"SAC" (space) message & send to 7575

نئے پاکستان کا خواب

مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف ایک نئے پاکستان کی تعمیر چاہتے ہیں جس کی بنیاد معاشی ترقی اور خوشحالی ہو۔ وہ ایک بڑے سیاسی رہنما ہیں اور ان کے ساتھی انہیں انقلابی لیڈر سمجھتے ہیںلیکن ان کے تازہ انتخابی منشور میں کئی تضادات ہیں۔ ان کی جماعت پہلی بار انتخابات میں حصّہ نہیں لے رہی بلکہ وہ ماضی میں کئی بار مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی سربراہی کر چکی ہے۔ میاں نواز شریف عموماً الزام لگاتے ہیں کہ ان کے ترقیاتی اہداف اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی مخالفین نے مکمل کرنے کا موقع نہیں دیا۔ اس میں کچھ سچائی ہو سکتی ہے لیکن ان سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی رہی ہیں۔ اس وقت ملک انتخابات کی جانب گامزن ہے اور تمام جماعتیں نئے دعوئوں کے ساتھ انتخابی میدان میں اتر رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کا نیا انتخابی منشور بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہماری انتخابی سیاست میں خوشنما انتخابی منشور کا بڑا دخل ہوتا ہے لیکن اس کی حیثیت ایک ’’ خوشنما تاریخی دستاویز‘‘ سے زیادہ نہیں ہوتی کیونکہ انتخابی منشور سیاسی جماعتوں کی انتظامی مجبوری کے تحت سامنے آتے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن منشور پیش کرنے کی پابندی اٹھا لے تو ہم ان منشوروں کے مطالعے سے بھی محروم رہ جائیں گے۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشوروں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ان جماعتوں کی طرف سے انتخابات میں حصّہ لینے والے بیشتر امیدواروں اور سیاسی کارکنوں کو اپنے منشور سے آگاہی نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیںکہ دُنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کے منشور اُن کی سوچ اور خیالات کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ منشور لوگوں کو یہ دیکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کیا ایجنڈا رکھتی ہیں۔ لیکن انتخابی منشور محض خوبصورت باتوں تک محدود ہو جائے تو پھر یہ لوگوں میں اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی حمایت میں کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا سیاسی نظام بار بار کی فوجی مداخلتوں کے باعث ناپختہ ہے لیکن انہی نا مساعد حالات میں سیاسی جماعتوں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ مشکل حالات میں کیا طرز عمل اختیار کرتی ہیں۔ اس لیے فوجی حکمرانی پر تنقید بجا مگر سیاسی جماعتوں کا اپنا مقدمہ بھی کافی کمزور ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن سیاسی جماعتوں کی قیادت فرد واحد کے پاس ہو گی اُس میں جماعتی منشور اجتماعی سوچ کی ترجمانی کرنے کی بجائے انفرادی پسند و نا پسند کا آئینہ دار ہو گا۔ میاں نواز شریف نے مسلم لیگ ن کے مطبوعہ منشور کے صفحہ 73پر ایک نیا نعرہ متعارف کروایا ہے۔ اس نعرے کی بنیاد’’ آئو بدلیں پاکستان‘‘ ہے۔ اس میں تارکین وطن کو بنیاد بنا کر جامع پروگرام کی بات کی گئی ہے تا کہ انہیں قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جا سکے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ملک کو معاشی ترقی اور خود مختاری کے حصول اور کشکول توڑنے کے لئے میاں نواز شریف نے ’’ قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کا نعرہ دیا تھا اور اس کے ساتھ قوم کی بڑی امیدیں وابستہ ہو گئی تھیں لیکن یہ مہم کہاں گئی اور جو رقم لوگوں نے دی تھی اس کا حساب کتاب کہاں ہے؟ یہ سب کسی کو تو معلوم ہو گا۔ اب پھر وہ پاکستان کو ایک نئے پاکستان میں تبدیل کرنے کے لئے بے چین نظر آتے ہیں۔ اس منشور میں انہوں نے صوبائی خود مختاری، مقامی اور بالخصوص دیہی ترقی اور اختیارات کی تقسیم کی بات کی ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ میثاق جمہوریت کے معاہدے میں مقامی حکومت اور دستور کی شق 140اے پر عملدر آمد کے لئے بہت زور دیا گیا تھا لیکن گزشتہ تین برسوں سے دیگر صوبوں کی طرح پنجاب بھی مقامی حکومتوں کے نظام سے محروم ہے۔ اس محرومی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بڑی وجہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی جماعت خود مختار مقامی حکومت کے مقابلے میں بلدیاتی اداروں کی حامی ہے۔ ان کا ماڈل نئی ضرورتوں اور تقاضوں سے ہم آہنگ مقامی حکومت نہیں بلکہ سابق فوجی ڈکٹیٹر کے بلدیاتی نظام سے جڑا ہے۔ یہ رجحان صرف مسلم لیگ ن کا نہیں بلکہ دوسری برسر اقتدار جماعتیں بھی مضبوط مقامی نظام حکومت کو پسند نہیں کرتیں۔ میاں نواز شریف نے اس منشور میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد چھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات کروانے کا وعدہ کیا ہے۔ مسلم لیگ ن انتخابی منشور میں مضبوط صوبائی خود مختاری کی بات کرتی ہے لیکن ضلعوں، تحصیلوں اور یونین کونسلوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی بنیادوں پر مستحکم کیے بغیر مضبوط پاکستان کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی پر جو موقف اختیار کیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں بشمول مسلم لیگ ن اس پر واضح بات کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔ وہ دہشت گردی کا حل مصنوعی طریقہ سے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک سے غیر قانونی اسلحہ ختم کرنے کے حوالے سے بھی کوئی مضبوط عزم نظر نہیں آیا۔ خارجی اور سفارتی محاذ پر ہم جن مشکلات سے گزر رہے ہیں، اُس کا حل بھی منشور کا حصّہ نہیں ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے کے لئے دعوے بہت ہیں لیکن پنجاب کا تعلیمی اور صحت کا ڈھانچہ ان کے اپنے دور میں سوالیہ نشان رہا ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ ن نے دانش سکول قائم کیے لیکن وہ بے شمار سرکاری سکول جو بنیادی سہوتوں سے محروم ہیں، اس کی ترجیحات کا حصہ نہ بن سکے۔ مسلم لیگ ن کا میگا پراجیکٹس پر زورہے۔ دیہی ترقی، چھوٹے منصوبے اور معاشی پیداوار کو بڑھانے میں ان کی دلچسپی بہت کم نظر آتی ہے۔ میاں نواز شریف سٹیٹس کو ختم کرنے کا اعلان تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ مصلحت پسندی، اقربا پروری اور سیاسی حامیوں کے مفادات کے درمیان کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس وقت انہوں نے اپنی جماعت کے دروازے ان تمام سیاست دانوں کے لئے کھولے ہوئے ہیں جن کی منزل بڑی تبدیلی کی بجائے صرف انتخاب جیتنا اور اقتدار کا حصول ہے۔ یہ صرف مسلم لیگ ن کا المیہ نہیں بلکہ بیشتر سیاسی جماعتیں اسی طرز کی سیاست کی اسیر ہیں۔ میاں نواز شریف واقعتاً نئے پاکستان کی تعمیر چاہتے ہیں تو انہیں اپنی موجودہ سیاست کا خود تجزیہ کر کے بہتری کی جانب آگے بڑھنا ہو گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں