(یہ میرا اس موضوع پر دوسرا کالم ہے۔ میں اس کالم میں پاکستان میں صدارتی نظام کی افادیت اور امکان کو زیر ِ بحث لائوں گا)۔
تاریخی پس ِ منظر:
1958ء کے مارشل لا کی نوبت دیگر وجوہ کے علاوہ 1956ء کے پارلیمانی آئین کی ناکامی کی وجہ سے آئی۔ پارلیمنٹ میں اکثریت کی طرف سے تحریک ِ عدم ِ اعتماد پیش کرنا ایک کھیل بن گیا اور یکے بعد دیگر کئی ایک وزرائے اعظم منصب پر بیٹھتے اور رخصت ہوتے دکھائی دیے۔ ان میں سے کچھ کا دورانیہ تو مہینوں، بلکہ ہفتوں پر محیط تھا۔ اس نے ملک کو عالمی برادری میں ایک تماشا سا بنا دیا۔اُس وقت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان نے ایک کمیشن مقرر کیا جس کی سربراہی وفاقی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج نے کی۔ یہ جج صاحب بے داغ شہرت کے مالک، جسٹس شہاب الدین تھے۔ اس کمیشن نے عمیق جائزے، گہری سوچ بچار اور سیاست دانوںسے ملاقات کرنے اور ان کی رائے لینے کے بعد پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام تجویز کیا۔
جنرل ایوب خان نے پارلیمانی نظام منسوخ کرکے صدارتی نظام اختیار کرلیا، لیکن کمیشن کے سفارش کردہ اس نظام کے اہم خدوخال کو اس میں شامل نہ کیا۔ میاں منظور قادر ایڈووکیٹ نے متفرق آئین (1962ء) کا حتمی مسودہ ڈرافٹ کر ڈالا۔ اس آئین میں موجود الجھائو کا اندازہ لگانے کے لیے یہ مثال کافی ہوگی کہ امریکہ میں صدر کو براہ ِراست بالغ حق ِ رائے دہی کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں، 1962ء کے آئین میں صدر کا انتخاب بنیادی جمہوریت سے منتخب ہونے والے 16000کونسلروں (پاکستان کے دونوں حصوں سے 8000)نے کرنا تھا۔
میں ایوب خان کے دور میں ہونے والی بے مثال صنعتی اور معاشی ترقی کے باوجود ناکامی کی وجہ کو کسی اور مضمون میں الگ سے زیر ِ بحث لائوں گا۔ صدر ایوب کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک شروع ہوگئی جس کی قیادت نوابزادہ نصر اﷲ خان کررہے تھے۔ اس تحریک کا مطالبہ ملک کو بالغ حق ِ رائے دہی کی بنیاد پر پارلیمانی نظام کی طرف واپس لے کر جانا تھا۔ جب عوام بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے تو پی ڈی ایم کی ایکشن کمیٹی ( ڈی اے سی) نے جارحانہ انداز میں اپنے مطالبات تسلیم کرنے کے لیے دبائو ڈالنا شروع کردیا۔ اس سے تحریک نے افسوس ناک صورت اختیار کرلی۔ صدر ایوب نے اس کا حل نکالنے کے لیے گول میز کانفرنس بلالی ، جس کا اجلاس دس مارچ 1965 ء کو ہوا۔ بہتر ہے کہ قارئین کو اُس گول میز کانفرنس کے ماحول سے آشنا کرنے کے لیے بعض شرکا کے درمیان ہونے والی کچھ گفتگو کو پیش کر دیا جائے۔ ایوب خان نے کانفرنس کے آغاز میں شرکا کو یاددلایا کہ ملک کو چیلنجز درپیش ہیں ۔ اس کے ساتھ اُنھوں نے یقین دلایا کہ وہ اور اُن کی حکومت کھلے ذہن سے اس کانفرنس میں شریک ہورہے ہیں۔ اس کے بعد نوابزادہ نصر اﷲ خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔'' شرکا چاہتے ہیں کہ آئینی معاملات پر حکومت یہ مطالبات تسلیم کرلے:
(i)وفاقی پارلیمانی نظام کی بحالی،
(ii)حق ِ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرائے جائیں، اور
(iii)علاقائی خود مختاری دی جائے۔‘‘
میں حکومت کی نمائندگی کررہا تھا، میں نے مداخلت کرتے ہوئے پوچھا،
ایس ایم ظفر: آپ مہربانی فرما کر وضاحت کردیں کہ کیا 'علاقائی خود مختاری‘ ایک الگ معاملہ ہے یا پارلیمانی نظام کا ہی حصہ ہے، کیونکہ وفاق میں صوبوں کو علاقائی خود مختاری حاصل ہوتی ہے۔
نوبزادہ:درحقیقت صرف دومطالبات ایسے ہیں جن پر اتفاق ِ رائے موجود ہے۔
مجیب الرحمن: اس کی تصدیق کی جاتی ہے کہ وفاقی پارلیمانی نظام اور براہ ِر است انتخابات کی ضرورت پر مکمل اتفاق موجو د ہے۔اس کے علاوہ آبادی کے تناسب سے نمائندگی اور مشرقی اور مغربی حصے کے درمیان علاقائی خود مختاری بھی ضروری ہے۔
صدر ایوب:کیا ایسے وفاق کو وفاق کہا جاسکے گا؟ ٹیکسز کا معاملہ کیسے طے ہوگا؟
مجیب الرحمن:وفاقی حکومت علاقائی حکومتوں سے رقم فراہم کرنے کا کہہ سکتی ہے۔
صد رایوب: اس کا مطلب تعاون ہوگا۔
چوہدری محمد علی:میں ڈی اے سی کے دو مطالبات کی حمایت کرتا ہوں، تاہم ایوب خان کے پارلیمانی نظام میں موجود بنیادی عدم استحکام کے سوال پر کہنا چاہتا ہوں کہ جب ایک مرتبہ ایگزیکٹو منتخب ہوجائے تو اُسے دوتہائی اکثریت کے بغیر عہدے سے نہ ہٹایا جاسکے، اور اس (وزیرِ اعظم) کو ہٹائے جانے کے لیے ڈالے جانے والے عدم اعتماد کے ووٹ سے پہلے اُس کے متبادل کا نام ظاہر کیا جائے۔
ولی خان:ملک خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے، بہتر ہے کہ دو مطالبات تسلیم کرلیے جائیں اور ون یونٹ تحلیل کردیا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے یہ تاثر جارہا ہے کہ پنجاب چھوٹے صوبوں کی حق تلفی کررہا ہے۔
صدرایوب: صرف اُن معاملات پر فیصلہ لیا جائے جن پر اتفاق موجود ہے، دیگر معاملات کو نئی منتخب ہونے والی اسمبلی اور حکومت کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
مفتی محمود:ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا اس ملک نے اسلامی ریاست بننا ہے یا سیکولر، اور ہمیںبائیس نکات ( جو 1951ء میں علما نے طے کیے تھے)کو آئین میں شامل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ''مسلمان‘‘ کی تعریف (کہ اصل مسلمان کون ہے) بھی آئین میں شامل کرنی ہے۔
نورالامین:میں گول میز کانفرس بلانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے دونوں مطالبات کی تائید کرتا ہوں۔
چوہدری محمد علی:ڈی اے سی کے پاس دومطالبات کے علاوہ کسی اور بات کا مینڈینٹ نہیں ہے۔
اصغر خان:ڈی اے سی کے حوالے سے جو کچھ بھی کہا گیا ہے میں اس پر متفق ہوں(اُنھوں نے اس سے ہٹ کر کسی اور ایشو پر بات کرنے کی صورت میں کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کا کہا)۔
کانفرنس کے آخر میں صدر ایوب خان نے یہ تاریخی بیان دیا۔
''میں ابھی بھی یقین رکھتا ہوں کہ پارلیمانی نظام ِ حکومت اس ملک کے لیے بہتر ین نظام ہے ،لیکن میں عوام کی رائے کو مقدم سمجھوں گا۔ ‘‘
زیادہ تر شرکا نے صدر ایوب کو مبارک باد دی کہ اُنھوں نے ایک دلیر سیاست دان کی طرح قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے اہم فیصلہ لیا ہے۔ گول میز کانفرس اس اتفاق پر ختم ہوئی کہ پارلیمنٹ پہلے 1962ء کے آئین میں ترمیم کرے گی۔ وہ سیاسی ڈرامہ اس اتفاق ِرائے پر ختم ہوا اور پاکستان ایک مرتبہ پھر پارلیمانی نظام کی طرف گامزن دکھائی دیا۔ 1973ء میں جب قوم نسبتاً زیادہ پراعتماد اور مطمئن تھی تو مغربی پاکستان کے رہنمائوں نے 1973ء کے آئین پر دستخط کیے، اور فیصلہ کرلیا کہ اب پاکستان میں پارلیمانی نظام ہی مستعمل ہوگا ۔ اس آئین میں پہلے ذوالفقارعلی بھٹو اور بعد میں چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر نے تبدیلیا ں کردیں۔ ان تبدیلیوں پر اگلے کالم میں بات کی جائے گی۔
(اگلے کالم میں سول اور فوجی حکومتوں کے دور میں 1973ء کے آئین کی فعالیت پر بات بھی ہوگی۔)