آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرتا عقاب ایک ایسے جنگل کے اوپر جا پہنچا جہاں ایک عجیب نظارہ اس کا منتظر تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس جنگل میں ایک ہرنی اطمینان سے گھاس چر رہی ہے‘ تمام خونخوار جانور ایک طرف مؤدب کھڑے ہیں اور ان میں بھیڑیئے، چیتے حتیٰ کہ ایک ببر شیر بھی شامل ہے۔
اس عجیب نظارے نے اس عقاب کو حیران کر دیا اور وہ اونچی فضائوں سے زمین کے قریب ہوتا چلا گیا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ جنگل ہے جہاں جنگل کا قانون ہی رائج ہوتا ہے‘ جس میں طاقتور کمزور کو کھا جاتا ہے اور کمزور کی موت ہی طاقتور کی زندگی ہوتی ہے۔ مگر یہاں تو حیران کن صورتحال ہے۔ اسی تجسس کے تحت وہ ایک درخت پر بیٹھ گیا۔
اس نے درخت پر موجود ایک بندر سے دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرہ ہے۔ یہ درندے اس ہرنی پر حملہ کیوں نہیں کرتے۔ یہ ہرنی جو سب کی خوراک ہے وہ اسے کھاتے کیوں نہیں؟ کیا اس جنگل میں کوئی الگ قانون رائج ہے؟ وہ بندر بولا: آج سے چند سال پہلے ہمارے اس موجودہ ببر شیر بادشاہ کے والدین کسی مہلک بیماری سے انتقال کر گئے تھے۔ موجودہ بادشاہ اس وقت نوزائیدہ بچہ تھا۔ بھوک اور پیاس سے اس کی موت یقینی تھی۔ مشکل وقت میں اس ہرنی نے بچے کی پرورش کی اور اسے اپنا دودھ پلایا۔ اسے دیگر خونخوار جانوروں سے بچایا اور سردی‘ گرمی سے بھی محفوظ رکھا۔ وہ بچہ رفتہ رفتہ جوان ہوا اور آج کل وہی بچہ جنگل کا بادشاہ ہے۔ اس ہرنی کا بادشاہ کی ماں ہونے کی بنا پر بہت احترام ہے ۔ اس پر کوئی حملہ نہیں کرتا۔ وہ جہاں مرضی جائے ،اس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ۔ بادشاہ سمیت سارے جانور اس کے سامنے سر جھکائے احترام سے کھڑے رہتے۔ بادشاہ کا اس ہرنی کے لیے خصوصی حکم ہے کہ اس کی ماں کو جنگل میں جان کی امان حاصل ہے۔
یہ سن کر عقاب بہت متاثر ہوا کہ کیسے ببر شیر نے اس ہرنی کے احسان کا بدلہ چکایا ہے۔ وہ دوبارہ محو پرواز ہو گیا۔ اڑتے اڑتے وہ اس جنگل سے دور ایک برفانی علاقے میں پہنچ گیا ۔ اس نے دیکھا کہ نیچے زمین پر ٹھنڈے پانی میں ایک چوہا ڈوب رہا ہے۔
چوہے اس کی مرغوب غذا تھی اور اب اسے بھوک بھی ستا رہی تھی‘ لیکن اچانک اسے اس جنگل کا واقعہ یاد آ گیا کہ کیسے اس ہرنی نے ببر شیر پر احسان کیا اور بعد ازاں اس ببر شیر نے اس احسان کا کیسے بہترین صلہ دیا۔ اس نے سوچا کہ میں بھی اس چوہے پر احسان کروں گا اور اس کی جان بچائوں گا۔
اس نے غوطہ لگایا اور اس چوہے کو سرد پانی سے باہر نکالا ۔ چوہا سردی سے کانپ رہا تھا۔ وہ ڈوبنے سے بچ گیا تھا مگر اب عقاب کے سامنے اس کی موت یقینی تھی۔ عقاب اس صورت حال کو سمجھ گیا اور بولا کہ ڈرو مت‘ میں تمہیں کھانے نہیں بلکہ بچانے آیا ہوں۔ عقاب نے سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے چوہے کو اپنے پروں کے نیچے لے لیا۔
عقاب کے جسم اور پروں کی گرمی سے چوہے کی جان میں جان آئی‘ لیکن کچھ دیر بعد اچانک ایک بھیڑیا وہاں آن پہنچا۔ بھیڑیے نے عقاب کو زمین پر بیٹھے دیکھا تو اس پر حملے کے لیے آگے بڑھا ۔ چوہا یہ سارا منظر عقاب کے پروں کے پیچھے سے دیکھ رہا تھا۔ وہ بھاگ کر ایک بل میں گھس گیا۔
بھیڑیا مزید قریب آیا۔ عقاب نے اسے دیکھ لیا اور فوراً پرواز کے لیے اپنے پر کھولے مگر چوہا اپنے محسن عقاب کے پر کتر چکا تھا۔ اب عقاب اڑنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ عقاب نے آخری نگاہ اس چوہے پر ڈالی جو بل کے باہر کھڑا مسکرا رہا تھا۔
سنی سنائی یہ کہانی مجھے ایک خبر سن کر یاد آئی۔ سوچا تھا کہ حالات حاضرہ اور سیاسی موضوعات پر کچھ نہیں لکھا کروں گا کہ ان موضوعات پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے‘ اور مجھ سے بہتر لکھا جاتا ہے‘ مگر ایک خبر نے مجھے مجبور کر دیا۔ جاری کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلوں میں پچھلے ہفتہ کے روز پاکستان اور افغانستان کے مابین کرکٹ میچ تھا۔
ایک خبر کے مطابق کھیل شروع ہونے سے پہلے اور بعد میں کرکٹ سٹیڈیم کے باہر افغان شہریوں نے پاکستانی شائقین پر حملہ کر دیا۔ سٹیڈیم کے اندر بھی میچ ہارنے کے بعد افغانستان کے شہریوں نے پاکستان کی حامی شائقین پر بوتلوں سے حملہ کیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔
پاک بھارت دشمنی کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف ہر وقت حالت جنگ میں رہتا ہے۔ بھارتی جارحیت کے خدشات ہر وقت موجود رہتے ہیں اور یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے کہ جب کبھی بھارت کو یہ یقین ہو گیا کہ پاکستان کو تباہ و برباد کر سکتا ہے تو وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر جارحیت کا مرتکب ہو جائے گا۔ یہ تو افواج پاکستان کی مؤثر جوابی کارروائی کی استعداد، پیشہ ورانہ مہارت اور قوم کا جذبہ ہے جو بھارت کو کسی مہم جوئی سے روکتا ہے‘ مگر افغانستان کے عوام کا یہ رد عمل ناقابل فہم ہے؟ ایسے واقعات تو بھارت کے ساتھ میچ کے دوران بھی نہیں ہوتے۔ پاکستان کا افغانستان سے ضرورت سے زیادہ حسن سلوک اور احسان کے باعث ہم ''رُل تے گئے آں‘‘ مگر افسوس ''چَس‘‘ (مزا) نہیں آئی۔ پاکستان میں موجود شدت پسندی، منشیات، کلاشنکوف، فرقہ واریت اور دہشت گردی افغانستان کی اس مدد کے ثمرات ہیں۔ ان کے عوام کا یہ رویہ پریشان کن ہے۔ ہر برے واقعے یا حادثے میں کم از کم ایک خیر کا پہلو اس سے حاصل شدہ سبق ہوتا ہے۔ یہ مشاہدہ کرنے یا تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ کسی واقعے یا حادثے سے کیا سبق حاصل کرتے ہیں۔ عوام کی سطح پر اتنی نفرت دونوں اقوام کی حکومتوں اور مفکرین کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس واقعہ میں ہمارے ان نادان دوستوں کے لیے بھی سبق ہے جو ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ قومیت کی بنیاد صرف مذہب ہی ہوتا ہے۔ وہ لوگ بھی اس واقعہ سے سبق حاصل کر سکتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ قومیت کی بنیاد زبان، رنگ و نسل، شکل و صورت، رہن سہن یا مشترکہ تاریخ ہوتی ہے۔ اس واقعہ نے ثابت کر دیا کہ ایک خطہ اور ایک سرحد کے اندر رہنے والے ایک قوم ہوتے ہیں۔ دیگر اقوام سے دوستی مشترکہ مفادات کے تحت ہوتی ہے۔ ایران اور سعودی عرب کا تنازعہ، سعودی عرب اور قطر کے مابین چپقلش، ایران اور عراق کی جنگ ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین سرد مہری اس کے واضح دلائل ہیں۔ یہ تمام مثالیں مسلم ممالک کی ہیں۔ ان میں سے اکثر کی زبان ، رہن سہن اور تاریخ مشترک ہے ۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بھارت کے ساتھ کشمیر کا تنازعہ ہے ۔ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے ، عالم اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ اقوام عالم میں ہمیں سب سے زیادہ چین کی حمایت حاصل ہے جو کہ ایک غیر اسلامی ملک ہے؛ تاہم کسی بھی مسلم ملک نے چین کی طرح مسئلہ کشمیر پہ پاکستان کی حمایت نہیں کی کیونکہ اقوام کے مابین دوستی اور دشمنی مفادات کے زیر اثر ہوتی ہے۔
ماضی میں چین ایک گمنام ملک تھا ۔ پاکستان نے کبھی چین کے ساتھ کوئی معمولی سا حسن سلوک کیا‘ جس کے جواب میں چین نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ۔ چین سے دوستی ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے ۔ چین جس کی زبان، شکل و صورت، رہن سہن، نظریات ، روایات ، ثقافت اور تاریخ ہر چیز ہم سے مختلف ہے مگر پھر بھی چین ہمارا قابل اعتماد دوست ہے۔ ماضی میں پاکستان کے چین کے ساتھ کئے گئے حسن سلوک کے ثمرات شاید ہمیں قیامت تک حاصل ہوتے رہیں۔ ببر شیر کی جان بچانے والی اس ہرنی کی طرح۔