پاکستان کے حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) بڑی طاقت بن کر سامنے آئی ہے۔ اگرچہ یہ بات انتخابات سے قبل بھی کہی جارہی تھی کہ نواز لیگ اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئے گی‘ لیکن اب جس انداز سے اس کی جیت ہوئی ہے حیران کن ہے۔ سیاسی مبصرین کا اندازہ تھا کہ نواز لیگ قومی اسمبلی کی 85 سے 90 نشستوں پر کامیاب ہوگی مگر اس نے قومی اسمبلی کی 125 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جو معمولی واقعہ نہیں۔ اب مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف مرکز اور پنجاب میں بآسانی سے حکومت بنا کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جہاں تک نوازشریف کے سیاسی مخالفین کا تعلق ہے ان میں تین جماعتیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل تھیں۔ سب سے بڑی حریف پیپلزپارٹی بری طرح شکست سے دوچار ہوئی۔ پیپلزپارٹی کے لیے یہ نتائج متوقع تھے۔ اس کی انتخابی حکمت عملی کارگر ثابت نہ ہوئی؛ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بھی اسے کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہ ہوا۔ اس بار پیپلزپارٹی کا زیادہ انحصار سندھ اور جنوبی پنجاب پر تھا۔ جنوبی پنجاب میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ذریعے 220 ارب ر وپے کے منصوبوں کا جال بچھایا گیا۔ وسطی پنجاب میں 22 قومی حلقوں میں اربوں روپے خرچ کیے گئے‘ مگر کچھ بھی کام نہ آیا۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے شہروں میں تو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی‘ لیکن انتخابات میں یہ پنجاب کی دیہی علاقوں میں بھی بری طرح پٹ گئی۔ جنوبی پنجاب میں اسے قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست ملی۔ پیپلزپارٹی کی اہم اتحادی مسلم لیگ (ق) بھی بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ عمران خان کی سونامی پنجاب میں میاں نوازشریف کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہیں کرسکی۔ حالانکہ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو یقین تھا کہ وہ پنجاب میں معقول تعداد میں اپنی نشستیں حاصل کریں گے‘ مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ یہ مفروضہ بھی کارگر ثابت نہ ہوسکا کہ اگر ٹرن آئوٹ 60فیصد تک ہوا تو اس کا بڑا فائدہ عمران خان کو ہوگا۔ انتخابی نتائج سے پتا چلتا ہے کہ اس کا فائدہ بھی مسلم لیگ ن کو ہوا۔ اگرچہ تحریک انصاف نے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کیے‘ لیکن نشستوں کے حصول میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا؛ البتہ خیبر پختونخوا میں عمران خان کی سونامی کی جھلک مضبوط انداز میں دیکھنے کو ملی۔ خیبرپختونخوا میں یہ نتائج متوقع بھی تھے۔ اے این پی کے بارے میں سب کا خیال تھا کہ اسے شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسے دہشت گردی کا سامنا تھا‘ لیکن اس کی کارکردگی بھی بڑا سوالیہ نشان تھا۔ عمران خان کئی برسوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا ایک مخصوص نقطہ نظر رکھتے ہیں ا ور اسی نقطہ نظر کو خیبر پختونخوا میں سیاسی پزیرائی ملی۔ مولانا فضل الرحمن کو اگرچہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں کامیابی ملی ہے لیکن یہ ان کی توقعات سے بہت کم ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم نے اپنے مینڈیٹ کو کافی حد تک برقرار رکھا ہے۔ کراچی کے انتخابات میں کافی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں جن کی بڑے پیمانے پر تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ میں فنکشنل لیگ کچھ نشستوں پرکامیابی کے باوجود پیپلز پارٹی کے لیے بڑا خطرہ پیدا نہیں کرسکتی۔ اگرچہ ان انتخابات میں تحریک انصاف کا کم نشستوں پر کامیاب ہونا بہت سے لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں، لیکن اس کے بارے میں سب ہی یہ پیش گوئی کررہے تھے کہ وہ 40 سے 50 نشستوں سے زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی۔ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ تحریک انصاف ایک معقول تعداد کے ساتھ پہلی بار پارلیمانی سیاست کا حصہ بن گئی ہے۔ پاکستان میں جہاں مضبوط سیاسی حکومت کی ضرورت ہے وہیں ایک مضبوط حزب اختلاف کی بھی قومی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کے امیدوار جہاں انتخابات ہارے ہیں وہاں ان کو جو ووٹ ملے ہیں وہ مستقبل کی سیاست میں ان کے لیے نئے سیاسی راستوں کے در وا کریں گے۔ اس لیے عمران خان کے حامیوں کو مایوس ہونے کے بجائے خوش ہونا چاہیے کہ اب وہ پاکستان کی سیاست کے اہم فریق بن گئے ہیں۔ مسلم لیگ ن آسانی کے ساتھ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنا لے گی جبکہ سندھ اور خیبر پختونخوا میں ان کے سیاسی مخالف حکومت بنائیں گے۔ بلوچستان میں مخلوط حکومت بنے گی۔ اس صورتحال میں میاں نواز شریف کی قیادت کا امتحان ہوگا۔ ماضی میں وہ اتحادی سیاست کا کوئی اچھا تجربہ نہیں رکھتے۔ اب انہیں خیبر پختونخوا میں اگر عمران خان حکومت بناتے ہیں تو ان کے ساتھ اچھے تعلقات پیدا کرنے ہوں گے۔ اسی طرح سندھ میں پیپلزپارٹی اور ا یم کیو ایم کی مخلوط حکومت کے ساتھ بھی انہیں چلنا ہوگا۔ خیبر پختونخوا دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اہم علاقہ ہے۔ یہاں عمران خان کے مخصوص نقطہ نظر اور مرکز میں میاں نوازشریف کی حکومت میں ہم آہنگی پیدا کرنا ایک مسئلہ ہوگا۔ میاں نوازشریف نے اچھی بات کی ہے کہ وہ سب جماعتوں کو ساتھ لے کر قومی مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں عمران خان کو حکومت بنانی چاہیے۔ یہ پیشکش خوش آئند ہے۔ اس وقت نوازشریف کے سامنے تین بڑے چیلنجز ہیں جن میں دہشت گردی‘ معاشی بدحالی اور بری طرز حکمران کے خاتمے کے علاوہ بلوچستان اور کراچی کے سنگین مسائل اہم ہیں۔ اگر میاں نوازشریف اس میں موثر کردار ادا کرتے ہیں تو اس صورت میں سیاسی مخالفین کو بھی ان کی حمایت کرنی چاہیے۔