"SAC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف اور مستقبل کے امکانات

انتخابات کے نتائج پر تحریک انصاف اور ان کے پرجوش نوجوان طبقہ میں کافی مایوسی پائی جاتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ عمران خان کی قیادت میں سونامی لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ایک مفروضہ یہ بھی تھا کہ اگر انتخابات کا ٹرن آئوٹ 50فیصدسے زیادہ بڑھا تو اس کا براہ راست فائدہ عمران خان کو ہوگا۔ لیکن اُن کی جماعت کا موقف غلط ثابت ہوا ۔ اگرچہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو کافی نشستیں ملیں‘ لیکن پنجاب میں بڑا دھچکا لگا۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ انھیں پنجاب میں دھاندلی کے ساتھ ہرایا گیا۔ ممکن ہے کہ اس میں کچھ حقیقت بھی ہو، لیکن عمران خان کی شکست میں ان کی جماعت کا داخلی بحران اہم تھا۔ انہی کالموں میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف کے داخلی انتخابات کا انعقاد پارٹی کے لیے نقصان کا باعث ہوگا۔ مثلاً لاہو رمیں پارٹی کے انتخابات میں جس طرح کی خرید و فروخت کا عمل ہوا ،وہ افسوسناک تھا۔ لیکن پارٹی انتخابات میں بدنامی کا سبب بننے والوں کے بارے میں قائدین کی خاموشی نے پارٹی کے اندر اور باہر مایوسی کو جنم دیا۔ سیاسی جماعتوں میں داخلی انتخابات پارٹیوں کے وجود کے لیے اہم ہیں لیکن جہاں تک تحریک انصاف میں انتخابات کا تعلق ہے، اس کے بارے میں بلاوثوق کہا جا سکتا ہے کہ صحیح کام کے لیے غلط وقت چُنا گیا؛ چنانچہ تحریک کے انتخابات نے پارٹی کے اندر تضادات کو نمایاں کیا اور گروہ بندی نے مسلم لیگ ن کو فائدہ پہنچایا۔ اسی طرح ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران electable کو نظر انداز کرنے کی حکمت عملی نے بھی کامیابی کے امکانات کو کم کردیا، کیونکہ انتخابی سیاست میں ’’سرکردہ افراد‘‘ کی بہت اہمیت ہے۔ نواز شریف ان حقائق سے واقف تھے؛ چنانچہ انھوں نے electableکو جمع کرکے اپنی کامیابی کو یقینی بنالیا، جبکہ نون لیگ کے مقابلے میں تحریک انصاف کے بیشتر امیدوار نئے اور ناتجربہ کار تھے۔ شہروں اور دیہات میں مضبوط دھڑے بندی نہیں رکھتے تھے۔ تحریک کے امیدواروں کا زیادہ تر انحصارعمران خان کی شخصیت پر تھا، جبکہ حلقہ جاتی سیاست میں ’’قابل انتخاب‘‘ امیدوار بھاری ذاتی ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ عمران خان کی ناکامی میں ان کے بعض فیصلے اور ان کے بعض غیر سیاسی مشیر بھی ہیں۔ تحریک انصاف کو دھاندلی کے الزامات سے ہٹ کر اپنی ناکامی کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینا ہوگا۔ مسلم لیگ)ن(کو پنجاب میں 49فیصد ووٹ پڑے، جبکہ ان کو 78.4فیصدنشستیں ملیں‘ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے صرف 18.7فیصد ووٹ لیے اور اُسے 5.4فیصد نشستیں ملیں۔ اسی طرح سندھ اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی انتخابی سیاست میں عدم دلچسپی کا بھی تجزیہ ہونا چاہیے کہ وہاں میدان کیوں کھلا چھوڑا گیا۔ ناکامی کے باوجود تحریک انصاف نے انتخابات میں اپنے مخالفین کو اپنی اہمیت کا احساس دلایا ہے۔ انتخابات سے قبل تحریک انصاف کو ان کے ناقدین سیاسی جماعت ہی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ، بلکہ عمران خان کے اجتماع کو ایک ہجوم ہی سمجھا جاتا تھا، لیکن اب یہ جماعت انتخابی نتائج کے بعد پاکستان کی پارلیمانی سیاست کا اہم حصہ بن گئی ہے ۔ ان انتخابات میں جہاں مسلم لیگ)ن(کو،ایک بڑی جماعت ہونے کی حیثیت سے ،ایک کروڑ48لاکھ 65ہزار ووٹ ملے ہیں ، وہیں تحریک انصاف نے د وسرے نمبر پر 76لاکھ 79ہزارووٹ حاصل کرکے اپنی اہمیت ثابت کردی، جبکہ ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی 68لاکھ 55ہزار ووٹ حاصل کرسکی۔ان انتخابات میں پنجاب کے شہری علاقوں اور اپر کلاس اور مڈل کلاس میں تحریک انصاف کی مقبولیت کھل کر سامنے آئی ، جبکہ بڑے اور چھوٹے کاروباری طبقے سمیت لوئر مڈل کلاس میں نواز شریف کافی آگے نظر آئے۔ تحریک انصاف کو اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ ان کے کردار کی وجہ سے پاکستان میں لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں اور عورتوں کا ووٹ ڈالنے کی طرف رجحان بڑھا ہے ، جوجمہوری عمل کے لیے اچھا شگون ہے ۔ اسی طرح تحریک انصاف کو جن حلقوں میں انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑا وہاں بھی اس کے امیدواروں نے خاطر خواہ ووٹ حاصل کیے اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ان کی برتری واضح تھی۔ ملک میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے امکانات کافی روشن ہیں ۔ ان انتخابات میں کیونکہ مقامی حلقے چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے یہ انتخابات تحریک انصاف کے لیے کافی سود مند ہوسکتے ہیں ، لیکن شرط یہ ہے کہ جو انتخابی حکمت عملی حالیہ انتخابات میں نااہل لوگوں کو بنیاد بناکر اختیار کی گئی اس سے اب گریز کرنا چاہیے۔عمران خان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اب پنجاب اور خیبر پختونخواکے ساتھ ساتھ سندھ اور بلوچستان پر اپنی توجہ بڑھائیں۔ کراچی میں تحریک انصاف کو اگرچہ بہت زیادہ نشستیں نہیں ملیں ، لیکن ایم کیو ایم کے مقابلے میں تحریک انصاف ایک بڑی متبادل قوت بن کرسامنے آئی ہے، عمران خان کو اب کراچی پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ مستقبل کی سیاست میں عمران خان کو دو بڑے چیلنج درپیش ہونگے۔ اول: پارٹی میں جو بھی کمزوریاں ہیں ان کا سراغ لگا کر انہیں دور کرنے پر توجہ دیں۔ دوئم: انہیں ذمہ دار اور مضبوط حزب اختلاف کے کردار میں اپنا اچھا ماڈل پیش کرنا ہوگا۔ یہ کام وہ تنہا نہیں کرسکیں گے، لہٰذا وہ حزب اختلاف کی دیگر قوتوں کے ساتھ بھی اپنے فاصلے کم کریں۔ انہیں چاہیے کہ وہ مرکز اور پنجاب میں ایک مضبوط شیڈو کابینہ کی تشکیل کریں جو تمام وزارتوں اور حکومتی کارکردگی پر نظر رکھے۔ تحریک کا حزب اختلاف کا کردار محض الزام تراشیوں اور محاز آرائی کی بجائے ایشوز کی بنیا د پر ہونا چاہیے۔ عمران خان کا اصل امتحان خیبر پختونخوا کی حکومت ہوگی جہاںاسے رول ماڈل پیش کرنا ہے ۔ عمران خان اپنی سیاست میں نتیش کمار ماڈل کی بہت تعریف کرتے ہیں ، لیکن اب اس طرز کا ماڈل انھیں اس صوبہ میں بھی دینا ہوگا۔ عمران خان کی مستقبل کی سیاست میں کامیابی کا بڑا انحصار خیبر پختونخوا کی حکومت کی کارکردگی پر ہوگا۔بالخصوص عمران خان کو اپنے وعدوں کے مطابق وزیر اعلیٰ ہائوس، وزراء کی فوج، بے جااخراجات، پروٹوکول ، سیاسی تقرریوں، مہنگی گاڑیاں ،کرپشن اور دہشت گردی کے خاتمہ سمیت مضبوط مقامی حکومت، کمیونٹی پولیس، انصاف، تعلیم ،صحت اور امن و امان پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اگر وہ یہ سب کچھ نہ کرسکے تو ان کی مستقبل کی سیاست ایک بڑا سوالیہ نشان ہوگی!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں