات کرنا تاکہ اقوام عالم میں پاکستان اور پاکستانیوں کی عزت ہو‘ یہی بہترین راستہ ہے۔ اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سرے سے یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ اس باب میں توجہ کی ضرورت ہے۔
اگر اس بات کو تسلیم کر بھی لیں تو اسے اپنی ناکامی یا اپنی غفلت کی بجائے پوری دنیا کی اپنے بارے رائے کو ہی ان اقوام کی غلطی یا سازش سمجھتے ہیں۔ اپنے رویے کو درست کرنے کی بجائے دوسروں کی رائے کو ہی متعصبانہ قرار دیتے ہیں۔
اپنی غلط حرکت کو امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی سازش قرار دیتے ہیں۔ اس موقع پر اگر خود احتسابی کا رجحان پیدا نہ ہوا تو شاید دوسری اقوام کا ہمارے بارے میں یہ تاثر مزید پختہ ہو کر کہیں نفرت میں نہ تبدیل ہو جائے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر کوئی ہمارے ساتھ تجارت نہیں کرے گا۔ کوئی ملک ہمارے شہریوں کو ویزہ نہیں دے گا۔ کوئی ہمارے طلباء کو اپنے تعلیمی اداروں میں تعلیم کی سہولت نہیں دے گا۔ دنیا کا کوئی ہسپتال ہمارے مریضوں کا علاج نہیں کرے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر اس مسئلہ پر توجہ دی جائے اور یہ کہنا کہ کوئی ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے، ہمیں اس کی پروا نہیں‘ یہ رویہ خود کشی کرنے کے مترادف ہے۔ اس ضمن میں ہم بھی عالمی برادری سے تعلقات کے حوالے سے بے اعتدالیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہمارے افراد دیگر ممالک میں جا کر بہتر رویّوں کے حامل قرار نہیں پائے گئے اور کچھ ہمارے دشمن ممالک نے بھی ہماری خامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کو پوری دنیا کے سامنے مبالغے کے ساتھ پیش کیا۔ دشمن ایسا ہی کرتے ہیں۔
کسی بھی قوم کا اچھا تاثر بنانے میں اس قوم کے میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہمارا میڈیا اس باب میں مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا۔ شام کو ٹی وی پر ٹاک شوز میں زبان درازی اور جگت بازی کا مقابلہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ شرکاء ایک دوسرے کی کردار کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے ایسے دلائل دیئے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کچھ شرکاء حکومت کے ہر عمل کا دفاع کرتے اور دوسرے اس کے ہر عمل کو ملک دشمنی اور عقل سے عاری ہونا قرار دیتے ہیں۔ فریقین اپنے اپنے موقف کے حق میں اچھے بُرے دلائل کے ساتھ چیختے چلاتے نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات تو دونوں فریق ہی حق پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی توانائیاں، اپنا زور بیان پاکستان کا اقوام عالم میں تاثر بہتر کرنے کے لیے استعمال کیوں نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں ایسے ایسے لکھنے والے موجود ہیں جو اپنے ''دلائل‘‘ اور ''حوالہ جات‘‘ سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرتے ہیں۔ اپنے موقف کے حق میں ایسی ایسی تاویلیں گھڑتے ہیں کہ پڑھنے والے ششدر رہ جائیں۔ یہ سب اپنا زور بیان پاکستان کے تاثر کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کیوں نہیں کرتے؟ ایسا نہیں ہے کہ ان کے پاس دنیا کو دکھانے کے لئے پاکستان کا خوبصورت چہرہ نہیں ہے۔
دنیا کے ہر ملک میں پاکستانی سفارت خانے موجود ہیں۔ یہ ان کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اپنے ملک کا تاثر بہتر بنائیں مگر یہ لوگ سوائے افسر شاہی کے کوئی اور کام نہیں کرتے۔ یہ پاکستانیوں سے ملنا تک گوارا نہیں کرتے۔ پاکستان کے تجارتی مفادات کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے۔ پاکستان کا تاثر بہتر بنانے میں یہ سفارت خانے بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی ذمہ داریوں کا از سر نو تعین کرنا ہو گا۔ میرٹ پر انتخاب اور تربیت نہایت ضروری ہے تاکہ اقوام عالم میں پاکستان کا بہتر تاثر قائم ہو سکے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں