"SAC" (space) message & send to 7575

پنجاب میں شفاف حکمرانی کا سوال

پاکستان کی سیاست میں نئے سیاسی رجحانات کا اضافہ ہوا ہے ۔ ان میںسے ایک ملکی اور بین الاقوامی اداروں کی وہ رپورٹس ہیں جو براہِ راست جمہوری حکمرانی اور شفافیت پر مبنی نظام پر اپنی رائے دیتی ہیں ۔سو، وہ ادارے جو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ رکھتے ہیں، ان کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست میں ان اداروں کی رپورٹس اور ان کے نتائج کو بنیاد بناکر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انہی اداروں میں ایک بڑا ادارہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل بھی ہے جو بین الاقوامی سطح پر اچھی ساکھ رکھتا ہے ۔یہ ادارہ عام طور پر سارے ملکوں میں سیاسی نظام ، طرزِ حکمرانی اور شفافیت پر مبنی سوالات کا مختلف طریقوں سے جائزہ لے کر اپنی رائے سامنے لاتا ہے ۔اگرچہ یہ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے ، لیکن اس کی شاخیں مختلف ملکوں میں موجود ہیں۔ پاکستان بھی ان میں شامل ہے ۔تاہم پاکستا ن میں یہ ایک آزاد ادارہ ہے اور اس کے پیش کردہ نتائج کا بین الاقوامی ادارہ ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ البتہ پاکستا ن میں بھی یہ ادارہ یقینا بین الاقوامی اصولوں کو سامنے رکھ کر ہی کام کرتا ہے۔ پچھلے دنوں پاکستان میں موجود اس ادارے اور پنجاب حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا تھا ۔ اس معاہدے کی رو سے اس ادارے نے پنجاب حکومت کے کچھ منصوبوں میں شفافیت کا جائزہ لینا تھا، جن میں اجالا، سولر پراجیکٹ، لیپ ٹاپ سکیم اور رپیڈ بس سروس کے منصوبے شامل تھے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے اس ادارے نے ان منصوبوں پر اپنی رپورٹ دی ہے کہ ان میں قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی کی گئی ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ واقعی یہ منصوبے شفافیت پر مبنی تھے کہ نہیں ، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور حکومت پنجاب کے درمیان معاہدے کے پس منظر اور اس کے نتائج کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اور یہ بھی ایک سوال ہے کہ فریقین کے درمیان جو معاہدہ ہوا، اس کی تفصیلات کہاں ہیںاور یہ معاہدہ کن شرائط پر ہوا؟ علاوہ ازیں ادارے کو جائزے کے لیے جو اہم دستاویزات درکار تھیں وہ بھی پنجاب حکومت ہی نے پیش کرنا تھیں ۔کیا ممکن ہے کہ صوبائی حکومت سے متعلقہ ادارے یا افراد اپنی حکومت اور وزیراعلیٰ کے اقدامات کے خلاف کوئی تحریری دستاویزات پیش کردیں؟ یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ کیا ماضی میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل یا پاکستان میں موجود اس کے ادارے نے کسی بھی حکومت کی شفافیت کو جانچنے کے لیے اس طرز کا کوئی معاہدہ کیا تھا؟ شاید نہیں۔ اگرچہ یہ معاہدہ پنجاب حکومت سے ہے لیکن حکومت مسلم لیگ ن کی ہے تو اسے سیاسی جماعت کے ساتھ معاہد ے کے طور پر بھی دیکھا گیا ہے، اسی لیے جب ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے پنجاب حکومت سے معاہدہ کیا تو وہ بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔ اگر یہ ادارہ از خود ان منصوبوں کا جائزہ لیتا اور اسے پنجاب حکومت کی رضا مندی یا کسی معاہدے سے دور رکھتا تو یہ اس ادارے کی ساکھ کے لیے بہتر ہوتا۔ احتساب کے لیے دنیا بھر میں ایک مسلّمہ اصول ہے کہ جس فرد، ادارہ، یا حکومت پر مالی بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے الزامات ہوں وہ خود اپنی مرضی اور منشا کے مطابق کسی ادارے یا فرد کا تقرر نہیں کرسکتے ؟ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ فریقین میں جو معاہدہ ہوا وہ انتخابات اور انتخابی مہم کو پیش نظر رکھ کر ہی کیا گیا تھا۔ اسی لیے ادارے نے جو نتائج جاری کیے، ان پر تنقید ہورہی ہے۔ مسلم لیگ ن ان نتائج کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی مگر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی ساکھ اس معاہدے سے ضرور مجروح ہوگی۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے تھی کہ پنجاب کی حکومت نے سستی روٹی سکیم، فوڈ سپورٹ پروگرام، گرین ٹریکٹر، ییلو کیب، آشیانہ ہائوسنگ سکیم، لیپ ٹاپ ، ریپڈ بس سروس ،اجالا اور سولر پراجیکٹ جیسے منصوبے ایک سیاسی ضرورت کے تحت پیش کیے تھے۔ ادارے نے قمر الزمان کائرہ، عمران خان اور چودھری پرویزالٰہی کو خط لکھا تھا کہ اگر ان کے پاس ان منصوبوں کے بارے میں کرپشن کے ثبوت ہیں تو وہ انہیں پیش کریں۔ خط کے جواب میں مسلم لیگ (ق) اور پاکستان تحریک انصاف نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں مطلوبہ دستاویزات فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنا نقطہ نظر پیش کرسکیں۔ ان دستاویزات میں پی سی ون، فزیبیلٹی رپورٹ اور مالی اخراجات کی تفصیل شامل تھی، لیکن ادارے اور پنجاب حکومت دونوں نے ایسا نہ کیا اور نہ معاہدے کی تفصیلات ہی سے ان جماعتوں کو آگاہ کیا۔ اس ادارے سے یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے میڈیا میں ان لوگوں سے کیوں رابطہ نہیں کیا جو تسلسل کے ساتھ ان منصوبوں کے بارے میں اپنے پروگراموں یا کالموں میں شکوک کا اظہار کرتے رہے۔ بہرحال ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان میں موجود اس ادارے نے ان تینوں منصوبوں کی مالی شفافیت پر کوئی گواہی نہیں دی۔ ادارے کے بقول انہوں نے صرف ان منصوبوں کے قواعد و ضوابط کو دیکھا ہے جبکہ مالی اخراجات کو دیکھنا معاہدے کا حصہ نہیں تھا۔ ادارہ کے سربراہ عادل گیلانی کا کہنا ہے کہ ہم نے پنجاب حکومت کو کوئی سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا اور نہ ہم کسی حکومت کو کسی بھی طرز کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے مجاز ہیں۔ ہم نے صرف ،ان منصوبوں میں جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ،اس کو درست قرار دیا ہے۔ اس ادارے کے بقول مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرنا آڈٹ کرنے والوں کا کام ہے جو ہمارے دائرۂ کار میں نہیں آتا۔ ممکن ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا نقطہ نظر ٹھیک ہو لیکن اب پنجاب کا حکمران طبقہ اس رپورٹ کو سیاسی طور پر استعمال کرے گاتو اس کا تدارک کیسے ہوگا۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مرکزی ادارے کو بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ان کے ادارے کی کوئی بھی شاخ حکومتوں اور سیاسی جماعتوں سے اس طرز کے معاہدے کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے؟ یا طے کردہ دائرہ کار سے تجاوز کیا گیا ہے؟ مناسب ہوگا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پنجاب حکومت کی جانب سے شفافیت کے سرٹیفکیٹ کے دعوے پر اپنی پوزیشن واضح کرے، وگرنہ پاکستان کی حد تک ادارہ ضرور متنازعہ ہوجائے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں