پارلیمانی یا صدارتی نظام حکومت کی بحث

اپنے پچھلے آرٹیکل... ''پاکستانی پارلیمنٹ کی خود مختاری... ایک مفروضہ‘‘ میں بہت تفصیل سے تاریخی واقعات اور دیے گئے دلائل کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اکثریتی پارٹی کے سربراہ کے سامنے پارلیمنٹ اپنی خود مختاری کھو چکی ہے۔ مضمون کے آخر میں، میں نے کچھ اصلاحات تجویز کی تھیں‘ جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اگر ممکن ہو تو، پارلیمنٹ اپنی کھوئی ہوئی خود مختاری واپس حاصل کر سکتی ہے۔ دوسری طرف ایسے سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کی کمی نہیں‘ جو سمجھتے ہیں کہ مسائل کی جڑ ہمارا پارلیمانی نظام حکومت ہے۔ اُن کی تجویز کے مطابق مسائل کا واحد حل صدارتی نظام حکومت ہے جو، اُن کے نزدیک، وفاق پاکستان کے لیے موزوں رہے گا۔ 
حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس، جنہوں نے ایک نئی سیاسی جماعت بھی بنا لی ہے، نے پہلی پریس کانفرنس میں اپنی پارٹی کے ایجنڈے کا اعلان کیا۔ اس ایجنڈے میں دیگر معاملات کے علاوہ ملک کو پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام کی طرف لے جانا بھی شامل ہے۔ ایک سابق وزیر قانون، جن کے پاس اٹارنی جنرل آف پاکستان کا عہدہ بھی تھا، نے یہ بیان دے کر میڈیا، حکومت اور پاکستان کے عوام کو حیران کر دیا کہ بانی پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناحؒ چاہتے تھے کہ دستور ساز اسمبلی آئین کو صدارتی نظام (امریکی ماڈل کے مطابق) کے لیے موزوں بنائے۔ موصوف کی رائے ایک ایسے نوٹ پر مبنی تھی جو اُن کے مطابق قائد اعظم کی اپنی تحریر میں ہے۔ اُس وقت قائد اعظم دستور ساز اسمبلی کے چیئرمین اور پاکستان کے گورنر جنرل تھے۔ 
یہ تمام قابل قدر حوالے یقینا نظر انداز نہیں کیے جا سکتے، لیکن اس کے باوجود میں اُنہیں صدارتی نظام کو اپنانے کے لیے واضح جواز کے طور پر نہیں دیکھتا۔ کسی کالم نگار نے فی الحال صدارتی نظام کے حق میں کوئی ٹھوس دلیل پیش نہیں کی۔ اس کے لیے کبھی اخبارات کے کالموں میں بحث کی گئی اور نہ ہی اس ضمن میں سابق چیف جسٹس صاحب نے کوئی بیان دیا تھا۔ کالم نگاروں نے صدارتی نظام کی خوبیوں سے عوام کو روشناس نہیں کیا۔ اُن کی طرف سے سامنے لائی جانے والی واحد دلیل یہ ہے کہ چونکہ موجودہ پارلیمانی نظام گلا سڑا ہے، اس لیے اس کا واحد نعم البدل صدارتی نظام ہے۔ ان میں سے کچھ احباب نے ایسے حوالے پیش کیے ہیں جن کے مطابق ایگزیکٹو (صدر) نہ تو پارلیمان (کانگرس) کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے‘ اور نہ ہی اپنی کابینہ کے چنائو کے لیے وہ پارلیمنٹ کے ارکان تک محدود رہتا ہے۔ یہ آزادی صدر کو موقع دیتی ہے کہ وہ باصلاحیت افراد کو اپنی کابینہ میں شامل کر لے۔ اس نظام کی کامیابی کی مثال دینے کے لیے امریکہ، جو زندگی کے تمام شعبوں میں ایک سپر پاور ہے، کی ترقی کے گن گائے جاتے ہیں۔ 
تاہم کسی ایک ملک میں کسی نظام کی ترقی اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک، جس کی تاریخ اور سماجی نظام اُس سے مختلف ہو، میں بھی ویسے ہی نتائج کا حامل ہو گا۔ ایک ابابیل کی آمد سے موسم بہار کی آمد کی نوید نہیں سنائی جا سکتی۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان اور سوئٹزرلینڈ، سب ترقی یافتہ ممالک ہیں‘ اس کے باوجود ان کا نظام حکومت امریکی نظام سے بہت مختلف ہے۔ اس ضمن میں ایک اور مثال چین کی فقیدالمثال ترقی ہے۔ 
سابق چیف جسٹس صاحب نے صرف اپنی پارٹی کا نصب العین ہی بیان کیا، لیکن ہمیں انتظار رہے گا‘ جب وہ یا اُن کی جماعت اس نظام کے حق میں ٹھوس دلائل سامنے لائے گی۔ جہاں تک سابق وزیر قانون (شریف الدین پیرزادہ) کے پاس قائد اعظم کے تحریر کردہ کسی نوٹ (جو موصوف کے مطابق صدارتی نظام کی وکالت کرتا ہے) کی موجودگی کا تعلق ہے‘ تو مجھے تحقیق کرنے سے محترم قائد کے کسی ایسے نوٹ یا بیان کا پتہ نہیں چلا، سوائے اس کے کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کوئی قرارداد ہو۔ اگر، جیسا کہ مسٹر پیر زادہ کا اصرار تھا، وہ کاغذ کا ٹکڑا قائد اعظم کے نوٹ پیڈ سے لیا گیا تھا‘ تو بھی اس سے کسی طور پر یہ تاثر نہیں ملتا کہ بانی ٔ پاکستان کی خواہش تھی کہ یہ نوزائیدہ مملکت امریکی طرز حکومت اپنائے۔ ممکن ہے کہ کسی ملاقاتی نے قائد اعظم سے ملاقات کے دوران صدارتی نظام کی تجویز پیش کی ہو‘ اور اُنھوں نے اپنے پیڈ پر نوٹ کر لی ہو، یا ممکن ہے کہ ذہن میں ابھرنے والے کسی خیال کو تحریری شکل دے دی ہو۔ 
مسٹر جناح کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے قرارداد 1939ء میں منظور کی۔ اس کے الفاظ اس طرح ہیں: ''انڈیا کے مسلمان ایسے کسی بھی وفاقی مفروضے کو دوٹوک انداز میں مسترد کرتے ہیں جس کے نتیجے میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی آڑ میں اکثریتی قوم کی حکومت مسلط کر دی جائے۔ ملک کے عوام کے لیے ایسا کوئی آئین قابل قبول نہ ہو گا‘‘۔ کچھ مصنفین نے اس قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے قارئین کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ قائد اعظم پارلیمانی نظام کے خلاف تھے (نوٹ: اس طرح تو مہاتما گاندھی بھی برطانوی پارلیمانی نظام کی مخالفت کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہ انڈیا کے لیے موزوں نہیں؛ تاہم انہوں نے بھی صدارتی نظام کو ترجیح نہیں دی۔ اس کی بجائے اُنھوں نے اپنے تصور کے مطابق آئین کو پنچایتی نظام کے مطابق ڈھالنے کی وکالت کی)۔ جب آل انڈیا مسلم لیگ نے 1939ء میں قرارداد منظور کی تو اس وقت وہ کانگرس کے ساتھ مل کر متحدہ بھارت کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ اُس وقت پارلیمانی نظام (جس میں اکثریتی قوم ہی جیت سکتی ہے) کی جگہ کوئی اور نظام لانے کا مطالبہ ہندو اکثریت کے جبر کو دیکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود اس قرارداد میں صدارتی نظام کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ 
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے گیارہ اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے چیئرمین کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کو واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کا آئین کیسا ہونا چاہیے۔ آپ نے اجتماعیت، برداشت، مذہبی آزادی اور بدعنوانی سے پاک ریاست کے خدوخال پیش کیے۔ اگر مذکورہ نوٹ پیڈ پر ملنے والی تحریر محترم قائد کی حتمی رائے تھی تو وہ اس خطاب میں فرما دیتے کہ نظام حکومت امریکی صدارتی نظام جیسا ہو گا۔ وہ اپنے خطاب میں امریکی صدارتی نظام کے کچھ خدوخال کا حوالہ بیان فرماتے، جیسا کہ ایگزیکٹو (صدر) کی پارلیمنٹ سے علیحدگی یا دیگر چیک اینڈ بیلنس کا نظام۔ تاہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ اُس تاریخی خطاب میںصدارتی نظام کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ اب ہم اپنی آئینی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ قوم نے کیسے اور کیوں پارلیمانی نظام اپنایا؟ اس کا آغاز 1956ء کے آئین سے کیا جانا چاہیے۔ اس کے بعد 1962ء میں صدارتی نظام اپنانے کی بات کی گئی، لیکن پھر 1969ء میں اس پر اتفاق دیکھنے میں آیا کہ قوم کے لیے پارلیمانی نظام ہی موزوں رہے گا۔ 
موضوع کی طوالت کے پیش نظر باقی معروضات آئندہ کالم میں پیش کروں گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں