یہ اس موضوع پر سلسلہ وار لکھے گئے مضامین کی آخری کڑی ہے۔ اب میرا ارادہ اس موضوع پر کتاب لکھنے کا ہے، کیونکہ اخباری کالم کے الفاظ محدود ہوتے ہیں۔ صدارتی اور پارلیمانی نظام حکومت کو آزمانے اور فی الحال مایوس ہونے کے بعد آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا امریکہ جیسا صدارتی نظام پاکستان کے لیے موزوں رہے گا؟ مئی 1887ء میں فلاڈیلفیا میں، جبکہ موسم بہت گرم تھا، فاضل سکالرز کے وفود نے ایک سو بیس دن کے غور و خوض کے بعد پہلی مرتبہ ایک غیر معمولی صدارتی نظام کے خد و خال طے کیے۔ اس نظام کی کامیابی کا دار و مدار مندرجہ ذیل معروضات پر تھا:
(1) معاشرے کا نمائندوں کے ماضی کے ریکارڈ، ساکھ، صلاحیت اور حب الوطنی پر مکمل اعتماد۔ بعد میں ریاستوں نے اس کی توثیق کر دی۔
(2) امریکی معاشرہ ایک نیا تجربہ کرنے کے لیے تیار تھا۔
ایک طائرانہ جائزہ:
فلاڈیلفیا میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ آیا امریکہ میں کنفیڈریشن ہونی چاہیے یا ایک وفاق۔ بحث کے بعد طے یہ پایا کہ امریکہ میں ایک وفاق ہو‘ لیکن اس کی اکائیوں کو زیادہ اختیارات اور خود مختاری دے دی جائے۔ امریکی سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلے میں جوڈیشل انجینئرنگ (عدالتی تخلیقی فعالیت) کے ذریعے آئین کے آپریشن کو مرکز مائل کر دیا۔ امریکی آئین میں آزادی اور خود مختاری کی حدود کا تعین کر دیا گیا ہے۔ فلاڈیلفیا میں اس کے بعد یہ بحث شروع ہوئی کہ آیا آئینی ترامیم سماج میں فکری تبدیلی لائیں گی‘ یا ان کا اثر اس کے برعکس ہو گا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ آزما کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
صدر کے عہدے کو اختیارات دیے گئے۔ ان اختیارات میں ریاست کے امور میں ویٹو کرنے اور جنگ شروع کرنے کا اختیار بھی شامل تھا۔ اگرچہ جنگ شروع
کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی اضافی منظوری درکار تھی۔ صدر کے پاس کسی قانون سازی کو ویٹو کرنے کا بھی اختیار موجود تھا۔ کابینہ کا مکمل اختیار بھی صدر کو دے دیا گیا کہ وہ اپنے سیکرٹریز آف سٹیٹ کو متعین کرنے اور برخاست کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہو گا؛ تاہم دو تہائی اکثریت سے صدر کے فیصلے کو تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ آخرکار اس معاملے میں میرٹ کا خیال رکھنے کا اصول روایت کا درجہ پا گیا۔ صدر دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت کی منظوری کے بعد ملک میں ایمرجنسی بھی نافذ کر سکتا تھا؛ تاہم صدر کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی کی تاریخ تک سماعت کو التوا میں ڈال سکے۔ ان مثالوں سے امریکی صدارتی نظام کے چیک اینڈ بیلنس کو سمجھنا آسان ہے۔
سینیٹ کا انتخاب ریاستوں کے انتخابی حلقوں سے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ یہ چیک اینڈ بیلنس تمام آئین میں موجود ہے۔ ان میں کچھ کا میں نے ذکر کیا ہے، کچھ کو پاکستان میں آئینی پس منظر میں بھی بیان کروں گا۔ کانگرس عوام کی نمائندگی کرتی ہے جبکہ سینیٹ ریاستوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ کانگرس اور سینیٹ، دونوں مساوی طاقت رکھتے ہیں کیونکہ دونوں کو عوام منتخب کرتے ہیں۔ یہ سوال کہ آیا پاکستان کی پارلیمنٹ اس نئے نظام حکومت کی تشکیل کر سکتی ہے؟ اس میں یہ مندرجہ ذیل مشکلات حائل ہیں۔
1۔ نہ تو پاکستان میں عوامی ذہنیت‘ اور نہ ہی پارلیمنٹ کے ارکان اس تجربے کے لیے تیار ہیں (اس وقت فلاڈیلفیا میں ماہرین کو بھی شک تھا کہ شاید ہی یہ نظام پذیرائی حاصل کر پائے۔
2۔ صدر کے انتخابات قومی سطح پر بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں؛ چنانچہ چھوٹے صوبے ہمیشہ اس کی مزاحمت کریں گے‘ کیونکہ صدر ہمیشہ زیادہ آبادی رکھنے والے پنجاب سے ہی منتخب ہو گا (اس سے علیحدگی کے جذبات پروان چڑھ سکتے ہیں)۔
3۔ سینیٹ کے انتخابات بھی وسیع انتخابی حلقوں سے ہوں گے۔ اس سے نہ صرف اخراجات میں اضافہ ہو گا‘ بلکہ دھاندلی کے الزامات بھی ایک رکاوٹ بن کر سامنے آئیں گے۔
4۔ کچھ عرصہ پہلے منظور ہونے والی اٹھارہویں ترمیم کے بعد پارلیمنٹ اور صوبائی حکومتیں مرکزی حکومت کی پوری شد و مد سے مخالفت کریں گی۔ اس کے علاوہ کچھ نام نہاد رہنما بھی اس تصور کی مزاحمت کرتے دکھائی دیں گے۔
5۔ سینیٹ میں ایسے قانون کی منظوری کے لیے پاکستان میں شاید ایسے سکالرز کی تلاش بھی ایک مشکل امر ہو گا۔ جہاں تک پارلیمنٹ کا تعلق تو وہاں سے ایسی دانش کی تلاش کی ہماری پارلیمانی تاریخ حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ مک مکا کی سیاست نے ہماری سیاسی جماعتوں کی ساکھ مجروح کر دی ہے۔
کچھ معمولی مشکلات کا ذکر کرنا بھی برمحل ہو گا‘ تاکہ سیاسی جماعتیں اس جمہوری تجربے کا فیصلہ کرنے کے لیے تمام مسائل کو سامنے رکھ سکیں۔ اگر ایک مرتبہ نظام حکومت تبدیل کرنے کی بات شروع کر دی گئی‘ تو مذہبی لوگ جدید طرز حکومت کی بجائے شریعت کے نفاذ پر زور دیں گے۔ نظام حکومت میں تبدیلی انہیں بیٹھے بٹھائے ایک موقع دے دے گی کہ وہ ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلا کر اور دھرنے دے کر حکومت کو زچ کر دیں۔ اس سے پھیلنے والی افراتفری سے ملک ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
موجودہ پارلیمانی نظام حکومت کو ہی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ میں مسٹر چرچل کی بات سے اتفاق کرتا ہوں‘ جنہوں نے کہا تھا کہ ایک ہی نظام کو دہراتے ہوئے بہتر کیا جا سکتا ہے، لیکن پرانے کو مکمل طور پر تبدیل کرکے نیا نظام بنانا آسان کام نہیں۔ حال ہی میں کچھ ارکان پارلیمان نے آرٹیکل 63(a) متعارف کرایا۔ میرے خیال میں یہ پارلیمنٹ کی خود مختاری کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ ضروری ہے کہ اس میں ترمیم کی جائے اور پارلیمنٹ کو ان زنجیروں سے رہا کیا جائے۔ اگرچہ اسلامی شقوں کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے‘ لیکن ان کے لیے الفاظ کے چنائو کا خیال رکھا جائے تاکہ گڈ گورننس کے ساتھ ایک فلاحی ریاست کا قیام ممکن ہو سکے۔ ضروری ہے کہ جب تک گائوں، دیہات کی سطح تک تعلیم اور صحت کی سہولیات میسر نہیں آتیں‘ اور جب تک ملک کو ہوشربا بدعنوانی سے پاک نہیں کر لیا جاتا‘ میگا پروجیکٹس کو موقوف کر دیا جائے۔ آئین میں نمونے کی تبدیلیاں لا کر اور لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنا کر معاشرے کی حالت بتدریج بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے آئین میں بنیادی لانے کی ضرورت ہے۔ تاریخ کا ایک اپنا دستور ہوتا ہے، جو کوئی آپشن باقی نہیں چھوڑتا۔ اس وقت شاید ہمارے پاس بھی کوئی آپشن موجود نہیں۔
میرے لیے ضروری تھا کہ میں کالم کو محدود الفاظ میں ختم کر دوں؛ چنانچہ اب ان نکات کی کتاب میں وضاحت لازمی ہو گئی ہے۔ مزید بحث کے لیے مجھے اس کتاب کی اشاعت کا موقع دیں جس پر کام شروع ہو چکا ہے۔