پاکستان میں نئے انتخابات کے پیش نظر سیاسی قوتوں کے درمیان نئی سیاسی صف بندیوں کا پیدا ہونا فطری امر ہے ۔مرکزی اور صوبائی سطح پر موجود حکومتی جماعتوں کے درمیا ن گزشتہ کئی برسوں سے اتحادی سیاست و باہمی تعاون کا عمل چل رہا ہے ۔ اب انتخابات کے قریب سیاسی جماعتیں نئی صورتحال میں نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہیں ۔ ماضی میں سیاسی اتحادوں کی تشکیل دائیں اور بائیں بازو کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ لیکن اب صورتحال کافی مختلف ہوگئی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت مشترکہ انتخابی نشان کے ساتھ میدان میںجانے پر شدید تحفظات رکھتی ہیں۔ماضی میںملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ)ن(ایک دوسرے کے مخالف سیاسی اتحادوں کی قیادت کرتی رہی ہیں ،لیکن اس بارانتخابات قریب ہونے کے باوجود وہ تاحال سیاسی اتحاد کو حتمی شکل نہیں دے سکیں۔یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی اتحادی بن کر حکومت کی ناکامیوں کا سیاسی بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ تمام حکومتی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی پلیٹ فارم سے انتخابات میںحصّہ لیں گی۔البتہ انتخابات میں کامیاب ہونے کی صورت میں ماضی کی طرح یہی جماعتیں دوبارہ مخلوط حکومتی بناسکتی ہیں۔ مرکز میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ)ق(، اے این پی اور ایم کیو ایم حکمران اتحاد کا اہم حصّہ ہیں ، اگرچہ ایم کیو ایم حکومت سے علیحدہ ہوگئی ہے مگر اسے کوئی حقیقی دُوری تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔ کہا جارہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں مشترکہ طور پر میدان میں اُتریں گی لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا۔پنجاب میں کوشش کی جارہی تھی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ )ق(ایک نشان کے تحت انتخابات لڑیں مگر مسلم لیگ)ق(اس پر راضی نہیں ہوئی ۔وہ چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ صرف سیٹ ٹُو سیٹ مفاہمت کی جائے اورپارٹی اپنے نشان پرانتخاب لڑے ۔بعض مقامات پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ)ق(کے درمیان سیٹ ٹُو سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بھی اختلافات ہیں۔ مسلم لیگ)ن(کی اتحادی سیاست میں پوزیشن واضح نظر نہیں آتی۔ ماضی میں مسلم لیگ )ن(دائیں بازو اورمذہبی جماعتوں کی سیاسی قیادت کرتی تھی، لیکن اس بار صورت حال خاصی حد تک بدلی ہوئی ہے ۔پاکستان تحریکِ انصاف کے راہنما عمران خان کسی بھی جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد کے حق میں نہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں شامل کسی بھی جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کریں گے۔وہ تنہا سیاسی پرواز کے حامی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر وہ انتخابی میدان میںسٹیٹس کو کی حامی جماعتوں سے اتحاد کرتے ہیں تو ان کا عوام میں سیاسی مقدمہ کمزور ہوجائے گا۔ جماعتِ اسلامی ابھی فیصلہ نہیں کرپائی کہ اسے انتخابات میں نواز شریف اور عمران خان میں سے کس سے انتخابی اتحاد کرنا ہے ۔ جماعتِ اسلامی کی پہلی کوشش یہ تھی کہ وہ نواز شریف اور عمران خان کے درمیان موجود سیاسی فاصلوں کو کم کرکے ایک مشترکہ اتحاد بناسکیں لیکن عمران خان کے سخت موقف کی وجہ سے انہیں کامیابی نہیں مل سکی۔جماعتِ اسلامی میں کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ انہیں نواز شریف اور عمران خان دونوں سے سیٹ ٹُو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے آگے بڑھنا چاہیے، لیکن یہ نظریہ کارگر ثابت نہیں ہوگا کیونکہ اس طرز کی حکمتِ عملی میں تضادات بہت نمایاں ہیں۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے یا سیٹ ٹُو سیٹ مفاہمت کے لیے تیار نہیں ۔ صوبائی سطح پر عوامی نیشنل پارٹی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے پر سخت تحفظات پائے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انھوںنے بھی پیپلز پارٹی کے اتحاد سے ہٹ کر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت العلمائے اسلام (جے یو آئی ) بھی تنہا میدان میں موجود ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کی کوشش تھی کہ وہ دینی جماعتوں کے تعاون سے متحدہ مجلسِ عمل کو بحال کرکے صوبہ خیبر پختونخوا میں کچھ بڑی کامیابی حاصل کرسکیںگے۔ لیکن جماعتِ اسلامی کی مخالفت کے بعد متحدہ مجلسِ عمل کی بحالی کی اہمیت تقریبا ختم ہوکر رہ گئی ہے ،اس لیے دینی جماعتوں کے اتحاد کا امکان بھی کافی کمزور نظر آتا ہے ۔وہ نواز شریف سے بھی رابطہ کررہے ہیں ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں فنکشنل لیگ اور قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مل کر نواز شریف ایک بڑا اتحاد بنانا چاہتے ہیں ۔سندھ میں مقامی حکومتوں کے نظام کی منظوری پر شدید ردِّعمل تھاجس نے سندھ کے قوم پرستوں سمیت پیپلز پارٹی کے ووٹروں میں غصہ پیدا کیا ۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ نواز شریف اس میں خاصے کامیاب ہونگے لیکن اب جس انداز سے پیپلز پارٹی نے مقامی حکومتوں کے نظام سے دست بردار ہوکر 1979ء کے سابقہ نظام کو بحال کیا اس سے سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف قوتوں کو سیاسی دھچکا لگا ہے ۔ سندھ میں سابقہ نظام کی بحالی کایہ عمل نواز شریف کے لیے بھی کمزوری کا سبب بنا ہے جو قوم پرستوں او رپیر پگاڑا کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کو اندرون سندھ ٹف ٹائم دینے کی حکمتِ عملی ترتیب دے رہے تھے۔سندھ میں یقینا پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ایک اتحاد ضرور سامنے آئے گا، لیکن یہ اتحاد بھی بڑی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ہی کے فارمولے پر آگے بڑھے گا۔کراچی اور حیدرآباد کی سطح پر ایم کیو ایم کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرکے سیاسی شراکت کی حامی نہیں ۔ بلوچستان کی صورتحال ابھی تک غیر واضح ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں میں مضبوط سیاسی امیدوار اور خاندان بھی انتخابی حقائق کو سامنے رکھ کرنئی سیاسی صف بندی کررہے ہیں ۔سیاسی خاندانوں کے افراد ایک جماعت سے دوسری جماعت میں جارہے ہیں ۔اس انتخابات میں اتحادی سیاست کی شکل و صورت ماضی کی تقسیم سے خاصی مختلف ہوگی۔