جماعت اسلامی کا مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں ناکامی کا جو نتیجہ سامنے آیا وہ غیر متوقع نہیں تھا۔ بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی کہ ماضی کی دو بڑی انتخابی حلیف جماعتوں میں مفاہمت کیوں نہ ہوسکی۔ لیکن جس انداز سے دونوں جماعتوں میں گفت و شنید ہورہی تھی اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ نتیجہ ناکامی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اول‘ یہ ایک غیر منطقی اتحاد تھا جس کی کارکنوں کی سطح پر قبولیت نہیں تھی۔ دوئم‘ گزشتہ چھ برسوں میں جماعت کا موقف تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ انہیں فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ بھی دیا جاتا تھا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جماعت اسلامی کے کارکن مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں تحریک انصاف کے بارے میں زیادہ اچھی رائے رکھتے تھے۔ اسے جماعت اسلامی کی قیادت کی ناکامی کہا جائے گا کہ وہ کئی مہینوں کے مذاکرات میں شریف برادران کا مزاج سمجھ نہ سکے؛ حالانکہ ماضی میں بھی اسلامی جمہوری اتحاد اور اے پی ڈی ایم کی صورت میں جماعت اسلامی کو مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا تلخ تجربہ تھا۔ شاید وہ اس خوش فہمی میں رہے کہ جماعت ،انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی سیاسی ضرورت ہے۔ میاں نوازشریف نے جن لوگوں کو جماعت اسلامی کے ساتھ مذاکرات کے لیے نامزد کیا اس میں بہت سے لوگ ناتجربہ کار اور کم سیاسی حیثیت کے حامل تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کی ترجیحات میں جماعت اسلامی کے ساتھ مفاہمت کی زیادہ اہمیت نہیں۔ اگر مذاکرات براہ راست قیادت کے درمیان ہوتے تو نتائج مختلف ہوسکتے تھے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ میاں نوازشریف عمران خان کی مقبولیت سے خائف ہوگئے تھے۔ انہیںخطرہ تھا کہ کہیں جماعت اسلامی عمران خان کے ساتھ نہ مل جائے۔ انہیں یہ بھی اندازہ تھا کہ عمران خان کی ناتجربہ کاری میں جماعت اسلامی کی حکمت اورتجربہ شامل ہوگیا تو ان کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس پس منظر میں میاں نوازشریف کی حکمت یہ تھی کہ جماعت اسلامی کو ہر صورت میں عمران خان سے دور رکھ کر اسے اپنے ساتھ طویل مذاکرات میں الجھایا جائے اوراگر ایڈجسٹمنٹ کرنی ہی پڑے تو وہ صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) کی شرائط پر ہونی چاہیے۔ میاں نوازشریف نے جماعت اسلامی کی اس اندرونی تقسیم سے بھی خوب فائدہ اٹھایا کہ انہیں عمران خان اور نوازشریف میں سے کس کا اتحادی بننا چاہیے۔ بظاہر مسلم لیگ (ن) نے یہ موقف اختیار کیا کہ جماعت اسلامی کی طرف سے زیادہ نشستوں کا مطالبہ غیرمنطقی اور حقائق کے منافی تھا اور یہی موقف سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں ناکامی کی بڑی وجہ بنا۔ ممکن ہے یہ بات کسی حد تک درست ہو لیکن سید منور حسن کے اس موقف میں بھی بڑا زون ہے کہ نوازشریف اور عمران خان دونوں امریکہ اور دوسری عالمی قوتوں کو یہ پیغام دینے سے گریز کررہے ہیں کہ وہ مذہبی جماعتوں کے ساتھ انتخابی سیاست کا حصہ ہیں۔ سید منور حسن کے موقف کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ میاں نوازشریف نے مولانا فضل الرحمن، پروفیسر ساجد میر سمیت دوسری مذہبی جماعتوں کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی۔ مسلم لیگ (ن) پر مخالفین پہلے ہی یہ الزام شدت سے لگا رہے ہیں کہ وہ کالعدم مذہبی تنظیموں کے ساتھ انتخابی ایڈجسٹمنٹ کررہے ہیں۔ پارٹی قیادت اس کی نفی کرتی ہے۔ سید منور حسن کے بعد مولانا فضل الرحمن نے بھی طعنہ دیا ہے کہ نوازشریف کسی کے دبائو کی وجہ سے ہمارے ساتھ مفاہمت سے گریز کررہے ہیں۔ اس وقت خطے میں بین الاقوامی قوتوں کا عمل دخل زیادہ ہے۔ اس لیے نوازشریف ہی نہیں بلکہ دوسری جماعتیں بھی ایسی حکمت عملی سے گریز کررہی ہیں جو بین الاقوامی قوتوں میں ان کی قبولیت میں رکاوٹ پیدا کرے۔ سید منور حسن کی اس بات میں بھی وزن نظر آتا ہے کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں ناکامی کی وجہ نوازشریف اور عمران خان کا غیر لچکدار رویہ ہے۔ ان کے بقول نوازشریف اور عمران خان دونوں اپنے آپ کو وزیراعظم کے منصب پر دیکھ رہے ہیں اور سیاسی زعم میں مبتلا ہو کر دوسری جماعتوں کو سیاسی مزارع سمجھتے ہیں۔ میاں نوازشریف کے بارے میں یہ بات کافی حد تک درست معلوم ہوتی ہے کہ وہ جب مشکل میں ہوتے ہیں تو سیاسی اتحادیوں کو قریب کرلیتے ہیں لیکن حالات بدلتے ہی وہ اتحادیوں سے فاصلے بڑھا لیتے ہیں اور اب تو سیاسی پنڈت نوازشریف کی جیت کو یقینی سمجھ رہے ہیں، اس لیے وہ کسی کو کیوں قبول کریں گے۔ عمران خان پہلے ہی سولو فلائٹ کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ دراصل جماعت اسلامی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) یا پی ٹی آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں ناکامی کی وجہ دونوں جماعتوں میں سخت گیر مزاج رہنما تھے جو جماعت کو انتخابی سیاست میں شریک نہیں کرناچاہتے تھے۔ اسی طرح جماعت اسلامی میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی قیادت کو دونوں جماعتوں سے مذاکرات کرکے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے پر زور دیتے رہے لیکن یہ حکمت عملی کارگر ثابت نہ ہوسکی۔ اگر جماعت اسلامی یکسو ہو کر ایک برس قبل مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی میں سے کسی ایک کے ساتھ مفاہمت کرلیتی تو آج اس کی پوزیشن بہتر ہوتی۔ عمران خان یہ گلہ کر چکے ہیں کہ جماعت اسلامی ہمارے ساتھ اتحاد کرنے کے معاملے میں دو کشتیوں پر سوار تھی۔ اگرچہ اب سید منور حسن نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے نشان، جھنڈے اور ایجنڈے کے تحت انتخابی میدان میں اتریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ان انتخابات میں مضبوط حکمت عملی ترتیب دینے میں کافی دیر کردی ہے۔ جماعت اسلامی کا ووٹ بینک اگرچہ محدود ہے لیکن یہ دونوں جماعتوں کو کسی نہ کسی حد تک متاثر کرسکتا ہے۔