قومی سیاست میں پولیٹیکل انجینئرنگ کی اصطلاح اب کم وبیش زبان زدِ عام ہے اور سیاست کی عمومی سمجھ بوجھ رکھنے والا اوسط درجے کا طالبعلم بھی اس اصطلاح کے رموزواوقاف سے واقف ہے۔ پولیٹیکل انجینئرنگ کی ضرورت کب کب محسوس ہوتی ہے اور اسے کیسے کیسے استعمال کیاجاسکتاہے ‘پرانے سیاسی قصے کہانیوں کو فی الوقت بھول ہی جائیں‘ ہماری گزشتہ ربع صدی کی سیاسی تاریخ بھی ان معاملات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے ۔ پہلے پہل سیاسی جماعتیں اپنے تئیں حریف کوگرانے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کے لیے سیاسی اتحاد بناتی تھیں‘ وقت گزرنے کے سا تھ ساتھ اس میں جدت آتی گئی اور سیاست کے بازار میں غیر سیاسی پلیئرز بھی آگئے اور پرویز مشرف نے جب عام انتخابات کے بعد 2002ء میں حکومت تشکیل دینا چاہی تو انہیں اپنی پسند کاسیاسی سیٹ اپ تشکیل دینے کے لیے پولیٹیکل انجینئرنگ کرنا پڑی اور اس وقت نیب کواستعمال کیاگیا۔ نیب کے استعمال کی ضرورت ہرگز نہ پڑتی اگر مخدوم امین فہیم کی سربراہی میں مسلم لیگ ق اور پی پی پی مل کر حکومت بنا لیتے۔ مخدوم امین فہیم کووزیراعظم کا پروٹوکول بھی مل چکا تھا‘ ان سے اعلی سطح کی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا کہ اچانک یہ کمند ٹوٹ گئی اور معلوم یہ ہوا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کو پارٹی کے مخبروں نے اطلاع دی تھی کہ مخدوم صاحب پرویز مشرف کے ہوچکے ہیں اورسیاسی ریہرسل کے ذریعے مخدوم صاحب کو وزیراعظم بنانے کا دراصل مقصد محترمہ کو مائنس کرنا ہے یعنی'' مائنس ون فارمولا‘‘۔شک کا بیج مؤثر ثابت ہوا ‘محترمہ نے مائنس ون ہونا قبول نہ کیا اور پھر پیپلز پارٹی پیٹر یاٹ بنائی گئی جس میں زیادہ حصہ جنوبی پنجاب سے تھا ‘قومی اسمبلی میں نمبرز پورے کرنے کے لیے احتساب کی چند بڑی فائلیں بند کردی گئیں‘ پیٹریاٹس کے ذریعے مسلم لیگ ق کی مخلوط حکومت معرض وجود میں آئی‘ میر ظفراللہ جمالی وزیراعظم بنے‘ لیکن وہ بھی کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کی پاداش میں آؤٹ ہوگئے‘ انہیں مائنس کردیا گیا اور جمالی صاحب نے بھی مائنس ہونا بخوشی قبول کرلیا‘ کیونکہ نہ وہ پارٹی کے سربراہ تھے اور نہ ہی ان کے پاس ووٹ بینک کی طاقت تھی۔
میر ظفراللہ جمالی کے بعد وزارتِ عظمیٰ ہمایوں اختر سے چند بالشت کے فاصلے سے گزر گئی اور چوہدری شجاعت حسین سے ہوتے ہوئے شوکت عزیز تک جا پہنچی۔ پارٹی کے اندر سے ہمایوں اختر اور ان کا گروپ اس وقت بھی پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت کو مائنس نہ کرسکا اور چوہدریوں کی رضامندی سے نیا سیاسی سیٹ اپ تشکیل دیاگیا۔پھر جنرل پرویز مشرف نے کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کی کوشش کی اورریاستی امور کو اپنے مخصوص انداز اور مخصوص نظریے کے مطابق چلانا چاہا تو انہیں بھی مائنس کرنے کا فیصلہ کیاگیا‘ لیکن وہ طاقت میں مہان تھے‘ اس لیے انہیں مائنس کرنے کے لیے بڑا لمبا فاصلہ طے کرنا پڑا۔ اگر ان کے پیرنٹل ڈپارٹمنٹ کی حمایت حاصل رہتی تو جنرل مشرف کبھی بھی مائنس نہیں ہوسکتے تھے۔آصف زرداری کو مائنس کرنے کے لیے کوششیں بارآور ثابت نہ ہو سکیں‘ یہاں تک کہ میمو سکینڈل آیا‘ لیکن عین وقت پر جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنا ارادہ بدل لیا اور میمو سکینڈل کے غبارے سے ہوا نکل گئی ‘بعد ازاں سوئس اکاؤنٹس کیس میں صدر زرداری کو مائنس کرنے کی کوشش کی گئی‘ مگر نتیجہ ندارد‘ کیونکہ ان کی سیاسی پوزیشن مضبوط تھی‘ خود بچ گئے لیکن سید یوسف رضا گیلانی کو مائنس کردیا۔
نواز شریف کو مائنس کرنے کے لیے سیاسی تاریخ کا طویل ترین اور بہت تگڑا‘ عمران قادری جڑواں دھرنا آیا‘ لیکن نواز شریف مائنس نہ ہوسکے ‘کیونکہ جنرل راحیل شریف نے ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان سے ملاقات میں مائنس ون فارمولے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔اگر جنرل راحیل شریف اس رات قائل ہوجاتے تو مائنس ون فارمولا کامیاب ہوجاتا۔ ڈان لیکس کا معاملہ آیا لیکن مائنس ون اس وقت بھی نہ ہوسکا اور چھوٹوں کو مائنس کردیا گیا‘ لیکن شو مئی قسمت کہ نواز شریف پاناما میں پھنس گئے اوربرے طریقے سے پھنسے‘ اور پھر منی ٹریل نہ دے سکے اورنااہلی کے نتیجے میں انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی مائنس ہونا پڑا۔ نواز شریف بھی مائنس ہونے سے بچ سکتے تھے‘ لیکن وہ سیاسی طور پر بہت کمزور تھے اور سسٹم ان کا ساتھ چھوڑ چکا تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ غیرجانبدار ہیں اور نواز شریف کو مائنس ہونے سے کوئی نہ بچا سکا کیونکہ نوازشریف نے اس دوران اور بہت سوں کو مائنس کرنے کے منصوبے بنائے‘ لیکن ایسے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچنے نہیں دیا گیا۔
آج کل پھر مائنس ون کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور اس کا واضح طور پر تذکرہ خود وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران کیا۔وزیر اعظم صاحب کے خطاب میں یہ بات واضح تھی کہ اگر کوئی مائنس ون کرنا چاہتا ہے تو وہ ذہنی طور پر اس کے لیے تیار ہیں کیونکہ بجٹ نائٹ انہیں جو پاپڑ بیلنے پڑے اور جس طرح سے انہیں مختلف گروپس سے ملاقاتیں کرنا پڑیں وہ ان کے مزاج کے بالکل برعکس تھا‘ لیکن ان کو کْچھ کْچھ سمجھ بھی آچکا ہوگا اور کْچھ غیر مصدقہ اطلاعات بھی ان تک پہنچائی گئی ہوں گی‘ لیکن اب تک کی معلومات کے مطابق مائنس ون فارمولے کو عمل پذیر ہونے سے بہت پہلے پزیرائی کے مرحلے پر ہی بے اثر کردیا گیا۔ایسا کیونکر کیا گیا ؟کیا ایسا ہونا ناممکن ہے؟ جواب ہے کہ مائنس ون ہونا بالکل ممکن ہے ۔کیا ایسا ہونا ممکن لیکن مشکل ہے؟جواب ہے کہ ایسا ہونا ہرگز مشکل نہیں ‘لیکن مائنس ون کے بعد کے حالات مشکل ضرور ہوں گے۔ کیا مائنس ون کا یہی مناسب وقت ہے؟ جواب ہے کہ مائنس ون کے لیے یہ مناسب وقت ہرگز نہیں کیونکہ مائنس ون کے نتیجے میں جو بھی سیاسی منظر نامہ بنے گا وہ مقتدر حلقوں کے لیے ہرگز سازگار نہ ہوگا ۔کیا عمران خان صاحب نے ایسا کْچھ کیا ہے کہ مائنس ون کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا؟ جواب ہے کہ عمران خان صاحب نے ہرگز ایسا کْچھ نہیں کیا کہ انہیں مائنس کردیا جائے ‘بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔
مائنس ون کے نتیجے میں کیا زرداری اور شریف فیملی کے اپاہج گھوڑے میں دوبارہ جان ڈال دی جائے اور پھر دونوں خاندان مل کر وہی عمل دہرائیں گے جو 2008 ء میں کیا گیا تھا؟ کیا دونوں خاندان گزشتہ دوسال میں قابلِ اعتبار ہوچکے ہیں؟ جواب ہے ‘ہرگز نہیں بلکہ ان میں مقتدرہ کے خلاف پہلے سے کہیں زیادہ زہر بھر چکا ہے اور خاص طور پر مریم بی بی تو سلسلہ وہیں سے شروع کرنا چاہتی ہیں جہاں سے ٹوٹا تھا اور ایسے ہی ارادے بلاول بھٹو صاحب کے ہیں ‘تو پھر جب حالات اس قدر سنجیدہ اور صورتحال اس قدر گمبھیرہے تو پھر مائنس ون فارمولا کیسے کارگر ہوسکتا ہے؟
مائنس ون صرف ایک صورت میں ممکن ہے کہ عمران خان حکومت کی کارکردگی بدتر ہوجائے اور مقتدر حلقوں کے لیے ان کا دفاع کرنا مشکل ہوجائے یا پھر عمران خان میمو یا ڈان لیکس جیسی کوئی حرکت کر بیٹھیں اور یا پھر کسی بڑے مالیاتی سکینڈل کی زد میں آجائیں اور اس صورت میں بھی تب ممکن ہوگا جب ان سے بہتر ان کا کوئی متبادل مل جائے۔لیکن گردو پیش میں نظر دوڑائیں تو ایسے حالات بھی نظر نہیں آرہے ۔ آخری صورت مائنس ون کی وہی ہوسکتی ہے جو کہ قابلِ عمل بھی ہوگی کہ عمران خان صاحب کی رضامندی سے ان کا کردار تبدیل کردیا جائے اور موجودہ سیاسی سیٹ اپ چلتا رہے ‘کیونکہ موجودہ اپوزیشن میں ہمت ہے نہ سکت اور نہ ہی وہ کردار کہ وہ کسی کو مائنس کرسکیں‘ کیونکہ اپوزیشن تو خود ایک دوسرے کو مائنس کررہی ہیں۔اس لیے اب مسلم لیگ ن مائنس ون کے بجائے وسط مدتی انتخابات کی صدا بلند کررہی ہیں ‘لیکن پیپلز پارٹی ایسا نہیں چاہتی۔