نئی حکومت کو جن بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوگا ، ان میں بلوچستان کا بحران بہت نمایاں ہے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کا ایک بڑا طبقہ بلوچستان کے مسائل کو صوبائی معاملہ سمجھتا ہے ۔ حالانکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے او ر اسے قومی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ہمارے نزدیک گزشتہ ایک دہائی میں وفاق نے جس انداز میں بلوچستان کے مقدمہ کی پیروی کی وہ درست حکمت عملی نہیں تھی ۔ اسی غلط حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ بلوچستان اور اسلام آباد میں موجود پہلے سے فاصلوں میں کمی کی بجائے اور اضافہ ہوا۔اصل میں مرکز اور صوبے میں اعتماد کا بحران ہے ۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں این ایف سی ایوارڈ سمیت اٹھارویں ترمیم کے تحت دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کو بھی صوبائی خود مختاری کے حوالے سے بہت کچھ ملا لیکن پیپلزپارٹی کی مرکز اوردیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بری طرز حکمرانی نے وہاں کے حکومت پر لوگوں کا اعتماد بری طرح مجروح کیا۔بالخصوص ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، فرقہ ورانہ فسادات اور لاپتہ افرادکی بازیابی جیسے امور پر بلوچستان اور قوم پرستوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔بلوچستان کے قوم پرستوں کا موقف ہے کہ یہاں اصل حکمرانی سکیورٹی اداروں کی ہے اور وہی ان واقعات کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔تاہم اب بلوچستان اور وفاق کے درمیان بہتر تعلقات کی کنجی میاں نوازشریف کے ہاتھ میں ہے۔میاں نوازشریف کی اہمیت اس لحاظ سے مسلم ہے کہ انہیں بلوچستان کی علاقائی قیادت میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔دوئم مرکز سمیت بلوچستان میں ان کی مخلوط حکومت ہوگی جو ان کے لئے کچھ کرنے کا ماحول پیدا کرسکتی ہے۔یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ محض بلوچستان ہی نہیں ، پورے ملک میں ایک عمومی خیال یہی ہے کہ میاں نوازشریف کی حکومت حالات کو سدھارنے میں معاون ثابت ہوگی۔ میاں نوازشریف کا پہلا امتحان بلوچستان میں صوبائی حکومت کی تشکیل تھا۔بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ میاں صاحب وزیراعلیٰ کے منصب کے لیے مسلم لیگ ن ہی میں سے کسی کا انتخاب کریں گے لیکن انہوں نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ نامزد کرکے بڑا فیصلہ کیا ہے۔اس پر میاں صاحب یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں اور یہ فیصلہ بلوچستان کے بحران کے حل میں ایک اچھی ابتدا ثابت ہوسکتا ہے۔اسی طرح انہوں نے گورنر بلوچستان کے لیے بھی ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ نیا گورنر پشتون خوا ملی عوامی پارٹی سے ہوگا۔اس فیصلہ سے انہوں نے چھوٹے صوبے اور قوم پرستوں کو ایک اچھا پیغام دیا ہے کہ وہ قوم پرستوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔بلوچستان کو اس وقت ایک ایسی صوبائی حکومت اور قیادت کی ضرورت ہے جو سب کو یکجا کرے، ساتھ لے کر چلے اور اہم معاملات پر سب کا اعتماد حاصل کرسکے۔دراصل بلوچستان کے وہ قوم پرست جو جمہوری سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور انتخابات میں حصہ لے کر سامنے آئے ہیں وہ میاں نوازشریف کے ساتھ مل کر وفاق سے ایک نئے سمجھوتے کے خواہش مند ہیں۔ بلوچستان کے قوم پرست جواب پارلیمنٹ کا حصہ ہیں وہ مرکز کے ساتھ نئے مذاکراتی عمل سے گزرنا چاہتے ہیں کہ اس صوبے میں فوج اور سکیورٹی ایجنسیوں کا کیا کردار ہوگا، ایف سی کیا کرے گی اور وفاقی حکومت کا اس صوبے کے ساتھ نیا سیاسی ، مالیاتی اورا نتظامی معاہدہ کیا ہوگا۔یعنی وہ بلوچستان کے بارے میں وفاق سے نئے ٹی او آر طے کرنے کے خواہش مند ہیں۔پیپلزپارٹی کی سابقہ مرکزی اور صوبائی حکومت نے بلوچستان کے بارے میں اسی سوچ کو پروان چڑھایا کہ ہم ان تمام معاملات میں بے بس ہیں۔ان کے بقول اصل کنجی فوج اور سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس ہے، بلوچستان ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ اس لئے اب یہ سوال ضرور اہم ہوگا کہ اس سلسلے میں میاں نوازشریف کی حکمت عملی کیا ہوگی اور کیا وہ بڑے فیصلوں کی جانب بڑھ سکیں گے؟اگر میاں صاحب بلوچستان کے معاملے میں آگے بڑھتے ہیں تو بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ کیا عسکری قیادت انہیں ایک خاص حد سے آگے بڑھنے کی اجازت دے گی؟ اس لیے بلوچستان کے حالات میں تبدیلی کے لیے میاں صاحب اور فوج کے درمیان تعلقات کار کی بہتری بلوچستان کے مقدمہ کے لیے بہت ضروری ہے۔کیونکہ جب تک سیاسی و عسکری قیادت مل کر کوئی موثر حکمت عملی اختیار نہیں کرے گی، معاملات میں کسی بڑی تبدیلی کے امکانات محدود ہوں گے۔میاں صاحب اور فوجی قیادت کو بلوچستان کے لوگوں میں پائی جانے والی بے چینی کے اسباب، خاص طور پر گمشدہ افراد اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے عملی اقدامات کرکے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔میاں نوازشریف بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کے علاوہ پشتون قیادت کے بھی ساتھ کھڑے ہیں جو ایک اچھی حکمت عملی ہے ، کیونکہ دونوں طبقوں کو ساتھ لے کر ہی بلوچستان کا کوئی مضبوط سیاسی حل تلاش کیاجاسکتا ہے، اگرچہ سردار اختر مینگل انتخابات میں حصہ لے کر اسمبلی کا حصہ بن گئے ہیں ،لیکن وہ انتخابی عمل سے سخت نالاں نظر آتے ہیں۔ان کے بقول ان کی جماعت کو ایک خاص سازش کے تحت انتخابات میں بڑی جیت سے دور رکھا گیا ہے۔بگٹی قبیلہ پہلے ہی انتخابات کا بائیکاٹ کرچکا ہے اور ثناء اللہ زہری اور سردار عطااللہ مینگل کے درمیان تعلقات میں بھی سرد مہری پائی جاتی ہے۔بلوچستان کا وہ طبقہ جو ریاست کے خلاف بندوق اٹھا کر جدوجہد کررہا ہے وہ بھی اسلام آباد کے ساتھ فوری طور پر کسی نئے معاہدے کے لیے تیار نہیں۔اس لیے نئی حکومت کا اہم امتحان یہی ہوگا کہ وہ ان تمام قوتوں کے درمیان داخلی اختلافات کے باوجود انہیں کس طرح سے ساتھ لے کرچلتے ہیں،کیونکہ بلوچستان کے لوگوں اور بالخصوص وہاں کی قیادت کو Main stream سیاست کا حصہ بنانا بے حد اہم ہے،لیکن یہ آسان کام نہیں ہے اور نہ ہی محض اعلانات اور تقریرں سے کامیابی ممکن ہے،اس کے لیے حکومت کو پہلے چھ ماہ میں کچھ بڑے اور چھوٹے عملی اقدامات کرکے وہاں کے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا، کیونکہ اگر ابتدا میں کچھ نہیں ہوسکا تو آگے جاکر کوئی بڑا قدم اٹھانا مشکل تر ہوجائے گا۔چنانچہ اب میاں صاحب کے علاوہ بلوچستان کی جماعتوں اور بالخصوص نامزد وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ پر بھی ذمہ داری عائد ہوگی، کہ وہ اچھی حکمرانی کے ذریعے بلوچستان کے لوگوں میں موجود احساس محرومی دور کریں اور ان پر کی گئی زیادتیوں کے ازالے کے لیے کچھ کردکھائیں۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان میں موجود ناراض لوگوں کو واپس ریاست کی رٹ اور وفاق کی سیاست میں لائیں مثبت پیغام بلوچستان کی قوم پرستوں کو دیا گیا ہے اس کا جواب بھی مرکز اور وفاقی حکومت کو مثبت انداز میں ہی ملنا چاہیے، وگرنہ حالات میں تبدیلی مشکل ہوگی۔اگر بلوچستان کے معاملات درست سمت میں نہ جاسکے تو اس کا براہ راست اثر قومی سیاست پر بھی پڑے گا۔میاں صاحب کا حالیہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بلوچستان کے معاملات پر سابقہ حکومت کی طرح آنکھ بند کرکے آگے نہیں بڑھنا چاہتے ۔ اگران کے ابتدائی اقدامات کو سراہا گیا اور ان کا مثبت جواب ملا تو ’ بہتر اور مضبوط بلوچستان ‘‘ کی منزل کی جانب سفر کا آغاز ہو سکتا ہے ۔