NNC (space) message & send to 7575

مذاکرات کی خواہش

صدر ٹرمپ 2016 میں پہلی بار میدان میں اترے اور ایک قد آور پُر کشش اور تجربہ کار ڈیموکریٹک لیڈر ہلیری کلنٹن کو شکست دے کر کامیاب ہو گئے تھے۔ چار سال انہوں نے ہر محاذ پر اندرون اور بیرون ملک کھل کر پنجہ آزمائی کی۔ صدر ٹرمپ تمام سفارتی و سیاسی آداب اور منصبی پروٹوکولز کے برعکس جب چاہتے‘ جس کو چاہتے‘ آڑے ہاتھوں لیتے اور ستیاناس کر کے اپنی ٹیم سے دادِ وصول کرتے تھے۔ وہ اپنے مخالفین کے بارے میں سخت سے سخت زبان استعمال کرتے اور انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے دھمکاتے نظر آئے۔ انہوں نے تگڑے تگڑے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو بھی معاف نہیں کیا۔ صدر ٹرمپ اپنے ہم منصبوں کی بھی برسرِ عام تضحیک کرتے نظر آئے۔ پاکستان کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے بھی ہلیری کلنٹن کو سپورٹ کیا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ہلیری کلنٹن ہی منتخب ہوں گی‘ لیکن ٹرمپ اپنی مقبولیت اور یوتھ کی حمایت کی وجہ سے جیت گئے۔ اپنے چار سالہ دور اقتدار میں انہوں نے کئی بار اپنے کھلاڑیوں کو تبدیل کیا۔ جب چاہتے‘ کسی کو بھی برطرف کر دیتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے پینٹاگون اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی کافی ٹف ٹائم دیا۔ وہ اپنے داماد کو اہم ذمہ داریوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ صدر ٹرمپ پاکستان کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے دھمکیاں دیتے اور طرح طرح کے الزامات لگاتے رہے لیکن پھر معاملات سلجھنے لگے اور کہا جاتا ہے کہ برف پگھلانے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری اور صدر ٹرمپ کے داماد کے مابین کی دوستی نے اہم کردار ادا کیا۔ ہمیں یاد ہے‘ عمران خان صاحب نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے چند روز بعد مُجھ سمیت کُچھ صحافیوں کو ملاقات کے لئے بلایا تو ان (وزیر اعظم) سے سوال کیا گیا کہ آپ آئندہ ماہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے جائیں گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ امریکہ نہیں جا رہے بلکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ وزیر اعظم سے پھر اصرار کیا گیا کہ آپ کو جانا چاہئے وہاں آپ کی صدر ٹرمپ سے ملاقات ہو سکتی ہے دیگر عالمی رہنماؤں سے بھی تبادلہ خیال کا موقع ملے گا‘ لیکن عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ صرف صدر ٹرمپ سے ہاتھ ملانے کے لئے میں اتنا خرچہ کیوں کروں؟ انہوں نے مفروضے کی بنیاد پر کہا کہ اگر صدر ٹرمپ سے ٹاکرا ہو گیا اور ٹرمپ نے کوئی ایسی ویسی بات کر دی جو بالعموم وہ کرتے ہیں یا کوئی الٹی بات کر دی تو میں وہیں حساب برابر کر دوں گا‘ اس لئے مجھے امریکہ جانے کا مشورہ نہ ہی دیں۔ ہمارے ایک صحافی بھائی وزیر اعظم سے امریکہ جانے کیلئے مسلسل اصرار کر رہے تھے اور شاید کُچھ لوگ چاہتے بھی تھے کہ عمران خان کو یکدم واشنگٹن جیسی تیز ترین اور ناہموار وکٹ پر اتار دیا جائے تاکہ انہیں بھی جونیجو مرحوم یا پھر ظفراللہ جمالی جیسے انجام کا سامنا کرنا پڑے۔ 
بہرحال عمران خان پہلے سال نہیں گئے‘ لیکن ایک سال کے عرصے میں عمران خان وائٹ ہاؤس میں اپنے تعلقات استوار کر چکے تھے‘ جس کے نتیجے میں انہیں دورۂ امریکہ کی دعوت دی گئی اور ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے مشترکہ طور پر امریکہ یاترا کی‘ جس میں صدر ٹرمپ نے مقبوضہ کشمیر پر بظاہر ثالثی کی پیشکش کی لیکن در پردہ وہ انڈیا کے ساتھ مل کر کشمیر کا تنازعہ ہی گول مول کرنا چاہ رہے تھے‘ پھر بھی اس دورے کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں موجود سرد مہری کا خاتمہ ہوا۔ شاید افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کے لئے پاکستان سے اچھے تعلقات کی امریکہ کو زیادہ ضرورت تھی۔
صدر ٹرمپ اپنی حماقتوں اور جلد بازی پر مبنی فیصلوں کی وجہ سے مخالف ممالک خاص طور پر چین اور روس کو بہت زیادہ موزوں لگتے تھے اور اسی لئے روس اور چین پر امریکی انتخابی عمل میں مداخلت کی تحقیقات بھی ہوئیں اور صدر ٹرمپ کا مواخذہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی جو ناکام ہوئی۔ شاید اسی لئے ابھی تک چین اور روس کی طرف سے نومنتخب صدر جو بائیڈن کو مبارکباد نہیں دی گئی۔ دونوں ممالک کا موقف ہے کہ سرکاری طور پر نتائج کا انتظار ہے‘ جبکہ 2016 میں چین اور روس کے صدور نے صدر ٹرمپ کو الیکشن کے دوسرے ہی روز مبارکباد دے دی تھی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے داماد کے ذریعے عربوں کو اسرائیل تسلیم کرنے کیلئے بھی آمادہ کیا کیونکہ صدر ٹرمپ کے داماد‘ جو ان کے قومی سلامتی کے ایڈوائزر بھی تھے‘ نے سعودی عرب کے کراؤن پرنس محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید سے براہ راست تعلقات استوار کر کے اسرائیل کو پلک جھپکنے میں یو اے ای سے تسلیم کروا لیا۔ ابھی سعودی عرب اور دیگر ممالک نے تسلیم کرنا تھا‘ لیکن کنگ سلمان رکاوٹ بن گئے اور پھر یہ فیصلہ مؤخر کر دیا گیا؛ تاہم کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی لئے ایک خفیہ ڈیل ہو چکی ہے اور اس پر جزوی عملدرآمد شروع بھی ہو چکا ہے۔ رکاوٹ صرف اتنی ہے کہ نو عرب ممالک، جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی خفیہ رضا مندی ظاہر کر چکے ہیں، کے عوام اس کے سخت مخالف ہیں اور یہ بات ایک عوامی سروے میں سامنے آئی جس کے بعد اس کا اعلان روک دیا گیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی صدر ٹرمپ کے اتنے قریب آ چُکے تھے کہ انہوں نے باقاعدہ صدر ٹرمپ کو دوسری ٹرم میں دوبارہ منتخب کروانے کے لئے بطور بھارتی وزیر اعظم صدر ٹرمپ کے حق میں انتخابی نعرے بھی لگوا دیے۔ صدر ٹرمپ نے زلفی بخاری کے ذریعے نیویارک میں واقع پاکستانی ملکیت روزویلٹ ہوٹل خریدنے کی خواہش کا اظہار اور کوشش بھی کی۔ اب یہ معاملہ نیب کی تحقیقات کی زینت بن چکا ہے۔ بہرحال صدر ٹرمپ اس بار حسب توقع الیکشن ہارگئے لیکن وہ نتائج تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور روس نے بھی امریکی انتخابات کوغیر شفاف قرار دے دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے شکست کا سارا الزام پینٹاگون پر لگا دیا ہے جبکہ صدر جو بائیڈن اپنی اننگز کھیلنے کی تیاری اور اس سلسلے میں اپنی ٹیم کا انتخاب کر رہے ہیں۔ وزیر خارجہ پومپیو اپنے آخری دنوں میں سعودی عرب سمیت دیگر ملکوں کے ہنگامی دورے پر ہیں۔ 
صدر ٹرمپ کی شکست پر نیتن یاہو، نریندر مودی، ایم بی ایس، ایم بی زیڈ، کافی پریشان دکھائی دیتے ہیں کیونکہ انہیں ڈیموکریٹس کے ساتھ ٹرمپ جیسے ذاتی تعلقات استوار کرنے میں محنت کرنا پڑے گی۔ جو بائیڈن پاکستان کی سیاسی قیادت خاص طور پر پی پی پی سے کافی شناسائی رکھتے ہیں‘ اور نشانِ پاکستان بھی حاصل کر چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان صاحب حکومت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ٹرمپ کی پہلی سیاسی اننگز کے اختتام میں اہل شعور حکمرانوں کیلئے کافی نشانیاں ہیں۔
گلگت بلتستان کی انتخابی مہم سے فارغ ہونے، ملٹری قیادت پر الزام تراشی اور اپنے بیانیے کی ناکامی، پی ڈی ایم میں سخت اپوزیشن کے سامنے اور بلاول بھٹو سے مایوس کن ملاقات کے بعد مریم نواز نے افواج پاکستان کی طرف ایک بار پھر پیغام بھیجا ہے کہ وہ بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ اس کا رد عمل کیا آتا ہے۔ گو کہ افواج پاکستان کے ترجمان اس بارے میں پہلے واضح کر چکے ہیں؛ البتہ شریف خاندان کو سمجھ نہیں آ رہا کہ راستہ کہاں سے اور کیسے نکلے گا؟؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں