یہ بحث بے معنی ہے کہ عمران خان کا لاہور میں ہونے والا حالیہ جلسہ پچھلے جلسے سے بڑا تھا یا چھوٹا۔ہمیں اس بحث میں الجھنے کی بجائے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ یہ جلسہ تاریخی اور اپنے اثرات کے اعتبار سے بہت اہم تھا۔یہ اعتراف ان لوگوں نے بھی کیا جو عمران خان کی سیاست کے ناقد ہیں۔نوازشریف کی ہوم گرائونڈ پر تحریک انصاف کا دوسرا بڑا جلسہ ثابت کرتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی پنجاب کے شہروں پر سیاسی اجارہ داری کمزور ہوئی ہے۔عمران خان کا یہ جلسہ سیاسی مخالفین کے اس دعوے کی نفی تھا کہ وہ سیاسی طور پر کمزور ہوچکے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی کے داخلی انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل اور دھڑے بندی نے انہیں مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔کچھ لوگوں کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ ان کی مقبولیت کے پیچھے بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا۔انتخابی سروے کے نتائج بھی سامنے لائے گئے جن میں ظاہر کیاگیا کہ نوازشریف عمران خان سے زیادہ مقبول ہوگئے ہیں۔لیکن اب لاہور میں عمران خان کے جلسے نے ثابت کردیا ہے کہ ان دعوئوں میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ان کی مقبولیت کی بڑی وجہ ان کی شخصیت اور سیاست ہی ہے۔عمران خان کو پزیرائی ملنے کی وجہ مرکز اور صوبوں کی ناقص حکمرانی کا بھی دخل ہے۔انہوں نے اسی طرز حکمرانی کو بنیادی نقطہ بناکر سیاسی مخالفین کو کمزور کیا ۔دراصل ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پسندیدہ سیاستدانوں کی حمایت کی جاتی رہی ہے اس لئے عمران خان کو بھی ان الزامات کا سامنا رہا۔اس کے برعکس مسلم لیگ ن کے حامی دانشور اس بات پر زور دیتے رہے کہ اسٹیبلشمنٹ نوازشریف کو دیوار سے لگاکر ان کے مخالفین کی حمایت کررہی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ الزام تراشیوں میں الجھنے کی بجائے نئے سیاسی حقائق کا ادراک کیاجائے۔ لاہور میں تحریک انصاف کے بڑے جلسے نے ثابت کیا ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد ان کی حامی ہے۔اگرچہ جلسہ میں بدنظمی اور تنظیمی صلاحیتوں کا فقدان غالب تھا لیکن اس کے باوجود عمران خان نے جلسہ گاہ میں موجود لوگوں اور دنیا بھر میں ٹی وی پر دیکھنے والوں کو پیغام مضبوط انداز میں دیا۔انہوں نے موجودہ صورتحال میں شاندار ’’ باری‘‘ کھیل کر سیاسی میدان میں ’’ کم بیک‘‘ کیا ہے۔نوجوان طبقہ بدستور عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے۔جلسہ گاہ میں عورتوں کی اپنے خاندان کے ہمراہ شمولیت اچھے سیاسی ماحول کی نشاندہی کررہی تھی۔جلسے میں لوگوں کی جذباتی کیفیت نمایاں تھی ۔یہی کیفیت عمران خان کے خطاب میں بھی نظر آئی جو ظاہر کرتی ہے کہ وہ اور ان کے حامی کچھ کرنے کی امنگ رکھتے ہیں۔ جلسے کی سیاسی ٹائمنگ بڑی اہمیت کی حامل تھی۔انتخابی شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے لہٰذا جلسہ کی کامیابی یا ناکامی کا اثر ان کی انتخابی مہم پر پڑنا تھا۔اگر عمران خان اپنے سیاسی حریفوں کے مقابلے میں کامیاب ہوگئے تو ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہوجائیں گے۔ان کے سیاسی مخالفین خصوصاً مسلم لیگ ن کی کوشش ہوگی کہ انہیں بڑی انتخابی مہم سے روکا جائے۔اب یہ بات کافی حد تک واضح ہوگئی ہے کہ ن لیگ کے لیے پنجاب کا سیاسی میدان فتح کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔کیونکہ دونوں جماعتوں کا شہری رائے دہندگان پر بڑا اثر ہے۔ بعض سیاسی پنڈت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی کے لیے بڑے جلسے حتمی رائے ترتیب نہیں دے سکتے۔ان کے بقول جلسوں اور انتخابات کے دن ووٹروں کا پولنگ سٹیشن پر آنے میں بڑافرق ہوتا ہے۔یہ بات بجا ہے کہ بڑا جلسہ کسی کی کامیابی یا ناکامی کی ضمانت نہیں لیکن اس سے سیاسی رجحان کی نشاندہی ضرور ہوتی ہے۔اس لیے بڑے جلسوں کو یکسر نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔اگر عمران خان پنجاب کے دوسرے شہروںاور دوسرے صوبوں میں بھی بڑے جلسے منعقد کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کے انتخابی نتائج پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔عمران خان کے سیاسی مخالفین کو ان سے بھی بڑے سیاسی جلسے کرنے ہونگے۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان الیکشن میں اکثریت حاصل نہ کرسکے تو نوازشریف کے ووٹ بینک کو متاثر کرکے انہیں سیاسی برتری سے باہر ضرور کرسکتے ہیں۔اسی لیے پیپلزپارٹی کے بعض رہنمائوں کا موقف ہے کہ عمران خان ان کے لیے خطرہ نہیں ،لیکن وہ اس حقیقت کو فراموش کررہے ہیں کہ عمران خان نے پیپلزپارٹی کے ووٹروں کو بھی اپنی طرف مائل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔خصوصاً پیپلزپارٹی کے شہری ووٹروں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔لہٰذا انتخابی نتائج پیپلزپارٹی کے لیے حیران کن ہوسکتے ہیں۔ لاہور کے تاریخی جلسے کے باوجود عمران خان کو داخلی اور خارجی سطح پر مسائل کا سامنا ہے۔ادھر میاں نوازشریف بھی کمزور کھلاڑی نہیں۔انہوں نے پچھلے کچھ ماہ میں روایتی سیاست کے طور طریقے اختیار کرکے اپنے آپ کو حلقہ جاتی سیاست میں کافی مضبوط کیا ہے۔بہت سے اہم کھلاڑی ان کی جماعت میں شامل ہورہے ہیں۔نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کے پاس یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کی کمزوریوں کو بنیاد بناکر اپنے لیے راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔میڈیا میں ن لیگ کو بہت اچھی رسائی حاصل ہے۔اسی طرح پنجاب کی دیہی سیاست میں چودھری برادران اور پیپلزپارٹی کمزور حریف نہیں۔عمران خان کو تین بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔اول ، انہیں فوری طور پر پارٹی میں موجود داخلی بحران کو کم کرکے انتخابی مہم میں تیزی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔دوئم ، عمران خان کو پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر سمجھوتہ کرنے کی بجائے اہل اور اچھی شہرت کے لوگوں کو ٹکٹ جاری کرنے ہوں گے۔انہیں اپنے وعدے کے مطابق 25 فیصد ٹکٹ نوجوانوں کو جاری کرنے چاہئیں۔سوئم ، عمران خان کو شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بھی اپنی مہم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔اگر وہ تبدیلی کے متمنی لوگوں میں یہ پیغام اجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ وہی تبدیلی کا محور ہیں تو ان کا راستہ کافی حد تک ہموار ہوجائے گا۔