"SAC" (space) message & send to 7575

سیاسی جماعتوں کا گٹھ جوڑ؟

مسلم لیگ (ن ) لیڈران تسلسل کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، صدر زرداری کے اتحادی ہیں اور اسی گٹھ جوڑ کے ساتھ وہ ہمیں دیوار کے ساتھ لگانا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کھیل کی پشت پناہی کی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ عمران خان ان کے ووٹ بینک کو تقسیم کر کے عملی طور پر پیپلز پارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔ ان دو مفروضوں کی بنیاد پر شریف برادران انتخابی مہم میں ووٹروں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس سیاسی جال کا شکار ہونے کی بجائے مسلم لیگ (ن) پر اعتماد کریں۔ بظاہر مسلم لیگ (ن) کے یہ دونوں مفروضے غیر منطقی اور خوف پر مبنی ہیں یا پھر انہیں اپنے ووٹروں پر اعتماد نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی یہ حکمت عملی نئی نہیں، ماضی میں جب مرحوم قاضی حسین احمد نے اسلامک فرنٹ کی بنیاد ڈال کر نواز شریف کا اتحادی بننے کی بجائے تنہا سیاسی پرواز کا فیصلہ کیا تو اس وقت بھی مسلم لیگ (ن) نے یہی کہا تھا کہ اسلامک فرنٹ کو ووٹ ڈالنے کا مقصد پیپلز پارٹی کے اقتدار کی راہ ہموار کرنا ہو گا۔ اس وقت بھی مسلم لیگ (ن) کی یہ حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔1990ء کے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود نواز شریف 1993ء کے انتخابات میں حکومت بنانے سے محروم رہے۔ اس حکمت عملی پر اصرار داخلی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ میاں نواز شریف کے علاوہ پیپلز پارٹی اور ان کے ہم خیال دانشوروں کا بھی خیال تھا کہ نون لیگ پی ٹی آئی کے ووٹوں کی تقسیم کا براہ راست فائدہ پیپلز پارٹی کو ہو گا۔ لیکن اس وقت پیپلز پارٹی کا شہری ووٹر کافی حد تک تقسیم ہو چکا ہے۔ یہ دعویٰ کہ شہری ووٹر بدستور پارٹی کے ساتھ کھڑا ہے، حقائق کے برعکس ہے۔ لاہور کی سیاست میں تو ایسا لگتا ہے کہ اصل مقابلہ نون لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہو گی کہ نون لیگ کے سیاسی مخالفین کے پاس اپنی کمزور سیاسی پوزیشن کے باعث پی ٹی آئی کو ووٹ دینا ان کی سیاسی مجبوری ہو گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ خود عمران خان کئی برسوں سے یہ موقف اپنائے ہوئے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پس پردہ ان کے خلاف ایک سیاسی مک مکا ہو چکا ہے اور یہی نکتہ ان کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عمران خان صرف نون لیگ پر تنقید کرتے ہیں جبکہ صدر زرداری کے بارے میں وہ خاموش ہیں، حالانکہ عمران خان نے پچھلے پانچ برسوں میں اپنی سیاست کی جو بڑی بنیاد تیار کی وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کے باہمی گٹھ جوڑ، پس پردہ دوستانہ قربتوں، فرینڈلی اپوزیشن اور بری طرز حکمرانی پر مشتمل تھی۔ سیاسی اشرافیہ کا بھی اس بات پر اتفاق ہے، لیکن اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ عمران خان اپنی طرز سیاست کے ساتھ بھی مقبول ہوئے۔ نون لیگ کا اس بات پر بھی اصرار ہے کہ ان کی مقبولیت ان کے سیاسی مخالفین کی مرہون منت ہے۔ وہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ پر الزام تراشی کرتے رہے کہ وہ عمران خان کی پشت پناہی کر رہے ہیں، اب ان کے جانے کے بعد یہ الزام صدر زراری پر تھوپ دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) پر نکتہ چینی تحریک انصاف کا خصوصی ہدف ہے تاہم تمام جماعتوں کو اس بارے میں احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بطور حکومت اور حزب اختلاف مل کر انتخابی مہم کو 90دن کی بجائے 45دنوں تک محدود کیا تاکہ ان کے خلاف کوئی بڑی انتخابی مہم نہ چلائی جا سکے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق دونوں بڑی جماعتوں کے مابین جو پس پردہ مفاہمت تھی وہ بین الاقوامی دبائو کا نتیجہ تھی۔ اس دبائو کے کئی مظاہرے ہم پچھلی جمہوری حکومت میں غیر ملکی سفیروں، مشیروں اور اہم افراد کی طرف سے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مصالحتی کردار ادا کرنے سے دیکھ چکے ہیں۔ پس پردہ مصالحت کرانے میں صدر زرداری اور میاں نواز شریف کے خصوصی نمائندوں خورشید شاہ اور اسحاق ڈار کا کردار بھی بہت نمایاں ہے۔ اس لیے جو الزام شریف برادران عمران خان پر لگا رہے ہیں اس گٹھ جوڑ میں تو وہ خود کئی حوالوں سے شریک رہے ہیں۔ اگر شریف برادران کی یہ منطق مان بھی لی جائے کہ عمران خان اور صدر زرداری کا ان کے خلاف گٹھ جوڑ ہے تو اس کا عمران خان اور ان کی جماعت کو کیا فائدہ ہو گا۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ عمران خان صدر زرداری کے کندھے سے کندھا ملا کر وزیراعظم بن سکتے ہیں تو یہ کسی بھی اعتبار سے ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ عمران خان تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ وزیراعظم بنتے ہیں تو صدر زرداری سے حلف نہیں لیں گے اور انتخابات میں کامیاب نہیں ہوتے تو حزب اختلاف کا کردار ادا کریں گے۔ عمران خان پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اتحادی سیاست کو نظر انداز کر کے انتخابی میدان میں تنہا کود پڑے ہیں۔اس لیے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ان انتخابات کے نتائج میں کوئی بھی جماعت تن تنہا حکومت نہیں بنا سکے گی، یعنی مخلوط حکومت بنے گی تو پھر عمران خان کہاں کھڑے ہوں گے؟ یعنی اگر مرکز اور صوبوں میں مخلوط حکومتیں بنتی ہیں تو عمران خان اس صورت میں کافی کمزور پوزیشن میں ہوں گے۔ البتہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ مسلم لیگ (ن ) اوراور پیپلز پارٹی سیاسی مجبوریوں کے باعث دوبارہ مل کر حکومت بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔ گٹھ جوڑ کی سیاست سے مراد یہ ہوتی ہے کہ کہیں دو فریق باہمی طور پر مل کر کسی کے خلاف محاذ بنا لیں اور ناجائز طریقے سے ایک دوسرے کی مدد کر کے کسی فریق کو نقصان پہنچائیں۔ یہ گٹھ جوڑ صدر زرداری اور عمران خان کے درمیان نظر نہیں آتا۔ نون لیگ کو چاہیے کہ وہ اپنی کارکردگی اور منشور کو بنیاد بنا کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے لیکن اگر وہ ووٹروں میں کسی بھی جماعت یا لیڈر کا خوف ڈال کر ووٹروں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کریں گے تو اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ پاکستان کی سیاست اور انتخابات میں کافی نئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ جو 1990ء کی دہائی کی سیاست سے کافی مختلف ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں