سیاسی جماعتوں کے داخلی انتخابات جمہوری عمل کی علامت ہیں پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت کا مقدمہ ہمیشہ سے بہت کمزور رہا ہے ۔ وہ جمہوریت کے ساتھ مضبوط کمٹمنٹ کے دعوے تو کرتی ہیں ، لیکن تنظیمی امور میں جمہوری روایات اور طرزِ عمل کو مضبوط بنانے سے اکثرگریز کرتی ہیں ۔ پارٹیوں کا اہم معاملہ داخلی انتخابات ہیں۔بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں اول تو اپنے اندر انتخابات کرانے سے گریز کرتی ہیں ۔ لیکن اگر انہیں بعض مجبوریوں کی بنا پر ایسا کرنا پڑے تو قائدین انتخابا ت کے بجائے نامزدگیاں کرلیتے ہیں۔قائدین اپنے اختیارات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرضی و منشاء کے لوگوں کو نامزد کرلیتے ہیں ۔آگے چل کر نامزد کئے ہوئے لوگ لیڈروں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں پیدا کرتے۔اس ماحول میں عمران خان نے تحریک انصاف میں یونین کونسل سے لے کر اوپر تک براہ راست انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو اس پر لوگوں کو بڑا تعجب ہوا۔عام انتخابات سے عین قبل تحریک میں داخلی انتخاب چیلنج سے کم نہیں تھے۔تحریک میں بعض لوگوں کی رائے تھی کہ پارٹی انتخابات عام انتخابات سے پہلے کرائے جائیں،جبکہ بعض لوگ اس سے اختلاف کرتے تھے۔سیاسی سوچ کے حامل افراد کا مشورہ تھا کہ یہ انتخاب ،عام انتخابات کے بعد ہونے چاہئیں تاکہ پارٹی مکمل یکسوئی کے ساتھ عام انتخابات کی تیاری کا حصہ بنے۔اس کے برعکس عمران خان سمیت کم سیاسی تجربہ رکھنے والے قائدین کی رائے تھی کہ تمام تر خطرات کے باوجود اخلی انتخابات کرائے جائیں ۔یقینا سیاسی جماعتیں اگر پارٹیوں میں براہ راست انتخابات کا راستہ اختیار کرتی ہیں تو یہ ایک مضبوط جمہوری عمل کی علامت ہے۔کیونکہ جماعتوں میں براہ راست انتخابات ہی حقیقی قیادت کو سامنے لاتے ہیں۔لیکن ہر کام کی طرح سیاسی جماعتوں میں بھی داخلی انتخابات کے لیے ایک موزوں وقت کا انتخاب ضروری ہے۔بعض اوقات اچھے اور بڑے فیصلے غلط وقت پر کرنے سے بہتر نتائج کی جگہ مسائل کھڑے کردیتے ہیں ۔تحریک انصاف کے ساتھ بھی یہی کچھ ہواکہ اچھا فیصلہ غلط وقت پر کیاگیا۔تحریک کے داخلی انتخابات کی کہانی بھی کچھ اسی طرز کی ہے۔ ان داخلی انتخابات اور اس کے نتائج نے جہاں کچھ اچھے عوامل کو اجاگر کیا ہے وہیں ہمیں کچھ ایسے نتائج بھی دیے ہیں جوتحریک ، قیادت اور بالخصوص عمران خان کی اخلاقی اور سیاسی ساکھ کے حوالے سے لوگوں میں نئی بدگمانیوں کو جنم دینے کا باعث بنے ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب عمران خان نے پارٹی کے داخلی انتخابات براہ راست کرانے کا فیصلہ کیا تو یہ یقین تھا کہ اس میں انہیں کافی سیاسی اور انتظامی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس لیے ان انتخابات میں جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ فطری امر تھا ۔ کیونکہ پارٹی کی تنظیمی صلاحیت کا فقدان پارٹی میں پہلے بھی غالب تھا اور انتخابی عمل نے اسے اور زیادہ نمایاں کردیا ۔ تحریک انصاف کے داخلی انتخابات کی جو ذمہ داری حامد خان اور ان کے ساتھیوں کو دی گئی تھی اُس میں زیادہ تر وکلا شامل تھے ، وہ ان انتخابات کو پرامن اور شفاف بنانے میں بری طرح ناکام رہے ۔دراصل وکلا کو عملی طور پر بار کے انتخابات کا تجربہ ہوتا ہے ۔ لیکن سیاسی جماعتوں کے انتخابات بار کے انتخابات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ان انتخابات نے تحریک کی تنظیمی خرابیوں اور خامیوں کو پوری طرح آشکار کردیا ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انصاف میں کارکنوں کی تربیت کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ اسی طرح ان انتخابات میں پرانے اور نئے کارکنوں کے درمیان منظر عام پر آنے والی گروہ بندی نے پارٹی کی جمہوری شناخت کو متاثر کیا ۔ اگر خان نے پارٹی میں نئی اور پرانی تقسیم کو فوری طور پر کم نہ کیا تو اس کے اثرات ، عام انتخابات اور پارٹی کی یکجہتی پر بہت بُرے ہوں گے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ یہ گروپ بندی محض نیچے تک محدود نہیں ، بلکہ پارٹی کی بالائی سطح پر بھی جو گروپ بندیاں نظر آرہی ہیں اس کا براہ راست اثر عام انتخابات کے میں دیکھنے کو ملے گا۔ان گروپ بندیوں کو ختم یا کم کرنے میں پارٹی کی قیادت میں مطلوبہ فہم فراست اور تدبر کا واضح فقدان ہے۔ جب بھی بالواسطہ طریقہ کا ر کسی بھی سٹیج پر اپنایا جائے گا تو وفاداریوں کو حق میں تبدیل کرنے کے لیے مضبوط دھڑے بندیاں پیسے اور طاقت کی بنیاد پر نتائج کو اپنے حق میں کرنے کے لیے ہر طرح کے جائز و ناجائز حربے اختیار کرنا پڑیں گے ۔ یہ کہانی ہم ماضی کے مقامی انتخابات میں بیشتر مقامات پر دیکھ چکے ہیں ۔اس لیے اگر تحریک انصاف بھی ہر سطح پر براہ راست انتخاب کا طریقہ اختیار کرتی تو مسائل کی شدت کم ہوسکتی تھی۔ تحریک کے داخلی انتخابات میں بنیادی سوال اس کی شفافیت کا ہے اور یہ سوال صرف تحریک کے مخالفین ہی نہیں کررہے بلکہ خود تحریک کے اپنے لوگوں میں بھی ان کی صحت پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں ۔لاہور کے انتخابات میں جو کچھ ہوا اس کی تو پارٹی کی سطح پر ایک بڑے پیمانے پر غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ دولت اور روپے پیسے کے کھیل نے لاہور کے انتخاب کو لوگوں میں مذاق بنادیا ۔ جو لوگ جیت کر آئے ہیں ان کی اصل طاقت پارٹی کے لوگ کم اور سرمائے کا کھیل زیادہ تھا۔میڈیا کی رپورٹس کے مطابق یہاں یونین کی سطح پر جو لوگ منتخب ہوئے ان کی خریدو فروخت بڑے پیمانے پر کی گئی۔ لاہور میں اب جو لوگ جیت کر آئے ہیں ان کے ساتھ عمران خان تبدیلی اور انصاف کے نعرے کے ساتھ جب میدان میں اتریں گے تو لوگوں میں ایک سوالیہ نشان کے ساتھ ایک بڑا ردعمل ضرور پیدا ہوگا۔پنجاب کے انتخابات جو ابھی ہونے ہیں اس میں بھی ضلعی عہدے داروں کی حمایت کے حصول میں وہی پرانی کہانی دہرائی جارہی ہے جس کے خلاف عمران خان مزاحمت کا نعرہ لگاتے ہیں ۔پچھلے چند دنوں میں مجھے انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن اور نوجوان طبقات کے پارٹی انتخابات کے بارے میں خیالات بھی سننے کا موقع ملا ۔ ان کے بقول جو کچھ بھی ہوا ہے وہ مرکزی قیادت میں شامل بیشتر افردا کی حمایت کے ساتھ ہوا ہے۔ خان صاحب کو چاہیے کہ وہ ان نوجوانو ں کے خیالات بھی سنیں کہ وہ ان انتخابات کو کس انداز میں دیکھ رہے ہیں، کیونکہ اگر وہ مایوس ہوئے تو عمران خان کچھ نہیں کرسکیں گے۔ عمران خان کو یقینا یہ بات بری لگے گی ، لیکن لاہور، ملتان سمیت بیشتر مقامات پر تحریک کے داخلی انتخابات پر وہ سب کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ہم ، اصولوں پر دولت اور طاقت کو ترجیح کی سیاست کے نتائج ماضی او ر اب حال کی سیاست میں دیکھ رہے ہیں ۔ اگر تحریک انصاف عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے بھی یہی کچھ کرنا ہے تو پھر تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کو مایوسی ہوگی ۔عمران خان جب دو بڑی جماعتوں پر شدید تنقید کرتے ہیں تو ان کا اپنا سیاسی اور اخلاقی مقدمہ ان جماعتوں کے طرز عمل کے مقابلے میں کچھ زیادہ مضبوط نہیں رہتا، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔